دو با اختیار خواتین اور بک ہوم مالک کا قتل

 پنجاب کی تاریخ میں دو اہم واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ پہلی خاتون وزیر اعلی مریم نواز شریف اور پہلی خاتون چیف جسٹس مس عالیہ نیلم۔ دونوں کے سامنے اپنے اپنے شعبے کے بڑے چیلنجز ہیں اور دونوںاپنے اپنے محاز پر پرعزم بھی ہیں۔ جسٹس مس عالیہ نیلم سے لاہور ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس کے عہدے کا حلف گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے لیا تو اس سادہ و پر وقار تقریب میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے خصوصی شرکت کی۔ اس موقع پر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس عابد عزیز شیخ، جسٹس شمس محمود مرزا اور جسٹس سید شہباز علی رضوی سمیت عدالت عالیہ لاہور کے دیگر فاضل جج صاحبان، وفاقی و صوبائی لاء افسران، صوبائی سیکرٹریز، انتظامی افسران، وکلاء رہنما، رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ چودھری عبدالرشید عابد، ڈی جی ڈسٹرکٹ جوڈیشری عبہر گل خان، ڈی جی جوڈیشل اینڈ کیس مینجمنٹ تنویر اکبر، سیشن جج ہیومن ریسورس ساجد علی اعوان سمیت لاہور ہائی کورٹ کے افسران اور فاضل چیف جسٹس کے عزیز و اقارت بھی موجود تھے۔ حلف سے پہلے چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان نے جسٹس عالیہ نیلم کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفکیشن پڑھا۔یہ منظر انتہائی جذباتی اور تاریخی تھا۔ حلف کے بعد جب چیف جسٹس مس عالیہ نیلم لاہور ہائی کورٹ پہنچیں تو ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ چودھری عبدالرشید عابد نے فاضل چیف جسٹس کو گلدستہ پیش کیا اور پولیس کے چوک و چوبند دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔ فاضل چیف جسٹس نے ججز لاونج میں عدالت عالیہ کے تمام ججز کے ساتھ ملاقات کی اور جلد و معیاری انصاف کی فراہمی کے حوالے سے اپنا لائحہ عمل پیش کیا۔ ماہر قانون احسن بھون کی سربراہی میں پاکستان بار کونسل کے وفد نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم سے ملاقات کی۔ وفد میں ممبران پاکستان بار کونسل پیر مسعود چشتی اور حفیظ الرحمن چودھری شامل تھے۔ پاکستان بار کونسل نے نئی چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔وطن عزیزمیں انتہائی کشیدہ اور اوپر نیچے عدالتوں میں الجھے سیاسی معاملات میں سے بہت سے نئی فاضل چیف جسٹس اور ان کی عدالتی ٹیم کے سامنے بھی ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس دور میں یہ عہدہ پھولوں کی سیج نہیں لیکن وکلا کی نمائندہ تنظیموں نے حق اور انصاف کے لئے ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا جس طرح اعلان کیا ہے اس سے یقینا انہیں اطمینان ملا ہو گا۔
 اسی طرح پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلی مریم نواز شریف بھی سیاسی مدوجذر میں پائوں جما کر کھڑی ہیں اور اپنے فیصلوں سے مسلسل خبروں میں ہیں اپنے 56 نکاتی ترقیاتی پرگراموں پر عمل کے لئے ان کی ٹیم کے جگراتے جاری ہیں۔ گزشتہ روز وزیر اعلی نے جام پور کے کالج کی طالبہ کو سب سے پہلے ای- بائیک کی علامتی چابی دیکر چیف منسٹر یوتھ اینیشیٹو، ای بائیک پروگرام کا افتتاح کیا ساتھ ہی وہیکل انسپکشن رجیم برائے پرائیویٹ وہیکل پراجیکٹ کا آغازکرنے کے ساتھ پنجاب میں پہلے ای لوڈر رکشہ منیو فیکچرنگ لائسنس بھی دے دیا۔ اس موقع پر مریم نوازشریف نے متعدد دیگربڑے اعلانات بھی کیے۔ان کا کہنا تھا کہ۔ اس سکیم کے لئے حکومت کو ایک لاکھ سے زائد درخواستیں آئیں، 27200 کو مل رہی ہیں اورلینے والوں میںسب اضلاع کی یکساں نمائندگی ہے۔ طالبات کو بھی چاہئیے کہ اپنی خود مختاری کے لیے بائیکس چلانا سیکھیں۔اب آنے والے دنوں میں لیپ ٹاپ دیں گے ،جس کے ماڈل کی منظوری دے دی گئی ہے۔
 پنجاب ہمیشہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں پر امن صوبہ رہا ہے مگر اب پہلے جیسی بات نہیں سیاسی اغوا یا گم شدگی کی باتیں کم ہونے لگی ہیں تواب جرائم کے پس منظر میں تکلیف دہ باتیں سامنے آنے لگی ہیں۔ اس وقت لاہورمیں انتہائی وضع داری کی علامت مرنج مرنجان علم و ادب کی خدمت میں کئی سالوں سے مصروف بک ہوم کے مالک رانا عبدالرحمن کی پر اسرار گمشدگی اغوا اور پھر لاہور سے دور ستیانہ فیصل آباد میں نہر سے ان کی نعش کی برامدگی نے پاکستان بھرکی ادبی برادری کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ممتاز شاعر ناصر بشیر نے پہلے ان کی گمشدگی اور پھر شہادت کی خبر دی تو کہرام مچ گیا۔سابق پرنسپل اسلامیہ کالج پروفیسر امجد علی شاکر کے مطابق خواجہ محمد اسلام سے بات کرتے ہوئے رانا عبدالرحمان نے کہا تھا کہ ہم موت کی نہیں زندگی کی کتابیں شائع کرتے ہیں لیکن جاتے جاتے موت کی کتاب لکھ گئے۔محمود شام نے اسے سفاک دور کا دل ہلا دینے والا واقعہ قراردیا ہے۔ ادبی تحریک اور جریدے سائبان کے مدیر حسین مجروح کے بقول مشکل کے وقت ادبی میلے اور ادبی واک کیلے کو ئی اور نہیں بک ہوم کام آیا۔ رانا مرحوم کے بھائی پارٹنر سرور صاحب،کتاب ورثہ بزم کتاب دوستاں بک ڈائجسٹ ادب لطیف کے روح و رواں مظہر مجوکہ ، صاحب طرز شعرانیلما درانی علی اصغر علی عباس سرفراز سید ،جمہوری پبلیکیشنز والے فرخ سہیل گوئیدی اور بے شمار دوسرے احباب نے سوشل میڈیا پر اس سانحہ پر اپنے ملال کا اظہار کیا ہے۔ایک بات اہم ہے جو ممتاز شاعر غلام حسین ساجد نے اپنے حالیہ دورہ یورپ پر روانہ ہونے سے پہلے یعنی رانا مرحوم کی ناگہانی موت سے تین چار دن پہلے ان سے ملاقات کے حوالے سے لکھی ہے اور کہا ہے کہ وہ خلاف معمول چپ چپ کسی گہری سوچ میں گم نظر آئے۔ احسان بلاک نشتر ٹائون لاہورسے اپنے آبائی شہر کے نزدیک نہر تک تک ان کا پر اسرار سفر بہت تحقیق کا متقاضی ہے۔اتنے بڑے قدکے ادب دوست اور ادب پرور شخص کی موت صوبے کو امن کے حوالے سے مثالی بنانے کی خواہشمند پہلی خاتون وزیر اعلی مریم نواز شریف کی پولیس کیلئے بھی ایک چیلنج ہے اور لاہور ہائی کورٹ کی پہلی خاتون معزز چیف جسٹس مس عالیہ نیلم بھی اس کا نوٹس لے کر زغمی دلوں پر مرہم رکھ سکتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...