لاہور(نامہ نگار)جنوبی چھاو¿نی کے علاقے سے 4سالہ بچے یوسف کے اغواءاور اس کی بازیابی کیس میں انویسٹی گیشن پولیس کی سنگین غفلت سامنے آئی۔بچے کواغواءکرنے والی ملزمہ خاتون عظمی اعلی تعلیم یافتہ ٹیچر اورذہنی مریض ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خاتون عظمی بچے کو اغوا کر کے رکشے میں بٹھا کر لے گئی۔ اس دوران بدنیت ہونے پر رکشہ ڈرائیور عظمی کو چمڑا منڈی لے گیاجہاں اس نے اپنے دوست کےساتھ مل کرعظمی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد چھوڑ دیا تھا۔ جس کے بعد خاتون بچے کو لے کر ٹرین کے ذریعے راولپنڈی پہنچی جہاں راولپنڈی پولیس نے انہیں پکڑ کر تھانے سے شیلٹر ہوم میں منتقل کر دیا۔شیلٹر ہوم سے خاتون ٹیچر سے تصاویر پولیس ایپ میں اپ لوڈ کی گئیں۔ بچے کی تصویر لاہور پولیس کی ویب سائٹ پر ڈالی گئی،تو وہ تصویر سے میچ کرگئی اور پولیس نے راولپنڈی سے بچہ بازیاب کراکے لاہور میں پریس کانفرنس کر دی جبکہ خاتون عظمی کو بغیر میڈیکل کے چالان کر کے جیل بھجوا دیا گیا۔بعدازاں پکڑے گئے رکشہ ڈرائیور نے تفتیش کے دوران خاتون سے زیادتی کا اعتراف کیا تو حقائق سامنے آنے پر وزیراعلیٰ پنجاب نے معاملے کا نوٹس لیااوراعلیٰ افسران پر مشتمل کمیٹی تشکیل دےدی ہے، جس میں ایڈیشنل آئی جی ذوالفقار حمید،ڈی آئی جی محمد ادریس ، ایس ایس پی شہباز وزیر شامل ہیں وزیراعلیٰ پنجاب نے کمیٹی کو واقعہ کی جامع انکوائر ی کر کے رپورٹ جمع کرانے کاحکم دے دیا ہے۔