یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہم قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد کو فراموش کر چکے ہیں ۔ اسلامی نظام کے عملاً نفاذ سے پہلو تہی، عوام کو ریلیف دینے کی بجائے انہیں مہنگائی کی چکی میں پیش دینا ۔ ملک کے قیمتی اور بے پنا ہ وسائل کی بجائے عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے کشکول پھیلانا، ملک میں مینو فیکچرنگ سیکٹر کو مضبوط بنانے کی بجائے سمگل شدہ غیر ملکی سامان اسے ملکی منڈیوں کو بھرنا ، اہم قومی اداروں کو گھاٹے اور تباہی سے نکالنے کی بجائے انہیں بیچ کر جان چھڑانا اور ظلم و زیادتی کی انتہاء کہ ہمارے حکمران اپنی مراعات کو کم کرنے کی بجائے ہر وقت مہنگائی غربت اور بے روز گاری میں ڈوبی عوام سے مزید قربانیاں ہی مانگتے ہیں دوسری طرف ہمارے ہر دور کے حکمران ہمیشہ سے ہی عوام کو "دودھ کی نہریں بہانے "جیسے "دل فریب سبز باغ"دکھاتے آرہے ہیں جبکہ ملکی معیشت چلانے اور اپنے انتظامی اخراجات پورے کرنے کے لیے آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کی جی حضوری"بھی کرتے ہیں اور مسلسل یہ دعوے بھی کرتے رہتے ہیں کہ ہم جلد ہی ان عالمی مالیاتی اداروں سے جان چھڑا لیں گے ابھی چند دِن پہلے ہمارے وزیرِ اعظم نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام "آخری پروگرام ہوگا جبکہ وفاقی وزیرِ خزانہ فرماتے ہیں کہ اس سے اگلا پروگرام پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ آخری پروگرام ہوگا ظاہر ہے کہ ان دونوں بیانات کر پڑھ کر ہماری عوام یقینا کنفیوز تو ہورہی ہوگی کہ اصل حقیقت کیا ؟ہے۔ نہ جانے ہمارے حکمران کب سچ کہنے کی عادت اپنائیں گے ؟ عوام تو عرصہ دراز سے یہ حقیقت بھی جاننا چاہتی ہے کہ بلوچستان سے نکلنے والے سونے کی سالانہ مالیت کیا ہے او ر اس سے ملک کو کس قدر فائدہ پہنچا ہے ؟ عوام کو یہ علم ہے کہ جس ملک سے "سونا جیسی قیمتی معدنیات "نکلے وہ کبھی غریب اور قرض دار نہیں رہتا اس کے خزانے کبھی خالی نہیں رہتے اور نہ ہو وہ اپنی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے"کشکول اٹھائے"آئی ایم ایف جیسے اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے اور اس چکر میں اپنی"خودی "بیچ کر اپنے ہی عوام کو مہنگائی کی چکی میں پستا ہے۔ دکھ بھری کہانی یہ کہ ہم نئے ڈیم تعمیر کرنے کی بجائے آئی پی پیز سے کیے گئے بجلی کے معاہدوں کی بنیاد پر عوام پر مسلسل "بجلی بم"گرائے جارہے ہیں نہ جانے عوام کی آئی پی پیز سے کب جان چھوٹے گی ؟ یہ ادارے جگا ٹیکس "کیوں وصول کررہے ہیں ؟عوام یہ بھی پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ "نیپرا"ہر فیصلہ آئی پی پیز کے حق میں ہی کیوں کرتی ہے اِسے عوام کی "مشکلات اور مفادات "کا کب خیال آئے گا؟یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے گلی محلے قصبے شہر اور گاؤں لوڈ شیڈنگ اور مہنگی بجلی کی وجہ سے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں جبکہ پٹرول گیس بجلی مہنگی ہونے اور شرح سود کے بلند ہونے کی وجہ سے ہمارا صنعتی پہیہ "بھی رک رک"کر چل رہا ہے جس کی وجہ سے ملک کی مجموعی صنعتی پیداوار کا گراف نیچے گر رہا ہے اور برآمدات میں بھی کمی ہورہی ہے
-2-
ملکی اور بیرونی سرمایہ کاری ہماری ڈانواڈول پالیسیوں "کی وجہ سے بُری طرح متاثر ہو رہی ہے جبکہ حکومت آئے روز ملک میں ریکارڈ سرمایہ کاری ہونے کے مسلسل دعوے کر رہی ہیں یہ حقیقت ہے کہ ہمارے چند دوست ممالک نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا عندیہ دیا ہے دیکھتے ہیں کہ "یہ گڈی کب چڑھتی ہے"اور بقول وزیرِ مملکت برائے خزانہ ہم 43لاکھ نئے"ٹیکس پئیرز لائیں گے "اللہ ہی خیر کرے"حکومت کے دعووں کے باوجود ملک میں غربت بے روز گاری اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اشیائے خوردنی کی قیمتوں پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔ منافع خور دن دیہاڑے اس قوم کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں دوسری طرف مہنگائی کا سیلاب لانے والے بجٹ 2024-25ء نے اپنی آمد کے صرف چند دن بعد ہی عوام کے "طوطے اُڑا"دیئے ہیں۔ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے صرف "طفل تسلیاں اور زبانی جمع خرچ "سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت اپنے"لاڈلے صنعتی اور تجارتی شعبے "کو ہر طرح کی مراعات دیئیاور ہماری معیشت کے بنیادی ستون"زراعت اور کسان"کو مطعون کرنے میں لگی ہوئی ہے اس سلسلے میں اخبارات ، سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز بشمول حکومتی وزراء اور اقتصادی ماہرین یہ بے بنیاد پراپیگنڈا کررہے ہیں کہ زراعت کا شعبہ"برائے نام ٹیکس"دیتا ہے جب کہ اس کا جی ڈی پی میں حصہ تقریباً 24فیصد سے زائد ہے ۔ ان کو کون بتائے اور سمجھائے کہ اس وقت ملک میں ایک ایکڑ سے 25ایکڑ تک کے چھوٹے کاشتکاروں کی تعداد 90فیصد کے لگ بھگ ہے جو زمین کی تیاری سے لے کر فصل کی فروخت تک کے ہر ہر مرحلے پر باقاعدہ ٹیکس دیتے ہین مثلاً کاشت کار جو بیج ، کھاد، زرعی ادویات، زرعی مشینری ، آبیانہ، مالیہ ، بجلی، ڈیزل مارکیٹ کمیٹی فیس اور دیگر اشیاء پر جو ٹیکس دیتا ہے وہ "کس کھاتے "میں ہیں ؟ملک کی 25 کروڑ عوام کی خوراک اور لباس کی ضروریات پورا کرنے والے کسان کو کس کے اشارے پر اور کیوں ـ"رگڑا "جارہا ہے یہ بھی زرعی شعبے کو تباہ کرنے کی باقاعدہ سازش ہی لگتی ہے کیا "زراعت اور کسان"کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والوں نے 16ویں صدی جیسی زندگی گزارنے والے کسانوں اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اندھیروں میں ڈوبے گاؤ ں دیکھے ہیں؟کیا صنعت کاروں ، تاجروں ، سرمایہ کاروںاور برآمد کنندگان سے آئے دِن ملاقات والے حکمرانوں نے کبھی غریب کسانوں سے بھی ملاقات کی ہے اور زراعت کے بارے میں اپنے روش تبدیل نہ کی تو ملک کو غذائی بحران سے کوئی بھی نہیں روک سکتا ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کی تباہ حال معیشت کو بحال کرنے اور غیر ملکی قرضوں کے چنگل سے نکلنے کے لیے اپنے وسائل سے بھر پوراسفتادہ کریں۔زرعی شعبے کی ترقی ، سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات ،نئے آبی ذخائر کی تعمیر، بجلی اور گیس کے گردشی قرضوںسے نجات ، قیمتی معدنیات کو حصول کے لیے جامع منصوبہ بندی ، قومی ادروں کی نجکاری کی بجائے ان کی بحالی ، صنعتوں اور انجینرنگ میں سب سے اہم پاکستان اسٹیل ملز کی مکمل بحالی، انکم ٹیکس کے موجودہ ظالمانہ نظام کا خاتمہ اور اس میں اصلاحات، حکومت اور پارلیمنٹ کے اخراجات میں ریکارڈ کمی، سمند پار پاکستانیوں کے مسائل حل کر کے زیادہ زرمبادلہ کے حصول کو ممکن بنانا، ملک سے سود کے نظام کو مکمل ختم کرنا ، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروںکی غلامی سے مکمل نجات ، صنعتی اور اقتصادی پہیے کی گردش کو تیز کرنا اور عوام کو
-3-
سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کے ٹھوس عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ عوام حیران اور پریشان ہیں کہ ملک میں قیمتی معدنی خزانے خاص طور پر سونے کے وسیع ذخائر ہونے کے باوجود ہم دنیا سے"قرضوں کے بھیک "کیوں مانگ رہے ہیں یہ قرضے آخر کس نے اتارنے ہیں؟ اپنی خودی کو بلند کرتے ہوئے ایک نئے عزم حوصلے ہمت اور ولولے کے ساتھ کشکول گدائی کب اور کون توڑے گا۔ عوام اب سیاستدانوں اور حکمرانوں کے خالی خولی نعروں اور دعووں کو کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ ہر حکومت ان کو مسلسل رگڑا لگا رہی ہے اور ان کی زندگیوں کو اجیرن کر رہی ہے ۔ غریب عوام فریاد کریں تو کس سے کریں؟ اب بھی وقت ہے کہ ہمارے حکمران ملکی معیشت کو بحال کرنے کے لیے خو د قربانیاں دے اور اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے اپوزیشن کے ساتھ سیاسی جنگ فوراً بند کرے کیونکہ پاکستانی عوام نہ ختم ہونے والی اس جنگ سے تنگ آچکی ہے ۔ اس سے قوم کی خودی بھی قربان ہو چکی ہے۔