پاکستان پھر کسی لیڈر کی تلاش میں ۔قسط  پانچ

   قارئین ہمیں تاریخ کے جھروکوں سے اردگرد کے اور دوسرے تمام ممالک کے حالات پر نظر ڈالنا ہو گی۔ تا کہ ہمیں اندازہ ہو کہ ہمیں کس طرح  ٹریپ میں پھنسایا گیا اور کن کن عوامل اور پاکستانی اشرافیہ جس میں تمام طبقہ کی شخصیات شامل تھیں ان کو بیرونی دشمن اپنے کام میں لاتے رہے ۔ جنوں نے انکار کیا ان کی ساتھ کوٹٹری ، جیل ، موت، پھانسی قتل تک ہوے۔ مثال کے طور پر انڈیا میں اندرا گاندھی جب پاکستان کو توڑتے وقت پاک د شمنی میں پاگل ہو گئی تھیں، اور پاکستان کو توڑنے کے بعد اس کے مزید چارحصے بخرے کرنے پرعمل پیرا تھیں اور انیسو اکہتر کو صدیوں میں ایک نادر موقع گردانتے ہوے امریکی بینالاقوامی مفادات سے مخالفت تک مول لی اور بعد میں مذہبی سکھ انتہا پسندوں کے ہاتھوںقتل ہوئیں یا کروا دی گئیں تھیں جبکہ ان کے برعکس ان ہی کے والد پنڈت نہرو جیسے کایاں سیاست دان نے براہ راست امریکا سے کوئی دشمنی یا اپنی مرضی کا پنگا مول نہ لیا تھا بلکہ امریکا کے سامنے بغل میں چھری منہ سے رام رام جپتے نہ تھکتے تھے ۔ اسی طرح مشرق وسطی میں آپ شاہ فیصل نے جو صدر ناصر کے بعد پوری عرب دنیا کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوے امریکی تیل پر تاریخی پابندی لگانے کا اعلان کیا تو امیریکی قیادت مارے خوف کے گھبراہٹ کا شکار ہو کر اس نے شاہ فیصل سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے تیس سال بعد تک آپ لیبیا کے قذافی کا بہمانہ قتل دیکھیں گے کہ یہ دل سے عملی طور پر امریکا مخالف ٹھہرے ۔ تیسرے صدر صدام حسین جو عوامی طاقت سے محروم ایک انہی کا لایا ہوا ڈکٹیٹر تھا ، اس کو بھی مثال عبرت بنایا گیا۔ آج قذافی کے قتل کے بعد وہ ہی لیبیا کی قابل رحم حالت دیکھنے کو ہے۔ چوتھے مصر کے صدرمرسی عوام کا حقیقی نمائندہ ہونے کی وجہ سے امریکی او اسرائلی مفادات کے آگے نہ جھکا جس کی پاداش میں اسے بھی پس دیوار زاداں مروا دیا گیا کہ وہ بھی امریکی احکام ماننے کی بجاے مصری اور عربی اقوام کی بالا دستی کے لئے جان تک قربان کر گیا۔ پانچویں افغانی طالبان کے رہنما ملا عمر کے افغانستان پر کھلے عام حملہ کیا گیا  اور کل کے مجاہدوں کو آج کے دہشت گرد قرار دیتے ہوے ہر حربہ ان کے خلاف عمل میں لایا گیا۔ قارین اس سے پہلے انیس سوساٹھ میں بھی آج کے ایرانی انقلاب سے بہت پہلے ایرانی صدر مصدق بھی معزولی سے تا دم مرگ ،،گھر میں نظر بندی کی سزا پا چکاہے ۔ یہ سی آی اے کی ڈی کلاسی فائڈ دستاویزات میں جو وہ تیس سال کے بعد عوام کے لئے اوپن کر دیتے ہیں میں واضح طور پر موجود اور ثبت ہے کہ معزول ایرانی وزیراعظم مصدق کی معزولی کے بارے میں سی آئی اے کے انتہائی اہم کردار کے بارے میں آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔ غرض پچھلے چھپن سالوں میں چھپن اسلامی ممالک میں ہر کوئی امیریکی مخالفت میں پس دیوار زنداں ہوا یا قتل یا پھانسی چڑھا دیا گیا۔باقی دنیا میں سوائے یوکرائن اور غزہ کی جنگ کے ایک پتہ بھی بغیر وجہ کے نہیں گرتا ۔ کیا یوکرائن اور غزہ میں امریکا بہادر کی آشیر باد کے بغیر جنگ ہو سکتی تھی، ہر گز نہیں ۔ امریکینیو ورلڈ آرڈر میں روس کے لئے سپر پاور نام کا کا کوئی ذکر نہیں ہے اسی لئے یوکرائن کو ناٹو میں شامل کرنے کے بہانے روس کو چھیڑا اور بر انگیختہ کر کے اس کو اتنا مشتعل کیا گیا کہ اس کو اپنے ہمسائے یوکرائن کہ فوجی معاہدے ناٹو میں شامل کرنے کی دھمکیاں دی گیں اور اس طرح روس کی معاشی اور ٹیکنیکی ،جنگی طاقت کو یوکرائن کے ساتھ لڑائی میں نقصان ، زک پہنچائی گئی ہے تا کہ روس کی طاقت پرانے سپر پاور والے روس کے برابر نہ ہو جائے ۔ یاد رہے پچاس کی دہائی میں غیر وابستہ ممالک کی تحریک جن میں چین ، انڈیا وغیرہ جرات کر کے شامل ہوے تھے ، آج کہیں موجود نہیں، اسی طرح ستر کی دہائی کی اسلامی کانفرنس اور تیسری دنیا کے نعرے امریکی  ، اسرائیلی گٹھ جوڑ کے آگے دم توڑ چکے ہیں آج صرف ایک مسلم ایران کھڑا ہے جس کو گرانے کے لئے تمام مغرب اس کے خلاف اکٹھا ہوا ہے۔کوئی مسلم رولر میں اتنی استطاعت نہیں کہ کھل کر ایران کی حمایت میں ایک بیان ہی دے سکے۔ روسی صدر پوٹن کو  پہلے امریکی ورلڈ آرڈر نہ مانے کی سزا دی جارہی ہے۔ روس کو سابقہ سرد جنگ میں امریکا کے خلاف کرنے پر سزا کے طور پر تیسری سپر پاور نہیںمانا جا رہا ہے بلکہ اس کے بر عکس چائنہ کو پوری مدد دی جا رہی ہے کہ وہ ایک معاشی اور فوجی طاقت بن جائے ۔ اسی نکتے پر یہودیوں کے حامی ٹرمپ کو بھی اعتراض تھا اور ہے ، وہ چین کو دوسری سپر پاور نہیں بن دینا چاہتا ۔ اس کی اس سوچ کو امریکی نئے ورلڈ آرڈر کی خلاف ورزی سمجھا جا رہا ہے اور ٹرمپ بھی اسی لئے مختلف مقدمات میں الجھا دیا جارہا ہے ۔ٹرمپ کا اور کوئی بظاہر قصور نہیں سوائے اس کے وہ امریکی ڈیپ سٹیٹ کی ڈکٹیشن مان نہیں رہا ۔وہ روس کو بھی چین کے ساتھ ایک طاقت کے طور پر دیکھناچاہتا ہے اور سخت پاکستان مخالف ہونے کے باوجود افغانستان میں امریکی ڈالرز کا استعمال بے مقصد قرار دیتا ہے امریکا کی ہاں میں ہاں ملانے والے عرب ممالک، یورپی یونینکے تیس سے زیادہ ممالک  توامن کی گنگا  میں نہا رہے ہیں۔ صرف پاکستان ، افغانستان ایران زیر عتاب ہیں پاکستان کو اس حکم عدولیکے باعث اس کے ایٹمی ملک ہونے کے سزا دی جاتی رہے گی، جس کے لئے ہم پاکستانی قربانی دے رہے ہیںاسی طرح ایران ، افغانستان بھی شدید زیر عتاب ہیں۔ باقی تمام دنیا میںشانتی ہے ۔مودی حسب معمول سابقہ ہندو لیڈروں کے وکٹ کی دونوں جانب کھیل رہا ہے آج کل روس کے دورے پر پوٹن سے پیار کی پینگیں بڑا رہا ہے اور اپنے ملک کے لئے ستا تیل اور یوکرائن نواز یورپ کے بر خلاف روس کو گولہ بارود بھی فروخت کر رہا ہے اور ٹیکنالوجی بھی حاصل کر ے گا  اور امریکا کا سٹریٹیجک ساتھی بھی ہے ۔ اور پاکستان رہا پیاسا کا پیاسا ، ہماری قیادت نے کبھی جرات نہیں کی سوائے عمران خان کے پوٹن کو ملنے کی اور فوجی ڈکٹیٹروں کے دور میں جنرل کیانی سمیت ہم امریکیوں سے خوفزدہ ہی رہے،جب ہم اپنے ملک کی حدود میں عوام پر دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں امریکا کے کہنے پر بم مار نے کے لئے اڈے دیتے رہے اور خود اپنے سا تھ اور ساری دنیا میں اپنی خودمختاری کو رسوا کیا۔ سکون ہی سکون ہے۔ہریالی ہی ہریالی ہے۔اخلاقیات کی باتیں ہورہی ہیں۔ جاری ہے

ای پیپر دی نیشن