میں فرانس سے سپین جانے والی ٹرین میں سفر کر رہا تھا میرے سامنے والی سیٹ پر پاکستانی نوجوان بیٹھا تھا اس کے ہم وطن ہونے کا اندازہ مجھے سیٹ پر بیٹھتے ہی ہو گیا تھا۔ یورپ کی پرکشش ٹرین کے سفر میں نوجوان کے چہرہ پر پھیلی پریشانی کی کیفیت نے مجھے اس سے گفتگو کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ابتدائی گفتگو میں ہی اس کی زبان لب و لہجے سے مجھے علم ہو گیا کہ اس کا تعلق منڈی بہائوالدین سے ہے ایک ہی لمحے میں مجھے اس کے بزنس مین یا ٹورسٹ نہ ہونے کا اندازہ بھی ہو گیا اس کا لب و لہجہ اور پنجابی میں منڈی بہائوالدین کی ٹپیکل زبان اس کے تعلیم یافتہ نہ ہونے کا بھی عندیہ دے رہی تھی۔ ابتدا میں نوجوان اپنے بارے میں سوال پوچھنے پر محتاط انداز میں جواب دے رہا تھا لیکن جوں جوں ٹرین پیرس چھوڑ کر شہر سے باہر نکلتی جا رہی تھی توں توں اس کی کہانی میں روانی بڑھتی جا رہی تھی۔
اس نے اپنی زندگی کی کہانی مجھے ایسے سنانا شروع کر دی کہ جیسے اس کی زندگی کی اس کہانی کو اس کے سامنے بیٹھے شخص نے سن کر اسے اس تکلیف سے نکالنا ہو۔ منڈی بہائوالدین کے گائوں سے تعلق رکھنے والا شاہ زمان مجھے بتا رہا تھا کہ دس سال قبل اس نے اپنی وراثتی زمین کا ٹکڑا بیچا ایجنٹ کو پیسے دیئے اور وہ اپنے خاندان کی غربت دور کرنے اور سنہرے مستقبل کی خاطر کئی ممالک کی سرحدیں عبور کرتے فرانس آ پہنچا۔ فرانس میں اس کے پاس نہ ویزہ تھا اور نہ کام کرنے کا کوئی لیگل ورک پرمٹ یعنی وہ بالکل illegal تھا کسی نے اسے بتایا کہ اگر اس کا پاسپورٹ اس کے ساتھ رہا تو وہ پکڑے جانے پر پاکستان ڈی پورٹ ہو سکتا ہے۔ اس نے اسی وقت اپنی قومی شناخت کو پھاڑا اور پیرس شہر کی انجان گلیوں میں گم ہو گیا۔ وہ کئی سال تک پیرس میں ہزاروں پاکستانیوں کی طرح بغیر کاغذات کے محنت مزدوری کرتا رہا اس دوران اس نے اپنے خاندان کے حالات تو بہتر کیے لیکن وہ کئی بار پولیس کے ہتھے چڑھ کر ڈی پورٹ ہونے سے بچا پھر اچانک ایک دن کام پر جاتے ہوئے چیک ہوا ویزہ نہ ہونے پر پولیس نے اسے ڈی پورٹ سنٹر بھجوا دیا۔ اسے پاکستان بھجوائے جانے کی مکمل ڈاکومنٹیشن مکمل ہو چکی تھی اور وہ کسی صورت بھی اپنے ملک اپنے گھر واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔
اس کے پاس ملک واپس نہ بھجوائے جانے کا آخری حربہ فوراً سیاسی پناہ کی درخواست دینا تھا لہٰذا اس نے اپنی بچت کیلئے پیپر کے اس ٹکڑے کو استعمال کیا اور اگلے دنوں میں یہ درخواست اسے ڈی پورٹ ہونے سے بچا گئی۔ میں منڈی بہائوالدین کے اس نوجوان کی کہانی بڑے تجسس سے سنتا جا رہا تھا۔ اپنی کہانی سنانے کی روانی میں اس نے بریک لی پاس پڑی پانی کی بوتل سے لمبے گھونٹ میں پانی پیا اور بولا سر آپ جانتے ہیں؟ میں جب ڈی پورٹ سنٹر سے ریلیز ہوا تو میرے پاس فرانس میں رہنے کا عارضی اجازت نامہ تھا اس پر فری علاج کی سہولت تھی مجھے کچھ پیسے بھی ملنا شروع ہو گئے تھے۔ سیاسی پناہ کے اس عارضی رہائشی اجازت نامہ سے میرے دل و دماغ پر ہر وقت پکڑے جانے کا خوف بھی اتر گیا لیکن مجھے پرمنٹ ہونے اور سفر کرنے کے ڈاکومنٹس نہ مل سکے۔
اب میں پچھلے دو سال سے دیگر یورپی ممالک میں ایجنٹ کو پیسے دے کر امیگریشن لینے کی کوشش میں تھا کہ کل مجھے پاکستان ایمبیسی نے پاسپورٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ حکومت نے سیاسی پناہ حاصل کرنے والے افراد کو پاسپورٹ جاری نہ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ میں شاہ زمان کی کہانی سنتے اس کے چہرے کو مسلسل دیکھتے جا رہا تھا مجھے اس کی پریشانی اور مایوسی کی سمجھ آ گئی تھی اپنی کہانی سناتے شاہ زمان جتنا مایوس تھا میں بھی اتنا پریشان ہو گیا تھا لیکن میرے پاس اس کی اس پریشانی کو دور کرنے کا کوئی ایسا اختیار نہیں تھا جس سے اس کا مسئلہ حل ہو جاتا۔وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف اور وزیرداخلہ محسن نقوی صاحب اس وقت میں آپ بااختیار ہیں اور ملکی پالیسیاں آپ بنا اور ہٹا رہے ہیں جس طرح شاہ زمان کی کہانی میں نے سنی اس کی تلخ داستان حیات کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا اب آپ اس کہانی سے جڑیئے اوورسیز پاکستانیوں کے حالات واقعات' مختلف مشقت کے شب و روز اور حقائق ملاحظہ فرمائیں۔
پاکستان کے یورپی یونین کے دبائو میں آ کر سیاسی پناہ حاصل کرنے والے پاکستانیوں کے پاسپورٹ پر پابندی لگانے پر لاکھوں پاکستانی متاثر ہوئے ان سب کا تعلق متوسط گھرانوں سے ہے ہر دوسرے اوورسیز پاکستانی کی داستان حیات شاہ زمان سے ملتی ہے۔ یہ لوگ دس دس سال سے پردیس میں محنت مشقت کرکے اپنے خاندان اور ملک کی معیشت درست کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ان کے پاس کوئی ویزہ' سفری دستاویزات نہیں ہیں جن پر وہ ان ممالک میں لیگل رہ سکتے ہوں ماسوائے سیاسی پناہ کے اس کاغذ کے جس کی بنا پر وہ کئی کئی سال ڈی پورٹ ہونے سے بچے رہتے ہیں اور اس دوران اٹلی' پرتگال' سپین میں کھلنے والی امیگریشن کا سہارا لے کر یورپ میں لیگل ہونے کا اسٹیٹس حاصل کرتے ہیں اس کے لیے کسی بھی ملک میں امیگریشن حاصل کرنے کیلئے آپ کا پاسپورٹ ضروری ہوتا ہے آپ تب تک اس ملک کی امیگریشن پالیسی کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے جب تک آپ کے پاس اپنے ملک کا پاسپورٹ نہ ہو۔ اس وقت شاہ زمان جیسے لاکھوں پاکستانیوں کے مستقبل دائو پر لگ گئے ہیں جنہوں نے اٹلی، سپین اور پرتگال کی امیگریشن پالیسی میں درخواست دے رکھی ہے ان کے پاسپورٹ بلاک ہو گئے ہیں۔
وزیراعظم میاں شہبازشریف اور وزیرداخلہ محسن نقوی صاحب آپ سے درخواست ہے کہ پاسپورٹ کے متعلق اپنی اس پالیسی کا ازسر نو جائزہ لے کر اس کا معقول حل تلاش کریں اور پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرنے والے اوورسیز پاکستانیوں اور ان کے خاندانوں پر ظلم کا یہ سلسلہ فی الفور ختم کریں۔