’’ گنج بخشِ فیض ِ عالم ، مظہرِ نُورِ خْدا‘‘

Jul 14, 2024

اثر علی چوہان.... سیاست نامہ

معزز قارئین ! آج 7 محرم اْلحرام ہے۔ 9 محرم اْلحرام 1446ھ 16جولائی 2024ء کو ’’مدینۃ اْلاولیاء‘‘ لاہور میں رونق افروز اولادِ حضرت علی مرتضیٰؓ ، حسنی سیّد، حضرت ابواْلحسن علی بن عثمان ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش کے مزارِ اقدس کے سالانہ غْسلِ مبارک کی تقریب ہوگی، اِس موقع پر وفاقی یا صوبائی حکمرانوں اور دیگر اہم شخصیات کی طرف سے مزارِ مقدس کو، عرق گلاب سے غْسل دیا جائے گا۔ 
سیّد علی ہجویری1009ء میں (دْنیائے اسلام کے نامور عْلماء و فْضلا ء کے مرکز غزنی) میں پیدا ہْوئے، پھر آپ اپنے والدین کے ساتھ غزنی کے دو محلوں ہجویر اور جلاب میں رہے اور آپ  ہجویری اور جلابی کہلائے۔ آپ کے پیر و مْرشد حضرت ابو الفضل بن حسن ختلی کے حکم کے مطابق آپ رْشد و ہدایت کا سِلسلہ شروع کرنے کے لئے لاہور آباد ہوگئے ، جہاں آپ درس و تدریس و تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ آپ نے اپنی ’’شہرہ آفاق تصنیف ’’کشف اْلمحجوب‘‘ کا بڑا حصہ لاہور ہی میں لکھا۔ ’’کشف اْلاسرار، لاہور ہی میں لکھا۔ 
’’خواجہ غریب نواز! ‘‘ 
معزز قارئین !۔ لاہور میں حضرت داتا صاحب کا سال ِ وصال 465 ھ(1077ء) لکھا ہے۔ 587 ھ (1191ء) میں خواجہ غریب نواز، نائب رسول فی الہند ، حضرت معین اْلدّین چشتی لاہور تشریف لائے اور آپ نے اور آپکے چند مْریدوں نے کچھ عرصہ مزارِ داتا صاحب پر قیام کِیا ، چلّہ کشی کی پھر آپ نے یہ رْباعی کہی کہ 
’’گنج بخش، فیض عالم، مظہر نْور خْدا!
ناقصاں دا پِیر کامِل، کاملاں را، راہنما!‘‘ 
یعنی۔ ’’(حضرت داتا صاحب) خزانے بخشنے والے، تمام مخلوقات و موجودات کو  بہت زیادہ فائدہ پہنچانے والے، خْدا کا نْور ظاہر کرنے والے، نامکمل لوگوں کے لئے کامل پِیر اور کامل (پیروں کے لئے ) راہنما (راستہ دِکھانے والے) ہیں ‘‘۔ 
معزز قارئین ! میرے آباو اجداد صدیوں سے  اجمیرشریف میں آباد تھے۔ یہ اْن کی خوش قسمتی تھی کہ ’’اْنہوں نے خواجہ غریب نواز، نائب رسول فی الہند حضرت مْعین اْلدّین چشتی کے دست مبارک پر اسلام قبول کرلِیا تھا۔ 
’’حضرت داتا صاحب ! ‘‘
خواجہ غریب نواز۔ عربی اور فارسی کے عالم و فاضل تھے۔ آپ کا دیوان فارسی زبان میں ہے۔ حضرت داتا صاحب کے مزار پر چلّہ کشی کے بعد اجمیر شریف تشریف لے جانے سے پہلے حضرت خواجہ صاحب نے اپنے مْرید ِ خاص (جو بعد میں آپ کے خلیفہ بھی بنے) حضرت قْطب اْلدّین بختیار کاکی اور کئی دوسرے مْریدوں کو ساتھ لے کر چار پانچ سال تک ملتان بھی قیام کِیا تھا۔ جہاں خواجہ صاحب اور اْن کے مْریدوں نے ہندی زبان، ملتانی (سرائیکی) پنجابی اور دوسری علاقائی زبانیں بھی سیکھی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ ’’ گنج بخش فیض ِ عالم‘‘ سیّد علی ہجویری۔ داتا صاحب کے لقب سے کب مشہور ہْوئے؟۔ خواجہ مْعین اْلدّین چشتی کی چلّہ کشی سے پہلے یا اْس کے بعد؟ اِس لئے کہ ’’داتا‘‘ تو ہندی زبان کا لفظ ہے؟ جِس کے معنی ہیں۔ ’’دینے والا، سخی، فیاض، کریم، رازق، خْدا، فقیر، درویش‘‘۔ 
’’علامہ محمد اقبال ! ‘‘ 
معزز قارئین! عاشق ِ رسول اور مولا علی مرتضیؓکے حوالے سے مولائی کہلانے والے علاّمہ اقبال نے حضرت داتا صاحب کی عظمت بیان کرتے ہْوئے کہا تھا کہ 
’’ سیّد ِہجویر، مخدْومِ اْمم!
مرقدِ اْو، پِیر سنجر را، حرم!
بندہائے، کوہسار، آساں گْسِیخت!
در زمینِ ہند، تْخمِ سجدہ ،رِیخت!‘‘ 
یعنی۔ ’’حضرت سیّد علی ہجویری۔ اْمتّوں کے مخدْوم ہیں۔ آپ کا روضہ ’’پِیر سنجر‘‘ (خواجہ غریب نواز، سیّد معین اْلدّین چشتی) کیلئے حرم ہے۔ آپ نے حصولِ حق کی راہ میں ،حائل پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کردِیا اور ہندوستان میں اسلام کا بیج بْودِیا‘‘۔
’’ لاہور میں مدفون دو بادشاہ!‘‘
معزز قارئین! لاہور ہی میں دو بادشاہ۔ خاندانِ غْلاماں کے سْلطان قطب اْلدّین ایبک اور مْغل بادشاہ۔ نور اْلدّین جہانگیر بھی دفن ہیں۔ قطب اْلدّین ایبک کو تو  اْنکی سخاوت اور فیاضی کی وجہ سے ’’ لکھ بخش / لکھ داتا‘‘ کہا جاتا تھا اور نور اْلدّین جہانگیر اپنی ’’زنجیر عدل‘‘ کی وجہ سے مشہور تھے لیکن مقبرہ نور اْلدّین جہانگیر کے ساتھ ہی ، اپنے مقبرے میں دفن اْن کی شاعرہ بیگم، ملکہ نور جہاں نے تو اپنے بارے اور اپنے مجازی خْدا بادشاہ کے بارے پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ…
بَر مزارِ  ما غریباں، نَے چراغے، نَے گْلے!
نَے پَر ے، پروانہ سَوزد، نَے صدائے بْلبلے!
یعنی۔ ’’ہم غریبوں کے مزار پر، کوئی بھی چراغ جلانے نہیں آتا اور نہ پھول چڑھاتا ہے، یہاں تو  (چراغ کی لو) سے نہ کسی پروانے کا پَر جلتا ہے اور نہ ہی یہاں کسی بْلبل کے چہچہانے کی آواز آتی ہے!‘‘۔ 
’’حاضری کے آداب! ‘‘
مَیں 1955ء میں سرگودھا میں نویں جماعت کا طالبعلم تھا جب  میرے والد صاحب ’’تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن‘‘ رانا فضل محمد چوہان مجھے اپنے ساتھ لاہور لائے ، تو مَیں اْن کی قیادت میں پہلے احاطہ دربار داتا صاحب میں حاضر ہْوا تو میرے والد صاحب نے مجھے سمجھایا تھا کہ ’’پہلے ہمیں اپنے پیر و مْرشد خواجہ غریب نواز کی چلہ گاہ پر حاضر ہونا ہے اور پھر حضرت داتا گنج بخش کی بارہ گاہ میں۔ پھر یہ میرا معمول بن گیا۔
Channel" Proper!‘‘
18 دسمبر 2013ء کو گورنر پنجاب چودھری محمد سرور سے اْنکے بزرگ اور ستمبر 1981ء سے میرے دوست گلاسگو کے ’’بابائے امن‘‘ ،برطانیہ میں چیئرمین ’’نظریہ پاکستان فورم‘‘ ملک غلام ربانی اعوان اور مَیں  اْن سے ملاقات کے لئے گورنر ہائوس گئے تو کچھ دیر بعد چودھری صاحب نے ہم دونوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’آج آپ ’’دونوں بابے‘‘ میرے ساتھ حضرت داتا گنج بخش کے دربار میں حاضری دیں گے‘‘ جب ہم وہاں پہنچے تو مَیں نے حسب معمول خواجہ صاحب کی چلّہ گاہ پر حاضری دِی۔ گورنر چودھری محمد سرور اور ’’بابائے امن‘‘۔"Direct"بار گاہِ مزارِ داتا صاحب کی طرف چلے گئے۔ کچھ دیر بعد مَیں گورنر پنجاب اور ’’بابائے امن‘‘ کے ساتھ جا ملا تو اْنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ’’آپ کہاں چلے گئے تھے؟‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’مَیں تو Channel" Proper "Throughہی حضرت داتا صاحب کی بار گاہ میں حاضر ہوتا ہْوں !‘‘۔

مزیدخبریں