1947ء میں تقسیم ہند کے وقت سے پاکستان کی شناخت زرعی ملک کے طور پر رہی ہے اور حقیقت بھی ہے کہ روز اول سے پاکستان کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہی رہا ہے ۔ گندم ، کپاس، چاول ، مکئی ، گنا، مختلف طرح کے دالیں اور لائیوسٹاک کے لیے چارہ ہماری معیشت کا لازمی جزو اور بقا کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں سے پاکستان کی زراعت عالمی سطح پر ظہور پذیر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے ۔گزشتہ چند برسوں سے صدیوں سے جاری موسموں کی لگی بندھی روایت فضا میں بڑھتی ہوئی آلودگی کے سبب تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ بے موسمی بارشوں نے طوفانوں کی شکل اختیار کرلی ہے ۔ ان میں جب ریکارڈ توڑ بے موسمی طوفانی بارشوں کا پانی شامل ہوتا ہے تو اس سے ہونے والی تباہی 2022ء کے تباہ کن سیلاب کی صورت میں سامنے آتی ہے جس نے پاکستان کو خوراک کی کمی کے حوالے سے 121 ممالک میں 99ویں درجہ پر لاکھڑا کیا۔
ایک عالمی ادارے کے مطابق2022ء کے سیلاب نے پاکستان میں86لاکھ سے زیادہ افراد کو خوراک کی کمی سے دو چار کردیا۔ ان میں 25لاکھ افراد ایسے تھے جو مسلسل فاقوں کی وجہ سے موت کی قریب پہنچ گئے۔ سڑکیں اور پل ٹوٹنے کی وجہ سے ہزاروں ایسے دیہات تھے جہاں پھنسے ہوئے خاندانوں تک خوراک پہنچانا مشکل ہوگیا تھا۔ ان حالات کو مد نظررکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے پاکستان کو واشگاف الفاظ میں آگاہ کردیا تھا کہ اس طرح کی سیلابی کیفیت کے لیے پاکستان کی حکومت اور عوام کو ہرسال تیار رہنا چاہیے۔ اس آگاہی کا واضح اشارہ آنے والے برسوں میں خوراک کی کمی کے حوالے سے تھا جو ہر سال تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا رہی تھی۔ خاص کر خوراک کیلئے استعمال ہونیوالی اجناس کی فصلوں کو سیلاب کی وجہ سے پہنچنے والے دوہرے نقصان کا دبائو عوام پر ہی آنا تھا۔
2022ء کے سیلاب میں اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں زراعت کے حوالے سے 17لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہی سے دو چار ہوئیں۔ لائیو سٹاک میں 8 لاکھ جانور سیلاب کی نذر ہوئے جس کی بدولت گوشت اور دودھ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا۔ ملک جو پہلے ہی معاشی دبائو کا شکار تھا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے گھٹنوں پر آگیا۔ عالمی سطح پر پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور اس کی وجہ سے تباہ کن بارشوں اورسیلاب کے حقائق کو تسلیم کرنے کے باوجود پاکستان کی امداد کے لیے قائم کیے گئے فنڈ میں کیے گئے وعدوں کے برعکس بہت کم امداد فراہم کی گئی ۔ ایسے میں عالمی ماہرین کی طرف سے Climate-Smart Agriculture(CSA)کا تصور سامنے آیا جس میں پاکستان میں موجود لاکھوں ایکڑ بنجر زمین کو زیرکاشت لاکر اسے جدید سائنسی تقاضوں کے مطابق اس انداز سے زرعی پیداوار کیلئے بروئے کار لایا جانا تھا جو موسمی اثرات سے محفوظ ہونے کے ساتھ ہی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کا سبب ہو۔
سرسبز پاکستان منصوبے پر کام کا آغاز چھ ماہ پہلے ہی ہوچکا تھا جس میں سعودی عرب سمیت متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ریاستوں نے بھی دلچسپی کا اظہار کیا کیونکہ آنے والے برسوں میں عرب ریاستوں کو بھی خوراک کے بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جبکہ روس اور یوکرائن کی جنگ نے مغربی ممالک کے اندر بھی یہ احساس اجاگر کیا کہ صنعتی ترقی کی معراج کو پہنچنے کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی ضرورت خوراک ہے۔ اگر لوگوں کیلئے گندم اور کھانے پینے کی دیگر اجناس کی پیداوار بڑھانے کی طرف توجہ نہ دی گئی تو باقی ہر طرح کی ترقی دھری رہ جائے گی ۔ یوں سب کی توجہ پاکستان پر مبذول ہوئی جہاں زراعت کے فروغ سے عالمی سطح پر خوراک کی کمی کے بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں10جولائی 2023ء کو اس حوالے سے تاریخی دن قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس روز سرسبز پاکستان منصوبے کو عملی شکل دینے کیلئے ’’گرین انیشی ایٹیو پروگرام ‘‘کی افتتاحی تقریب کا انعقاد ہوا۔ تقریب میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا خطاب اس حوالے سے بڑا اہم تھا کہ پاک فوج کی سرپرستی اور نگرانی میں ہی سرسبز پاکستان منصونے آگے بڑھنا ہے۔ اپنے خطاب میں آرمی چیف نے اس احساس کو اجاگر کیا کہ پاکستان کو اللہ نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے اور یقین دلایا کہ بطور قومی ادارہ پاک فوج ملک کی معاشی ترقی میں ہرطرح کا تعاون فراہم کرنے کیلئے تیار ہے۔ انھوں نے درست کہا کہ مسلمانوں کیلئے دوہی راستے ہیں۔ جب مصیبت آتی ہے تو صبرکرتا ہے اور خوشی پر شکر بجالاتا ہے ۔ اپنی تقریر میں جنرل سید عاصم منیر نے پیغام دیا کہ ہم پاکستانی باصلاحیت قوم ہیں تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب مل کر ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں ۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں سرسبز پاکستان منصوبے میں 30سے 40ارب ڈالر سرمایہ کاری کی توقع کا اظہار کرتے ہوئے اس منصوبے کو ملک کا دوسرا سبز انقلاب قرار دیا ۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ہمارے ایک سیاستدان نے بطور وزیراعظم آج اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے بڑے پن کا ثبوت دیا کہ پاکستان کے اندر پہلا زرعی انقلاب صدر جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں آیا۔ صرف زرعی انقلاب ہی نہیں بلکہ پاکستان ا س دور میں خطے کا واحد ملک تھا جس نے صنعت کاری کی بنیاد رکھی اور اس شعبہ میں بھی انقلاب برپا کردیا ۔ اب جس اجتماعی سوچ کے ساتھ پاکستان میں سرسبز انقلاب کی بنیاد رکھی گئی ہے یقینا یہ اقدام پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ثابت ہوگا۔
٭…٭…٭