جنیوا میں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے 53 ویں اجلاس میں پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے رپورٹ پر گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی نمائندے نے پاکستان پر تنقید کی اور اجلاس کے دوران پاکستان سے جبری گمشدگیوں، تشدد، پر امن احتجاج پر کریک ڈاو¿ن اور مذہبی اقلیتوں پر تشدد کو روکنے کے لیے کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔کیا بات ہے اسرائیل کے نمائندے کی، کیا کمال کام کیا ہے، انسانی حقوق کی اتنی تکلیف اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے اس ترپنویں اجلاس سے پہلے کسی کو ہوئی اور نہ شاید اس کے بعد کبھی ہو۔ مطلب کہ شرم نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ اسرائیل کے نمائندے کو پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے ان فلسطینیوں کو دیکھ لینا چاہیے تھا جو روزانہ اسرائیلی فوج پر تھوکتے ہیں، اس ظالم اور قبضہ مافیا کے ظلم کا سامنا کرتے ہیں، انسانی حقوق کی بات کرنے سے پہلے اس نمائندے کو ان اسرائیلی جہازوں کی بمباری دکھانی چاہیے، مسجد اقصی کی حرمت کو پامال کرنے والی ویڈیوز دکھائی جانی چاہیں اس عظیم مسجد میں جوتوں سمیت داخل ہونے اور نہتے فلسطینیوں پر گولیاں برسانے کی ویڈیوز دکھائی جانی چاہیں تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ دنیا میں اگر انسانی حقوق کے حوالے سے کسی کو بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے تو اس فہرست میں اسرائیل پہلے نمبر پر آتا ہے۔ امریکہ اور بھارت کا نمبر اس کے بعد ہے۔ اس متعصب نمائندے کو فلسطین میں نہتے مسلمانوں کا بہتا خون اور طاقت کے زور پر اپنی قائم کی ہوئی ریاست نظر نہیں آتی، کیا اسرائیل کا قیام ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مبنی نہیں ہے۔ کہیں اسرائیل کو تکلیف اس لیے تو نہیں کہ افواج پاکستان نے نو مئی کو اندرونی و بیرونی سازش ناکام بنا کر اسرائیل اور اس کے ساتھیوں کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا ہے۔ پاکستان کے وہ دشمن جو نو مئی کو پاکستان میں خانہ جنگی اور نعشیں گرنے کے منتظر تھے، پاکستان میں بدامنی، عوام اور فوج کو آمنے سامنے دیکھنے کا خواب دیکھ رہے تھے کہیں ان کے خواب تو نہیں بکھر گئے اور اب وہ بکھرے ہوئے خواب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ یہ دہائیوں سے فلسطینیوں کو قیدی بنا کر بیٹھے ہیں۔ انہیں انسانی حقوق کی بات کرتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے نو مئی کے کردار بے نقاب ہو رہے ہیں۔ کرداروں کے چہروں سے پردے ہٹ رہے ہیں۔ سب سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے انسانی حقوق کا بیانیہ بنایا، جبری گمشدگیوں، پر امن احتجاج کا جھوٹ بولا دلچسپ امر یہ ہے کہ اسرائیلی نمائندے نے بھی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر وہی باتیں دہرائی ہیں۔ ان کو نظر نہیں آتا کہ کیا پر امن احتجاج یہ ہوتا ہے کہ ریاستی املاک کو جلا دیا جائے، بانی پاکستان کی رہائش کو جلا دیا جائے، ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جلا دیا جائے، جی ایچ کیو پر دھاوا بول دیا جائے، شہداءکی یادگاروں کی بے حرمتی کی جائے۔ ہاں اسرائیل کے لیے یہی امن ہے کیونکہ وہ تو نعشیں گرانے کے عادی ہیں۔ انہیں تو نعشیں گرانے کا فن آتا ہے، وہ تو گردنیں کاٹنے کو طاقت کا نام دیتے ہیں۔ وہ تو مقدس مقامات کی بے حرمتی کرتے ہیں، معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین پر گولیاں برساتے ہیں۔ اس لیے انہیں ایسی توڑ پھوڑ تو پرامن احتجاج ہی لگے گا۔ اسرائیل کے نمائندے کا یہ بیان اور سوچ ناصرف قابل مذمت بلکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ وہی بات کرتے رہے ہیں جو اسرائیل کا نمائندہ کر رہا ہے۔ یعنی یہ سب ملکر پاکستان میں ناکام ہونے والی بغاوت کے غم میں مبتلا ہیں۔ شرپسندوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے تو انہیں انسانی حقوق یاد آ رہے ہیں۔ شہداءکے کوئی حقوق نہیں ہیں ان کے ورثا کے کوئی حقوق نہیں، اس ملک کے کروڑوں لوگوں کے کوئی حقوق نہیں، نو مئی کو یا اس سے پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا خون بہایا گیا ان کے کوئی حقوق نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کو پہلے فلسطین، کشمیر اور افغانستان میں بہنے والے خون کو دیکھنا چاہیے پھر شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر خود سے سوال کریں پھر باہر آ کر کوئی بات کریں۔ اگر دنیا بھر میں ظلم و ستم برپا کرنے والوں میں ذرہ سی بھی اخلاقی جرات ہو تو وہ مظلوموں سے معافی مانگیں گے۔ اس معاملے پر حکومت نے بروقت اپنا موقف اور ردعمل دے کر بہت اچھا کیا ہے ایسی کوششوں کی ہر سطح پر مذمت اور مسلسل مذمت کے ساتھ بندوبست بھی ہونا چاہیے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے اسرائیل کے بیان کو پاکستان کی اندرونی سیاست میں مداخلت قرار دے کر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے پاکستان کی یونیورسل پریاڈک رپورٹ متفقہ طور پر منظور کرلی ہے، فلسطینیوں پر ظلم کرنے والے ملک کی نصیحت کی پاکستان کو کوئی ضرورت نہیں۔ اسرائیلی بیانیے کا سیاسی محرک اقوام متحدہ سیشن کے مثبت لہجے اور ریاستوں کی ایک بڑی اکثریت کے بیانات سے متصادم تھا۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی علامہ طاہر اشرفی نے بھی اسرائیلی بیانیے کو شدید الفاظ میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے داخلی مسائل پر اسرائیل کو بات کرنے کا کوئی حق نہیں، پہلی بار ہوا ہے کہ اسرائیل کا نمائندہ پاکستان کو نصیحت کر رہا ہے۔
دوسری طرف پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ سیاسی جماعتیں اس حوالے سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہی ہیں۔ انتخابی اصلاحات پر بھی کام ہو رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پہلے اصلاحات پھر انتخابات، یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ عمران خان آئندہ عام انتخابات سے پہلے نااہل ہو جائیں گے۔ یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ تیار ہو رہے ہیں یا ہو چکے ہیں یا ان کی تعداد میں اضافے پر کام ہو رہا ہے یا پھر وعدہ معاف گواہوں کے بیانات کے وقت کا تعین ہو رہا ہے۔ اس ماحول میں ہم انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی آپشنز ہیں، کیا یہی حکومت چلتی رہے، نگران حکومت آئے انتخابات کا اعلان ہو اور پھر انتخابات میں تاخیر ہو جائے یا پھر انتخابات بروقت ہوں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہوتا ہے یاد رکھیں کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن فیصلہ وہی ہو گا جس سے ملک کو معاشی اور سیاسی طور پر استحکام مل سکتا ہو۔ جہاں تک عمران خان کے مستقبل کا تعلق ہے ان کی نااہلی سے زیادہ نو مئی کو ہونے والی سازش کے مرکزی کرداروں کو انجام تک پہنچانا نااہلی سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
آخر میں کمال امروہوی کا کلام
کہیں ایک معص±وم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
مجھے اپنے خوابوں کی بانہوں میں پا کر
کبھی نیند میں م±سکراتی تو ہو گی؟
ا±سی نیند میں کسمسا کسمسا کر
سرہانے سے تکیے گراتی تو ہو گی؟
وہی خواب دن کی منڈیروں پہ آ کے
ا±سے مَن ہی مَن میں ل±بھاتے تو ہوں گے؟
کئی ساز سینے کی خاموشیوں میں
میری یاد میں جَھنجَھناتے تو ہوں گے؟
وہ بےساختہ دھیمے دھیمے س±روں میں
میری د±ھن میں کچھ گ±نگناتی تو ہو گی؟
چلو خط لکھیں، جی میں? آتا تو ہو گا؟
مگر ا±نگلیاں کپکپاتی تو ہوں گی؟
قلم ہاتھ سے چ±ھوٹ جاتا تو ہو گا؟
ا±منگیں قلم پھر ا±ٹھاتی تو ہوں گی؟
میرا نام اپنی کتابوں پہ لکھ کر
وہ دانتوں میں ا±نگلی دباتی تو ہو گی؟
زباں سے کبھی ا±ف نکلتی تو ہو گی؟
بدن دھیمے دھیمے س±لگتا تو ہو گا؟
کہیں کے کہیں پاو¿ں پڑتے تو ہوں گے
زمیں پر دوپٹہ لٹکتا تو ہو گا؟
کبھی ص±بح کو شام کہتی تو ہو گی؟
کبھی رات کو دِن بتاتی تو ہو گی؟
ہر ایک چیز ہاتھوں سے گرتی تو ہو گی؟
طبیعت پہ ہر کام کَھلتا تو ہو گا؟
پلیٹیں کبھی ٹ±وٹ جاتی تو ہوں گی؟
کبھی د±ودھ چ±ولہے پہ جلتا تو ہو گا؟
غرض ، اپنی معص±وم نادانیوں پر
وہ نازک بدن جھینپ جاتی تو ہو گی؟
کہیں ایک معص±وم نازک سی لڑکی۔۔۔