ملک سیاسی حوالے سے جمود کی سی صورتحال سے گزر رہاہے، مثبت سیاسی پہلو کے تناظر میں کسی قسم کی کوئی سرگرمیاں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ گو کہ احتجاج اور دھرنے جمہوریت کا حصہ ہیں لیکن یہ عوامل سیاست میں انتشار اور ملک میں عدم استحکام پیدا کر دیتے ہیں ، اصلاحی اور مثبت سیاسی پہلو مذاکرات اور سنجیدہ سیاسی سرگرمیوں کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ لہذا میاں نواز شریف نے محرم الحرام کے بعد اپنی سیاسی سرگرمیوں کا اعلان کرتے ہوئے پارٹی میں اہم تبدیلیوں کا واضح اشارہ بھی دیا ہے۔
لندن سے نواز شریف کی واپسی سے لے کر اب تک میاں جی کی سیاست غیر واضح رہی۔ اسکے پیچھے چاہے کوئی بھی عوامل ہوں لیکن گاہے بگائے ان کی حکومت پر تنقید اور تحفظات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ موجودہ ملکی سیاست میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ نہیں کر پارہے اور سیاست میں متحرک بھی نہیں ہیں ، قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کرنے میں عدم دلچسپی اور بجٹ اجلاس میں شرکت نہ کرنے سے سیاسی مبصرین اور اپوزیشن نوازشریف کو کمزور، شکست خوردہ سیاستدان سمجھتی ہے جبک میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ نہ ملنے پر شاکی نظر آتے ہیں۔
حالیہ سیاسی جمود میں میاں جی کی سرگرمیاں کس نوعیت کی ہوسکتی ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) کے دیرینہ رہنما شاہد خاقان عباسی ، سر دار مہتاب احمد خان ، مفتاح اسماعیل ،کا مسلم لیگ نون کو چھوڑ دینا ایک سیاسی المیہ ہے ، ان کے علاوہ اور بہت سے لیگی کارکنان اور علاقائی قیادت کی ناراضگی کے پیشِ نظر میاں نواز شریف نے پارٹی میں اہم تبدیلیوں کا جو واضح اشارہ دیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میاں جی کی غیر موجودگی میں پارٹی اندرونی طور پر خلفشار کا شکار تھی جس پر توجہ نہیں دی گئی،لہذامسلم لیگ نون کی تنظیم سازی کے سلسلے میں ملک گیر دوروں کی منصوبہ بندی کے لئے رانا ثناء اللہ کو ذمہ داری بھی سونپ دی گئی ہے ، لیکن مسلم لیگ نون کا بیانیہ تاحال سامنے نہیں آیا ، 2018 ء میں مسلم لیگ نون کی حکومت کے خاتمے پر نواز شریف نے ’’ ووٹ کو عزت دو ‘‘ کا جو بیانیہ اپنایا تھا وہ رفتہ رفتہ معدوم ہوتا چلا گیا ، اسی بیانیہ سے پیچھے ہٹنے کے باعث شاہد خاقان عباسی بھی نواز شریف سے پیچھے ہٹ گئے اور انہوں نے اپنی ایک نئی جماعت بنا لی،شاہد خاقان عباسی کے پارٹی بنانے سے پیشتر میاں نواز شریف کے شاہد خاقان عباسی کے حق میں بیانات سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ انہیں منا لیں گے لیکن ایسا نہیں ہو سکا ، سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ نون کے سابق رہنما چوہدری نثارعلی خان اور شاہد خاقان عباسی نے مسلم لیگ نون کی نئی قیادت سے اختلاف پر پارٹی سے دوری اختیار کر لی تھی ، اب جبکہ میاں نواز شریف دوبارہ مسلم لیگ نون کے صدر منتخب ہو چکے ہیں اسکے باوجود شاہد خاقان عباسی کے موقف میں تبدیلی نہیں آئی لیکن چوہدری نثار علی خان ابھی تک خاموش ہیں ، اس سلسلے میں بھی میاں نواز شریف کی پارٹی پالیسی میں ابہام پایا جاتا ہے۔ملک کے سیاسی حالات سیاسی نہیں رہے۔ اب پسند اور ناپسند کا کھیل کھیلا جارہا ہے ، ایسے حالات میں میاں جی کا سیاسی سرگرمیاں شروع کرنا ایک مثبت قدم ضرور ہے لیکن جب تک عوام کو مہنگائی سے نجات نہیں ملتی تنظیم سازی کے لئے حالات ساز گار میسر نہیں ہوں گے ، دوسرا یہ کہ جب تک قیادت پارٹی کا بیانیہ عوام کے سامنے نہیں لاتی عوام متوجہ نہیں ہوں گے۔ میاں نواز شریف سیاست میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں، ان کا موجودہ سیاسی جمود کو توڑنے کا عزم ظاہر کرتا ہے کہ وہ سیاست کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش کریں گے۔ اگر تو ماضی کی طرح انہوں نے انٹی اسٹیبلشمنٹ جارحانہ سیاست کا آغاز کیا تو نہ وہ وفاق اور نہ ہی وہ پنجاب کے لئے سود مند ہوگی ، بلکہ حکومتی اتحاد بھی قائم نہ رہ سکے گا۔ سر دست میاں نواز شریف کا پارلیمانی پارٹی کے اہم اجلاس میں عدم شرکت ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے نئے خدشات کو جنم دے رہی ہے،شائد وہ موجودہ حکومت کے عمل دخل سے لا تعلقی ظاہر کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ ماضی میں مرحوم مخدوم امین فہیم نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے عمل دخل سے لا تعلقی ظاہر کی تھی۔
حالات کے اکتائے ہوئے میاں جی نے جاتی امراء میں مسلم لیگ (ن) کا اجلاس بلوایا جس میں بجٹ پر تفصیلی سفارشات اور پارٹی قائدین کو بریفنگ دی گئی تھی ،اس تین گھنٹہ کے طویل مشاورتی اجلاس میں صوبائی محکموں کے سیکریٹریز نے بھی شرکت کی تھی ، اور بجٹ میں عوام کو ہر ممکن ریلیف دینے کے حوالے سے اقدامات کے بارے میں تجاویز بھی دی گئی تھیں۔ اجلاس میں نواز شریف نے اپنے وسیع تر سیاسی تجربے کی بنیاد پر ہدایات دیتے ہوئے بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے پر زور دیا تھا ، لیکن میاں جی کی ہدایات پر عمل نہ ہوا لہذا حال ہی میں ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار سے ملاقات میں میاں جی نے کہا کہ متوسط طبقے کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دیا جائے اور مہنگائی پر قابو پا کر شہریوں کو ریلیف فراہم کیا جائے۔
ایسے حالات میں جب کہ سیاست بند گلی کی طرف چلی گئی ہے میاں نواز شریف کا سیاسی سرگرمیاں شروع کرناملک کے تاریک سیاسی موحول کو روشن کرنے کے مترادف ضرور ہے لیکن بغیر بیانئے ، اور عوام کو مہنگائی سے نجات دیئے بغیر یہ کیسے ممکن ہو سکے گا۔ ضروری ہے کہ سیاسی سرگرمیوں سے پہلے ملک کی سیاسی جماعتوں سے مشاورتی عمل شروع کیاجائے ، اور میثاقِ پاکستان پرسب کو متفق کر کے ملک میں امن و سلامتی کا ماحول پیدا کیا جائے ، بصورت دیگر حالات سعید آسی صاحب کی اس غزل کی عکاسی کرتے ہی نظر آتے ہیں کہ!
پائوں جمتے ہیں نہ دستار سنبھالی جائے
اب تو بس عزت سادات بچا لی جائے
حبس ایسا ہے کہ دم گھٹتا نظر آتا ہے
کر کے تدبیر کوئی ، تازہ ہوا لی جائے
کچھ تو اسباب ہیں ، اس بے سرو سامانی کے
اپنے احباب کی تاریخ کھنگالی جائے
بھوک بڑھنا ہی بغاوت کا سبب ہے آسی
یہ روایت میری سرکار نہ ڈالی جائے۔
٭…٭…٭