ضیاء الرحمن ضیاء
ٍٍ www.ziarehman.com
گزشتہ روز پاک آرمی کے حوالے سے انتہائی افسوسناک خبریں سننے کو ملی ہیں ، ملک میں ایک بار پھر دہشت گرد سر اٹھانے لگے ہیں اور آئے روز بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے ساتھ نئے ضم ہونے والے اضلاع میں دہشت گردوں کی کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے آئے روز پاک آرمی کے جوان شہید ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں ژوب گیریژن پر دہشتگردوں کے حملے میں نو سیکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے جن میں سے چار موقع پر ہی شہید ہو ئے جبکہ پانچ بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جامع شہادت نوش کر گئے۔ ابھی میں اس واقعہ پر لکھنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک اور خبر نظر سے گزری کہ بلوچستان میں سوئی کے مقام پر دہشت گردوں سے جھڑپ میں تین جوان شہید ہو گئے یوں 24 گھنٹوں کے دوران شہید ہونے والے جوانوں کی تعداد 12 ہو گئی یعنی ایک درجن جوان 24 گھنٹوں کے اندر دہشت گردوں کے حملوں میں شہید ہو چکے ہیں۔
یہ ایک عظیم سانحہ ہے جس نے پوری قوم کو غمزدہ کر دیا ہے ظاہر ہے کہ قوم اپنے فوجی جوانوں سے نہایت محبت کرتے ہیں جو جوان ملک وقوم کی حفاظت کے لیے ہر وقت ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں اپنے گھروں سے ، دور اپنے پیاروں سے دور سرحدوں پر بیٹھے ہیں اور ملک کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ان پر دہشت گرد حملہ کریں اور وہ شہید ہو جائیں تو یہ پوری قوم کے لیے نہایت اذیت ناک ہوتا ہے۔ پھر ایک ہی دن میں 12 جوانوں کی شہادتیں ناقابل فراموش اور ناقابل برداشت ہیں۔ نہ جانے یہ دہشت گرد کہاں سے پیدا ہوتے اور کہاں سے آتے ہیں ؟ہم نے تو افغانستان اور ایران کی سرحدوں پر باڑ بھی لگا دی اس کے باوجود دہشت گردوں کی آمد و رفت کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے ۔ اب وہ باڑ نہ جانے کہاں سے کھلی ہے یا کہاں سے ناقص ہے جہاں سے دہشت گرد آ جاتے ہیں یا ملک کے اندر سے ہی دہشت گرد پیدا ہو رہے ہیں یہ باتیں ہماری سمجھ میں آنے والی نہیں ہیں۔
نہ جانے ہم دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں اس قدر ناکام کیوں ہیں کہ اتنے بڑے بڑے آپریشنوں کے باوجود دہشت گرد ویسے کے ویسے موجود ہیں اور وہ اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گو آپریشن ضرب عضب کے بعد ان کی کاروائیوں میں کافی حد تک کمی واقع ہو گئی تھی لیکن ایک بار پھر یہ سر اٹھانے لگے ہیں اور انہوں نے اپنی کاروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں اگرچہ شہری علاقوں میں جو بم دھماکوں کا ایک بڑا سلسلہ ہم نے برداشت کیا وہ تو الحمدللہ رک چکا ہے لیکن اب سیکیورٹی اہلکاروں، چیک پوسٹوں اور گیریژنوں پر حملوں کے سلسلے جاری ہیں۔
ملک دشمن عناصر ملک کو تباہ کرنے کے درپے ہیں وہ تو چاہتے ہیں کہ کسی طرح پاکستان تباہ ہو اور صفحہ ہستی سے مٹ جائے ، ظاہر ہے کہ ان کا تو یہی کام ہے اور انہوں نے تو کرنا ہے لیکن اپنا دفاع ہمارا کام اور ہمارا فرض ہے کہ ہم نے اپنا دفاع کس طرح سے کرنا ہے ؟ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جن میں دہشت گردی کا نام و نشان نہیں ہے وہاں مکمل طور پر امن و امان قائم ہے ایسا نہیں ہے کہ دہشت گردوں کو ان ممالک کا علم نہیں ہے، اگر وہ ممالکبھی اپنی سیکیورٹی کو تھوڑا سا ڈھیلا چھوڑ دیں تو وہاں پر دہشت گردی کی کاروائیاں شاید ہم سے زیادہ ہونے لگیں اور وہ ملک تباہ و برباد ہو جائیں لیکن انہوں نے اپنی سیکیورٹی اچھی رکھی ہوئی ہے وہ اپنی سیکیورٹی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے اور ایک ہم ہیں کہ اچھا خاصا بجٹ دفاع پر لگاتے ہیں ملک کے بجٹ کا اکثر و بیشتر حصہ دفاع پر خرچ ہو جاتا ہے اس کے باوجود دہشت گردوں کی کاروائیاں مسلسل جاری ہیں اور ہم انہیں قابو کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔
آئے روز ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں ، ملک کی ساک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور املاک کو تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ملک دشمن عناصر ملک کو تباہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر سازشیں کر رہے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پرہی انہیں عملی جامہ بھی پہنایا جا رہا ہے کیونکہ ہر دوسرے دن کہیں نہ کہیں سیکیورٹی فورسز پر حملہ ہوتا ہے اور اس میں ہمارے جوان شہید ہو جاتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے ایسا نہیں ہے کہ دہشت گرد کہیں سے منہ اٹھا کے آئے اور حملہ کر کے چلے گئے بلکہ اس کے لیے پہلے پوری منصوبہ بندی ہوتی ہے ۔ اب وہ منصوبہ بندی کہاں ہو رہی ہے، کون کر رہا ہے اور کیسے کر رہا ہے ؟ اس کا پتہ لگانا ہمارے سیکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے۔
گو کے کچھ ذمہ داریاں عوام پر بھی عائد ہوتی ہیں کہ اپنے ارد گرد کسی مشکوک شخص کو نہ پھٹکنیدیں اور اگر کوئی مشکوک شخص نظر آتا ہے تو فوری طور پر پولیس اور سکیورٹی اداروں کو مطلع کریں اور کسی طرح کی بھی کوئی مشکوک چیز نظر آئے تو اس کے بارے میں بھی پولیس کو اطلاع دیں۔ اپنے ارد گرد حالات پر نظر رکھیں اور لوگوں پر بھی نظر رکھیں کہ کوئی شخص کسی مشکوک کاروائی میں تو ملوث نہیں ہے۔ یہ تو عوام کی بنیادی سی ذمہ داری ہے اصل ذمہ داری تو سکیورٹی اداروں کی ہے لیکن نہ جانے کہ سیکیورٹی ادارے ان کاروائیوں اور منصوبہ بندیوں کا سراغ لگانے میں کیوں ناکام نظر آرہے ہیں۔
کئی بار تو ایسا ہوتا ہے کہ بڑے بڑے خطرناک دہشت گرد جو انتہائی ماہر اور تجربہ کار ہوتے ہیں جنہیں سرکاری سطح پر دیگر ممالک نے تربیت فراہم کی ہوتی ہے جیسے کلبوشن یادیو جیسے لوگ ، انہیں سیکیورٹی اہلکار انتہائی مہارت کے ساتھ گرفتار کر لیتے ہیں اور ان کے خلاف ناقابل تردید شواہد بھی فراہم کر دیتے ہیں جو ہماری خفیہ ایجنسیوں کی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے دہشت گرد جو ملک کے اندر ہی پلے بڑھے ہوتے ہیں انہیں بھی گرفتار نہیں کیا جا سکتا یہاں پر بھی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہیے اور دہشتگردوں پر خصوصی نظر رکھنی چاہیے ۔ بالخصوص ایسے علاقے جہاں دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو دہشت گردی سے پاک کیا جا سکے اور ہمارے انتہائی قیمتی فوجی جوان جو روزانہ کی بنیاد پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیںاس قیمتی اثاثے کو بھی بچایا جا سکے۔