عرشِ برِیں سے ،کم نہیں ، گھر بار ،آپ کا   (1)

معزز قارئین ! میرے آبائواجداد صدیوں سے اجمیر میں آباد تھے ، جنہوں نے حضرت خواجہ غریب نواز کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارا خاندان میرے والد صاحب ’’ تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ ) کارکن‘‘ رانا فضل محمد چوہان کی سربراہی میں پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہوا۔ 1956ئ￿ میں مَیں نے میٹرک کِیا۔
’’ دربار حضرت داتا صاحب ! ‘‘
مَیں 1955ء میں نویں جماعت کا طالبعلم تھا جب میرے والد صاحب مجھے اپنے ساتھ لاہور لائے۔ مَیں اْن کی قیادت میں احاطہ دربار داتا گنج بخش میں حاضر ہْوا تو ہم دونوں نے پہلے (اپنے جدّی پشتی پیر و مْرشد ) خواجہ غریب نواز، نائب رسول فی الہند حضرت معین اْلدّین چشتی کی چلّہ گاہ پر حاضری دِی اور پھر بارگاہِ حضرت داتا صاحب میں۔ پھر یہ میرا معمول بن گیا۔ دراصل مجھے میرے والد صاحب نے حضرت داتا گنج بخش کی بارگاہ میں حاضری کے آداب سِکھائے تھے۔ میرے والد صاحب مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جاتے تھے۔ 1956ء میں مَیں نے میٹرک کِیا اور اردو زبان میں پہلی نعت لکھی جو ، لائل پور (فیصل آباد) کے ڈیلی ’’بزنس رپورٹ‘‘ میں شائع ہْوئی۔ مَیں 1960ء میں اردو اور پنجابی کا باقاعدہ شاعر ہو گیااور مسلک صحافت اختیار کرلِیا۔
’’فضل رحیم ، محکم خان !‘‘
27/26 رمضان 1323ھ (15/ 16 دسمبر 1905 ئ) میرے دادا جی رانا عبداْلرحیم چوہان کا سِکھوں کی ریاست نابھہ میں انتقال ہْوا تھا اور میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کا 26/27 رمضان20 14ھ (14/15 جنوری 1999ئ) کو 88 سال کی عمر میں لاہور میں وفات پا گئے تھے۔ رانا فضل محمد چوہان میرے والد صاحب کا نام ہے ، رانا عبداْلرحیم چوہان میرے دادا جی تھے اور رانا محکم خان چوہان میرے پردادا، اپنے والد صاحب کی وفات کے ایک سال بعد مَیں نے اِن تینوں ناموں کا ایک مصرع۔ ’’ فضل ِ رحیم محکم خان ‘‘ بنا دِیا، جس کی نظم لکھ دِی۔
 معزز قارئین! نظم کے صرف دو بند پیش کر رہا ہْوں۔ ملاحظہ فرمائیں … 
بندہ اِیمان و اِیقان!
مردِ جری، مردِ میدان!
صاحب عظمت صاحب شان!
فضلِ رحیم، محکم خان!
…O…
خاک پائے، شاہِ مدینہ!
یادِ علیؓ سے روشن سِینہ!
خواجہ چشتی سے فیضان!
فضلِ رحیم، محکم خان!
…O…
معزز قارئین ! مجھے یقین ہے کہ ’’میرے والد صاحب آج بھی ، میری زندگی میں میری راہنمائی کرتے ہیں !‘‘۔ 
’’ شاعرِ نظریہ پاکستان !‘‘
معزز قارئین ! 20 فروری 2014ء کو ’’ نظریہ  پاکستان کانفرنس‘‘ کے موقع پر ’’نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری میرے دوست، سیّد شاہد رشید (اب مرحوم) کی فرمائش پر مَیں نے ایک ملّی ترانہ لکھا ، جس پر ’’ مفسرِ نظریہ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامی نے مجھے’’ شاعرِ نظریہ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا۔ ترانے کے چار شعر پیش خدمت ہیں …
پیارا پاکستان ہمارا ، پیارے پاکستان کی خیر!
پاکستان میں رہنے والے ، ہر مخلص انسان کی خیر!
…O…
خوابِ شاعر مشرق کو شرمندہ تعبیر کیا!
روزِ قیامت تک ، کردار قائد والا شان کی خیر!
…O…
جدّوجہدِ مادرمِلّت لاثانی اور لافانی!
مادرمِلّت کے سارے ، فرزندوں کے ، اَوسان کی خیر!
…O…
خِطّہ پنجاب سلامت ، خیبر پختونخوا ، آباد!
قائم رہے ہمیشہ ، میرا سِندھ ، بلوچستان کی خیر!
…O…
’’زندہ رہیں گے مجید نظامی!‘‘
معزز قارئین ! 26 جولائی 2014ء کو (26/27 رمضان اْلمبارک 1435 ہجری کی رات) جنابِ مجید نظامی عالم فانی سے عالم جاودانی کو روانہ ہو گئے تھے۔ یاد رہے کہ ’’26/ 27 رمضان اْلمبارک 1366ہجری ،14 اگست 1947ء کو قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان قائم ہْوا تھا!‘‘۔
 معزز قارئین !۔ جنابِ مجید نظامی کے وِصال پر بھی مَیں نے نظم لکھی تھی، انشائ￿ اللہ اِس کا یہ شعر ہر دَور میں زندہ رہے گا۔ ملاحظہ فرمائیں … 
’’ رَواں ہے ، چشمہ نْورف کی ،صْورت،
ہر سْو، اْن کی، ذاتِ گرامی!
جب تک، پاکستان ہے، زندہ،
زندہ رہیں گے مجید نظامی!‘‘
…O…
معزز قارئین ! تحریک پاکستان اور دوسری قومی خدمات کے معترف جنابِ مجید نظامی کی عظمت بیان کرتے ہْوئے مَیں نے کئی نظمیں لکھی ہیں ، ایک نظم کے صرف تین شعر پیش کر رہا ہوں ، ملاحظہ فرمائیں …
خوابِ شاعرِ مشرق، کی تعبیر کا ، پھر اَرمان ، کھپّے!
قائدِاعظم کے اَفکار سے ، رَوشن پاکستان ، کھپّے!
…O…
مذہب ، مِلّت ، رنگ ، نسل کی ، کوئی بھی ، تفریق نہیں !
 خْود کْش حملہ آوروں کو تو ہر اِنسان کی جان ، کھپّے!
…O…
عزمِ نو کی ، مَشعل لے کر ، اْٹّھیں پِھر ، اَربابِ قلم!
مِثلِ عزمِ حمید نظامی عزمِ عالی شان ،کھپّے!
…O…
’’ حاصلِ زندگی !‘‘
روزنامہ ’ ’سیاست‘‘ لاہور کے ایڈیٹر اور مختلف قومی اخبارات کے کالم نویس کی حیثیت سے مَیں مختلف صدورِ مملکت اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے ساتھ آدھی دْنیا کی سیر کر چکا تھا، پھر یہ میری خوش قسمتی تھی / ہے کہ ’’مجھے ’’نوائے وقت‘‘ کے کالم نویس کی حیثیت سے ، ستمبر 1991ء میں صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رْکن کی حیثیت سے ،اْن کے ساتھ ، خانہ کعبہ میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہْوئی۔
معزز قارئین ! مجھے یقین ہے کہ ’’ اِس کا ثواب یقینا ’’مفسرِ نظریہ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامی کو ، بھی ملا ہوگا!‘‘۔ 
’برکاتِ خواجہ غریب نواز!‘‘
معزز قارئین !۔11 جولائی 1973ء کو، مَیں لاہور میں روزنامہ ’’ سیاست‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ 1980ء کے اوائل میں میرے خواب میں ،خواجہ غریب نواز میرے گھر رونق افروز ہْوئے۔آپ نے میری طرف مْسکرا کر دیکھا۔ مَیں لیٹا ہْوا تھا اور جب مَیں نے اْٹھ کر اْن کی خدمت میں سلام عرض کِیا تو ،وہ مْسکراتے ہْوئے غائب ہوگئے۔ آنکھ کْھلی تو مَیں نے اشارے سے اپنی اہلیہ مرحومہ (نجمہ اثر چوہان) کو جگایا اور اْن سے پانی مانگا۔ اْنہوں نے کہا کہ ’’ہمارے بیڈ روم میں تو خْوشبو پھیلی ہوئی ہے؟ ‘‘۔ پھر خواجہ غریب نواز کی برکات سے میرے لئے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رْکن کی حیثیت سے کئی غیر ملکی دوروں کے دروازے کْھل گئے تھے ، پھر کیا ہْوا؟۔ 
………………… (جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن