''وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا  ''

آج استاد ابراہیم ذوق شدت سے یاد آرہے ہیں ،ان کا شعر حالات حاضرہ کی بھر پور عکاسی کر رہا ہے !!

یہ عجب تماشا دیکھا کہ بروز عید قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا  
سوال یہ ہے کہ ''ججز الزامات کی زد میں کیوں ہیں ''۔اس زمانے میں وہ لوگ خوش قسمت ہیں جو با عزت ریٹائر ہوجاتے ہیں مستزاد کہ وہ تکریم کے گلاب لے کر جنت مکیں ہوجائیں ۔ اب تو الزامات لگانے سے کوئی ڈرتا نہیں، آجکل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز پر ریفرنس دائر ہیں۔کہا جاتا ہے اس کے ذمہ دار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان ہیں جن کے اپنے خلاف  ریفرنس جوڈیشل کمیشن میں دائر ہوئے مگر ثبوت نہ ہونے پر نوکری سے نکالے نہ جا سکے اور جسٹس سے چیف جسٹس بنے۔ لیکن کیا مجال ریفرنس دائر کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرتے انہیں سزا دی جاتی  تو جو طوفان بدتمیزی اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کمیشن میں ریفرنس دائر نہ ہوتے۔اب تو عزتیں بچانا مشکل ہے۔ الزامات لگاؤ بد نام کرو کسی کو کوئی قانون کا ڈر نہیں کوئی خدا خوفی نہیں۔ کوئی کسی کی پرواہ نہیں،یہ گند سوسائٹی میں چند سیاستدانوں کی وجہ سے  پھیل رہا ہے۔ نہ انہیں اپنی عزت کا پاس ہے نہ دوسروں کی عزت کا احساس ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین پر جھوٹے الزامات لگا کر قید میں رکھا جاتا ہے ۔اب تو کچھ سیاست دان کم فلمی ولن زیادہ لگتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں غباروں کی طرح بناتے ہیں۔ہوا میں آڑاتے ہیں ۔پھر پنچر کر کے نیچے اتار دیئے جاتے ہیں یعنی جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔ کل جو حکومت کا حصہ تھے اج وہ جیلوں میں ہیں۔ کل جو جیلوں میں تھے اج وہ اقتدار میں ہیں۔جو الزامات لگاتے ہیں وہ ثابت نہیں کرتے اور رہا ہو کر پھر اپنی بھاری کا انتظار کرتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارا عدالتی اور جمہوری سسٹم کمزور اور ناتواں ہونا ہے ۔اگر عدالتی نظام مضبوط ہوتا تو  ججز پر الزامات لگانے کی کوئی جرات نہ کرتا۔ اگر غلط الزامات ماضی میں لگانے والوں کو یہ عدالتیں سزائیں دے چکی ہوتی تو اج یہ دن عدلیہ کے ججز کو نہ دیکھنے پڑتے۔یاد ہوگا جب محترم قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف الزامات پر مبنی ریفرنس  دائر کیا گیا تھا اگر یہ ریفرنس دائر کرنے والوں کو  سزا دی جاتی تو آج کسی جج کے خلاف ریفرنس دائر نہ ہوتا ۔الٹا وہ اب بھری کورٹ میں کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے مقدمات میں یہ جج صاحب بنچ کا حصہ نہ بنیں۔اس لیے کہ ہم نے ان کے راستے میں دیوار کھڑی کی تھی مگر وہ گر گئی اور یہ جسٹس سے چیف جسٹس بن گئے ۔کیا اس جماعت کا ایسا کہنا اس بات کا ثبوت نہیں کہ ہم نے غلط ریفرنس دائر کیا تھا۔کیا اس بات پر ہی انہیں قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے تھی۔ بحرحال  معاف کرنا سزا دینے سے افضل ہے۔ایسا کرنے والوں کو خود بھی شرم آنی چائے۔ ہماری عدالتوں کو جان بوجھ کر بد نام کیا جا رہا ہے ۔کہا جا رہا ہے عدالتیں خود بھی قانون اور آئین کے مطابق فیصلے نہیں دیتیں نظریہ ضرورت کے تحت دیتی ہیں۔ 
 ایک کہانی ہے جس میں بتایا گیا  ہمارے دو اتھلیٹ ایک ایسے ملک میں گئے جہاں کوئی قانون نہ تھا۔ ہر کوئی اپنی مرضی سے ایک قسم کی اشیا مختلف داموں میں فروخت ہورہی تھیں۔ ایک دوست نے کہا یہاں لگتا ہے قانون نہیں ہے آؤ واپس چلتے ہیں  دوسرے نے جواب دیا، ہم ان چیزوں کی خریداری کیا کریں گے جو سستی ہونگی ۔ابھی یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ سامنے سے دو پولیس والے آتے دکھائی دیئے لوگ انہیں دیکھ کر بھاگ رہے تھے اور یہ دونوں بے خوف ہو کر ان کی جانب بڑھ رہے تھے۔ پولیس والوں نے انہیں روک کر کہا ہمارا ایک قاتل مفرور ہے چناچہ یہ پھندہ جس کے گلے میں فٹ آٹے گا اسے پھانسی دے دی جائے گیاور پھر  یہ پھندہ دونوں میں سے ایک کے گلے میں فٹ ہوگیا۔دوسرے نے کہا گھبراؤ نہیں دو قدم ساتھ چلتے ہیں پھر بھاگ جائیں گے   ایسا ہی کیا کیونکہ یہ دونوں اتھلیٹ تھے وہ پولیس سے بھاگ کر واپس اپنے وطن پہنچ گئے۔ جب یہاں واپس آ ئے اخبارات پڑھیں تو کہا یہاں بھی قانون نہیں ہے۔ ججز پر الزامات لگ رہیں ہیں پھانسی کی اپیلیں اور مختلف دوسرے مقدمات کی سپریم کورٹ میں اپیلیں پڑھی گل سڑھ رہی ہیں سزا سے زیادہ سزا مجرم کاٹ چکے ہیں مگر کوئی ان کی سنائی نہیں۔چلو یہاں سے بھاگ جاتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جو الزامات سیاست دانوں پر لگتے تھے وہی الزامات اب ججز پر لگا کر ریفرنس دائر ہو رہے ہیں۔ سابق صدراسلام آباد بارجسٹس طارق محمود جہانگیری یہ جج صاحب اس سے پہلے کئی سرکاری، عہدوں پر لا افسر رہ چکے ہیں. اب ان پر الزام ہے کہ ان کی لا کی ڈگری ٹھیک نہیں ہے۔ جس نے یہ الزام لگایا ہے اسے یہ ڈگری اس وقت کیوں نہ دکھائی دی جب یہ جج بنے۔اتنے عرصے بعد ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ایسا ہی کیس ایک چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس سپریم کورٹ صفدر شاہ پر بنایا گیا تھا کہ انکی میٹرک کی سند جعلی ہے۔  وہ افغانستان کے راستے برطانیہ گئے اور وہی وفات پائی ۔ اسلام اباد بار کونسل کے سینئر ممبر ذوالفقارعلی عباسی نے بتایا کہ جب میرے نام کی بطور جج بازگشت جاری تھی تو مختلف اداروں کے لوگ مجھے بتاتے تھے کہ سر آپ نے پرائمری سکول فلاں جگہ سے کیا ہے جب کہ یہ سکول بہت دوردراز ایریا میں  تھا لیکن یہ صاحب اس سکول کا وزٹ   کر آئے تھے مجھ سے زیادہ میری  ڈگریوں کے بارے اداروں کے لوگ جانتے تھے۔وہ بتاتے تھے کہ کتنے نمبروں سے ڈگری لی اور کہاں سے اور کب لی تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ آپ کے بنک اکاونٹ  میں اتنی رقم ہے؟ فلاں شہر میں  پراپرٹی آپ کے بچوں کے نام ہے۔ کہا ادارے سلیکشن سے پہلے بھرپور طریقے سے جانچ پڑتال ججز کی ہر قسم کی کرتے ہیں ۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ جس کی ڈگری جعلی ہو اور اس کا انہیں پتہ نہ ہو ۔جسٹس طارق محمود جہانگیری  نے وکالت کی ڈگری کراچی سے لی.. وہ مختلف اداروں میں لا افسر رہ چکے ہیں . پھر اعلیٰ عدلیہ میں کافی عرصے سے جج ہیں۔ان کی  ہر جگہ ڈگریاں چیک ہوتی رہی ہیں، یکدم ان کی ڈگری کے خلاف کسی نے ریفرنس دائر کر دیا ہے۔ یہ بڑی الرامنگ صورتحال ہے۔اس پر وکلا کمیونٹی آگ بگولا ہے۔عوام پریشان ہیں۔اس آگ کو پہلے ٹھنڈا کریں پھر ختم کریں۔ اس کیس کو جوڈیشل کونسل میں چلائیں۔الزام لگانے والے کو بلائیں۔ پوچھیں جب یہ جج بنے تھے تو اس وقت کیا تم سو رہے تھے اب یہ خبر دے کر کس نے جگایا تمہیں۔اگر الزامات  جھوٹے ہوں تو اس پر بھاری جرمانے اور قید با مشقت کی سزا دی جائے تانکہ الزامات لگانے والے عبرت کا نشان بنے۔ پگڑی اچھالنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں پھر ہی یہ طوفان روکے گا۔ ورنہ نہیں ۔ایسے ریفرنس کے کیسوں کا فیصلہ ہفتوں میں نہیں گھنٹے دنوں میں سامنے لائے جائیں!!

ای پیپر دی نیشن