حکومت پاکستان نے بھارت کی جانب سے وولر بیراج کا ڈیزائن تبدیل کرنے کی پیشکش قبول کرلی ہے جس کے پیش نظر اب وولر بیراج گیٹ کے بغیر دریائے جہلم پر تعمیر کیا جائیگا۔ اس سلسلہ میں وولر بیراج کے ایشو پر اسلام آباد میں آبپاشی کے سیکرٹریوں کی سطح پر ہونیوالے پاکستان بھارت مذاکرات میں پاکستان کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ وولر بیراج سندھ طاس معاہدے کے برعکس تعمیر کیا جا رہا ہے اس لئے بھارت اس منصوبے کو ختم کردے تاہم بھارت نے یہ اعتراض مسترد کرتے ہوئے وولر بیراج کا نیا ڈیزائن پاکستان کو پیش کیا جسے پاکستان نے مسترد کرنے کے بجائے قبول کرلیا اور اس حوالے سے صوبوں کو بھی آگاہ کردیا جبکہ صوبوں نے بھی وفاق کی پیروی کرتے ہوئے اس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ نئے ڈیزائن کی رو سے بھارت وولر بیراج پراجیکٹ کے ذریعے 0.3 ملین ایکڑ پانی سٹور کریگا جس کیلئے 439 فٹ طویل اور 40 فٹ چوڑا سٹرکچر تعمیر کیا جائیگا۔ نوائے وقت کی خصوصی رپورٹ کے مطابق وولر بیراج کی تعمیر سے دریائے جہلم میں پاکستان کی جانب پانی کا بہاﺅ نہ ہونے کے برابر رہ جائیگا اور وسطی پنجاب کی 2 لاکھ ایکڑ قابل کاشت اراضی بنجر ہو جائیگی جبکہ اس ڈیم کے باعث منگلا ڈیم میں آنیوالا پانی بھی کم ہو جائیگا جس سے ہائیڈل بجلی کی پیداوار میں بھی نمایاں کمی ہو جائیگی۔ آبی ماہرین نے بھارتی وولر بیراج ڈیم کی نئے ڈیزائن کے ساتھ تعمیر پر رضامندی کو پاکستان کیلئے زہر قاتل قرار دیا ہے اور استفسار کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ ایسے مذاکرات کیوں کئے جا رہے ہیں جو پاکستان کو صحرا میں تبدیل کرنے پر منتج ہو سکتے ہوں۔
یہ حقیقت تو اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ شروع دن سے ہمیں آزاد و خودمختار مملکت کے طور پر تسلیم نہ کرنےوالا ہمارا ازلی مکار دشمن بھارت ہماری سالمیت کے درپے ہے اور ہمارے آبی وسائل پر قابض ہو کر ہماری زرخیز دھرتی کو صحرا میں تبدیل کرنے اور ہمیں بھوکا پیاسا مارنے کی بدنیتی رکھتا ہے۔ اس بھارتی سازش کا اعتراف خود بھارتی انجینئروں نے نیپال میں منعقدہ جنوبی ایشیائی آبی کانفرنس میں یہ انکشاف کرکے کیا ہے کہ 2020ءتک بھارت پاکستان کا پانی مکمل طور پر بند کر سکتا ہے۔ اپنے روایتی مکار دشمن کی ان سازشوں کی بنیاد پر تو ہمارے حکمرانوں اور متعلقہ حکومتی اداروں کو زیادہ چوکنا رہنے اور آبی دہشت گردی سے متعلق ان بھارتی سازشوں کا توڑ کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے تھی مگر ہمارے منصوبہ ساز ہر مرحلہ پر ہاتھ باندھے بھارت کے آگے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسے پاکستان کی سالمیت کیخلاف اپنی گھناﺅنی سازشوں کو پروان چڑھانے کا موقع فراہم کر دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایٹمی پاکستان کو ریگستان میں تبدیل کرنے کی اس اعلانیہ سازش میں ہمارے حکمران کیوں شریک ہیں؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے تنازعہ پر عالمی بنک کی وساطت سے 1962ءمیں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کو بھی اگرچہ پاکستان کے مفادات کے منافی تصور کیا جاتا ہے تاہم اس معاہدے کے تحت بھارت کی جانب سے کشمیر کے راستے پاکستان آنیوالے تین دریاﺅں ستلج‘ چناب اور جہلم پر پہلے پاکستان کو ڈیم تعمیر کرنے کا حق دیا گیا جس کے بعد بھارت ان دریاﺅں پر ڈیم تعمیر کر سکتا تھا‘ ہمارے کج فہم حکمرانوں نے ڈیمز پر سیاست کرکے منگلا اور تربیلا ڈیم کے بعد کسی تیسرے ڈیم کی تعمیر کی نوبت ہی نہ آنے دی‘ کالاباغ ڈیم پر آج بھی سیاست جاری ہے اور اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت اسے مردہ گھوڑا قرار دینے والی اے این پی حکومت پنجاب کی جانب سے اس ڈیم کی تعمیر کیلئے صوبائی بجٹ میں دس لاکھ کی علامتی رقم مختص کرنے پر پارلیمنٹ میں سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے اور اس تلخ حقیقت کی جانب دانستاً آنکھیں بند کئے بیٹھی ہے کہ کالاباغ ڈیم کو مردہ گھوڑا بنایا گیا تو اس سے سارا ملک اور قوم مردہ ہو جائیگی کیونکہ یہی ڈیم ہماری آبپاشی اور بجلی کی ضرورت پوری کرنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں تو قومی بقاءکی خاطر کالاباغ ڈیم کیلئے پنجاب کے بجٹ میں محض علامتی طور پر فنڈز مختص نہیں ہونے چاہئیں تھے بلکہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت توانائی کے وسائل پیدا کرنے کا اختیار صوبوں کو منتقل ہونے کی بنیاد پر پنجاب حکومت کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو اپنی ترجیح اول بنا لیتی مگر یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ کالاباغ ڈیم کیلئے محض علامتی فنڈز مختص کرکے نہ صرف اے این پی اور دیگر مخالفین کو پھر اس ایشو پر اپنی سیاست چمکانے کا موقع دیا جا رہا ہے بلکہ بھارتی وولر بیراج کی نئے ڈیزائن کے ساتھ تعمیر پر وفاقی حکومت کی رضامندی پر بھی پنجاب حکومت نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔
ہمارے لئے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی رو سے تین دریاﺅں پر پہلے ڈیم تعمیر کرنے سے متعلق اپنے حق سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور اسکے برعکس جب بھارت نے متذکرہ معاہدے کے قطعی برعکس دریائے چناب اور جہلم پر ڈیمز کی تعمیر کیلئے پیش رفت کی تو اس پر رسمی احتجاج اور کمزور کیس تیار کرکے بھارت کو ڈیمز تعمیر کرنے کے بھی مواقع فراہم کر دیئے گئے۔ بھارت نے پہلے دریائے جہلم پر مقبوضہ کشمیر میں بگلیہار ڈیم کی تعمیر شروع کی تو پاکستان کی جانب سے اس منصوبے پر اعتراض کرنے کے بجائے اسکے محض ڈیزائن پر اعتراض کیا گیا‘ جو بھارت نے نیا ڈیزائن پیش کرکے دور کر دیا چنانچہ عالمی عدالتِ انصاف میں پاکستان اپنا کیس ہار کر واپس آگیا جبکہ بھارت نے اپنی من مرضی سے بگلیہار ڈیم کی تعمیر مکمل کرلی اور ساتھ ہی موقع سے فائدہ اٹھا کر سو سے زیادہ چھوٹے بڑے ڈیمز کی تعمیر شروع کر دی جبکہ اب وولر بیراج کی تعمیر کے بھارتی منصوبے پر بھی پاکستان کی جانب سے پہلے اسکے سندھ طاس معاہدے کے منافی ہونے کا اعتراض اٹھایا گیا جو بھارت نے مسترد کیا اور اس ڈیم کا ڈیزائن تبدیل کرکے پاکستان کیلئے قابل قبول بنانے کی حکمت عملی طے کی تو ہمارے مہربانوں نے جھٹ پٹ اس نامعقول بھارتی تجویز کو شرف قبولیت بخش دیا چنانچہ باوجود اسکے کہ وولر بیراج ڈیم کی تعمیر سندھ طاس معاہدے کے قطعی منافی ہو گی۔ بھارت کو ہمارے حکمرانوں کی رضامندی سے یہ ڈیم تعمیر کرنے کی بھی سہولت مل گئی ہے۔ اسکے بعد ہمارے ساتھ وہی کچھ ہو گا‘ جس کی نشاندہی بھارتی انسٹی ٹیوشن آف انجینئرز کی جانب سے نیپال کانفرنس میں کی گئی ہے کہ 2020ءتک بھارت پاکستان کا پانی مکمل طور پر بند کر دیگا۔
وولر بیراج کے بعد بھارت کرگل ڈیم اور دوسرے بڑے ڈیمز کی تعمیر کا بھی نہ صرف ارادہ رکھتا ہے بلکہ انکی تعمیر کیلئے کام بھی شروع کر چکا ہے جبکہ وولر ڈیم کے ٹنلز کے ذریعے دریائے جہلم کے پانی کا رخ موڑ کر مجوزہ کرگل ڈیم میںڈالا جائیگا جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دریائے جہلم کے پانی کا کوئی ایک قطرہ بھی ہمیں مل پائیگا؟ گزشتہ سال کے سیلاب کی تباہ کاریوں نے بھی کیا آبی دہشت گردی کی بنیاد پر ہماری سالمیت کیخلاف تیار کی گئی گھناﺅنی بھارتی سازشوں سے پردہ نہیں اٹھایا؟ جب ہماری جانب آنیوالے دریاﺅں کے پانی پر بھی بھارت کا کنٹرول ہو گا تو وہ جب چاہے گا‘ اسے روک کر ہمیں قحط اور خشک سالی کا شکار بنا لے گا اور جب چاہے گا‘ یہ سارا فالتو پانی ہماری جانب چھوڑ کر یہاں قیامت خیز سیلاب کی نوبت لے آئیگا جس سے ہماری لہلہاتی فصلیں بھی تباہ ہونگی اور شہری و دیہاتی آبادیاں بھی ڈوب جائیں گی۔ اسی مکروہ سازش کی تکمیل کیلئے ہی تو بھارت کشمیر پر اپنا تسلط جمائے رکھنا چاہتا ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کسی بھی سطح پر ہونیوالے پاکستان بھارت مذاکرات کو کامیاب نہیں ہونے دیتا جبکہ ہمارے حکمران نہ صرف ان گھناﺅنی بھارتی سازشوں کا توڑ نہیں کرتے بلکہ ان سازشوں کی تکمیل کا بھی خود ہی اپنے موذی دشمن کو موقع فراہم کر رہے ہیں۔ انہیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اصل حقائق کا ادراک کرتے ہوئے عالمی بنک کے متعلقہ فورم پر وولر بیراج کیخلاف اپنا ٹھوس اور مضبوط کیس تیار کرکے لے جانا چاہیے‘ ورنہ جس بدو مہاراج کو آپ اونٹ سمیت خیمے میں داخل ہونے کی اجازت دے رہے ہیں‘ وہ پورے ”خیمے“ پر خود ہی قابض ہو جائیگا۔
طیب اردگان کی
بھاری اکثریت سے جیت
ترکی میں طیب اردگان کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے عام انتخابات میں واضح برتری حاصل کرلی ہے‘ جس پر ترکی میں جشن منایا گیا۔
طیب اردگا کی پارٹی عوامی حمایت کے بل بوتے پر تیسری مرتبہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے‘ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو جہاں ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے پر عوامی پذیرائی ملی‘ وہیں اتاترک کے سیکولرازم نظریات سے بتدریج نجات پر بھی عام آدمی نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ طیب اردگان حکومت کی طرف سے اتاترک کے ملحدانہ اقدامات کو متروک کرنے کے اقدامات کو عالم اسلام میں بھی سراہا جا رہا ہے۔ گو اب بھی ترک فوج اور عدلیہ کی طرف سے اتاترک کے سیکولر اور ملحدانہ نظریات کی آبیاری کی خواہش پائی جاتی ہے لیکن یہ دونوں اہم ادارے عوامی قوت کے سامنے بے بس ہیں۔ البتہ فوج کی طرف سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی متعدد بار سازش ہوئی جو طیب اردگان نے اپنی فہم فراست اور بروقت اقدامات سے ناکام بنا دی۔ ترکی تو کیا کسی بھی ملک میں عوامی امنگوں کیخلاف اقدامات کو حمایت حاصل نہیں ہو سکتی‘ ترکی پاکستان کا برادر اسلامی اور دوست ملک ہے‘ طیب اردگان کی کامیابی پر بہت سے اسلامی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی طمانیت پائی جاتی ہے۔ جدید ترکی اپنی حد تک عالم اسلام کی نمائندگی کر رہا ہے‘ غزہ کے محصورین کی امداد کیلئے بھجوایا جانیوالا فلوٹیلا اس کا ثبوت ہے۔
آج سامراجی اور استعماری طاقتیں مسلمانوں کا گھیراﺅ کئے ہوئے ہیں‘ صلیبی جنگ جاری ہے‘ افغانستان‘ عراق‘ ترکی‘ پاکستان اور لیبیا کا ناطقہ بند کیا جا چکا ہے‘ ایران‘ یمن‘ شام زیر عتاب ہیں‘ ایسے میں ایک مضبوط اسلامی بلاک کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت ترکی‘ ایران‘ پاکستان اور افغانستان پر مشتمل اسلامی بلاک پوری کر سکتا ہے۔ ترکی ایران تو تیار ہیں‘ پاکستان اور افغانستان امریکہ کے زیر اثر ہیں۔ زرداری اور کرزئی دونوں حالات کی نزاکت کا ادراک کریں‘ صلیبی جنگ کا مقابلہ مذکورہ ممالک کے بلا ک بنانے سے ہی ممکن ہے۔ بعدازاں اس میں عرب ممالک اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس مجوزہ اسلامی بلاک کی تشکیل کےلئے عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ حرف آخر پاکستان کی طرف سے اہل ترک کو طیب اردگان کی بھاری اکثریت سے کامیابی مبارک ہو۔
سیاچن پر غیر ملکی فوج کی تعیناتی !
امریکہ نے سیاچن تنازعہ حل کرنے کیلئے دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے پر سارک ممالک میں شامل نیپال کی گورکھا یا برطانیہ کی فوج کی تعیناتی کی تجویز پیش کی ہے، امریکہ نے زور دیا ہے کہ اقوام متحدہ سیاچن پر سارک ممالک یا برطانوی فوج کی تعیناتی کے حق میں قرار داد منظور کرے۔
امریکہ پوری دنیا پر اپنا تسلط جمانے کیلئے کوشاں ہے۔ افغانستان اور عراق میں خون کی ندیاں بہانے کے بعد اس کی نظریں دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے سیاچن پر مرکوز ہیں اقوام متحدہ کے ذریعے قرار داد منظور کروا کر وہاں نیپال کی گورکھا یا برطانیہ کی فوج کو تعینات کروا کر امریکہ اس خطے میں اپنے قدم جمانے پر غور کر رہا ہے، دنیا کے سامنے ظاہر یہ کیا جا رہا ہے کہ پاک بھارت تعلقات صرف سیاچن تنازعے کی وجہ سے خراب ہیں، ہم نے اس مسئلے کو حل کر دیا ہے لیکن درحقیقت امریکہ بلند ترین پہاڑی پر قبضہ کرکے پاکستان، افغانستان اور چین پہ نظر رکھنا چاہتا ہے جس کا زیادہ نقصان پاکستان اور چین کو ہو گا، چین کیلئے اس سلسلے میں زیادہ ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے‘ سلامتی کونسل میں اگر یہ قرارداد پیش ہوتی ہے تو چائینہ اسے ویٹو کردے کیونکہ افغانستان اور پاکستان تو پہلے ہی دہشت گردی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور امریکہ اپنے مطلب کے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہے، بغیر کسی روک ٹوک کے وہ ڈرون حملوں کے ذریعے ہماری سلامتی پر کاری ضربیں لگا رہا ہے، سیاچن پر قبضے سے اصل میں وہ چائینہ کو نیچا دکھانے اور اس پر نظر رکھنے کیلئے کوششیں کر رہا ہے۔
امریکہ اگر پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کا خواہاں ہے تو اسے بنیادی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہاں سے تو وہ نظریں چراتا ہے اور اپنے مفاد کیلئے وہ صرف سیاچن کے 110 کلو و میٹر رقبے پر نظریں جمائے ہوئے ہے، امریکہ اس خطے میں نیا کھیل کھیلنے سے باز رہے اور اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کیلئے نت نئے شوشے مت چھوڑے۔
یہ حقیقت تو اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ شروع دن سے ہمیں آزاد و خودمختار مملکت کے طور پر تسلیم نہ کرنےوالا ہمارا ازلی مکار دشمن بھارت ہماری سالمیت کے درپے ہے اور ہمارے آبی وسائل پر قابض ہو کر ہماری زرخیز دھرتی کو صحرا میں تبدیل کرنے اور ہمیں بھوکا پیاسا مارنے کی بدنیتی رکھتا ہے۔ اس بھارتی سازش کا اعتراف خود بھارتی انجینئروں نے نیپال میں منعقدہ جنوبی ایشیائی آبی کانفرنس میں یہ انکشاف کرکے کیا ہے کہ 2020ءتک بھارت پاکستان کا پانی مکمل طور پر بند کر سکتا ہے۔ اپنے روایتی مکار دشمن کی ان سازشوں کی بنیاد پر تو ہمارے حکمرانوں اور متعلقہ حکومتی اداروں کو زیادہ چوکنا رہنے اور آبی دہشت گردی سے متعلق ان بھارتی سازشوں کا توڑ کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے تھی مگر ہمارے منصوبہ ساز ہر مرحلہ پر ہاتھ باندھے بھارت کے آگے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسے پاکستان کی سالمیت کیخلاف اپنی گھناﺅنی سازشوں کو پروان چڑھانے کا موقع فراہم کر دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایٹمی پاکستان کو ریگستان میں تبدیل کرنے کی اس اعلانیہ سازش میں ہمارے حکمران کیوں شریک ہیں؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے تنازعہ پر عالمی بنک کی وساطت سے 1962ءمیں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کو بھی اگرچہ پاکستان کے مفادات کے منافی تصور کیا جاتا ہے تاہم اس معاہدے کے تحت بھارت کی جانب سے کشمیر کے راستے پاکستان آنیوالے تین دریاﺅں ستلج‘ چناب اور جہلم پر پہلے پاکستان کو ڈیم تعمیر کرنے کا حق دیا گیا جس کے بعد بھارت ان دریاﺅں پر ڈیم تعمیر کر سکتا تھا‘ ہمارے کج فہم حکمرانوں نے ڈیمز پر سیاست کرکے منگلا اور تربیلا ڈیم کے بعد کسی تیسرے ڈیم کی تعمیر کی نوبت ہی نہ آنے دی‘ کالاباغ ڈیم پر آج بھی سیاست جاری ہے اور اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت اسے مردہ گھوڑا قرار دینے والی اے این پی حکومت پنجاب کی جانب سے اس ڈیم کی تعمیر کیلئے صوبائی بجٹ میں دس لاکھ کی علامتی رقم مختص کرنے پر پارلیمنٹ میں سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے اور اس تلخ حقیقت کی جانب دانستاً آنکھیں بند کئے بیٹھی ہے کہ کالاباغ ڈیم کو مردہ گھوڑا بنایا گیا تو اس سے سارا ملک اور قوم مردہ ہو جائیگی کیونکہ یہی ڈیم ہماری آبپاشی اور بجلی کی ضرورت پوری کرنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں تو قومی بقاءکی خاطر کالاباغ ڈیم کیلئے پنجاب کے بجٹ میں محض علامتی طور پر فنڈز مختص نہیں ہونے چاہئیں تھے بلکہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت توانائی کے وسائل پیدا کرنے کا اختیار صوبوں کو منتقل ہونے کی بنیاد پر پنجاب حکومت کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو اپنی ترجیح اول بنا لیتی مگر یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ کالاباغ ڈیم کیلئے محض علامتی فنڈز مختص کرکے نہ صرف اے این پی اور دیگر مخالفین کو پھر اس ایشو پر اپنی سیاست چمکانے کا موقع دیا جا رہا ہے بلکہ بھارتی وولر بیراج کی نئے ڈیزائن کے ساتھ تعمیر پر وفاقی حکومت کی رضامندی پر بھی پنجاب حکومت نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔
ہمارے لئے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی رو سے تین دریاﺅں پر پہلے ڈیم تعمیر کرنے سے متعلق اپنے حق سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور اسکے برعکس جب بھارت نے متذکرہ معاہدے کے قطعی برعکس دریائے چناب اور جہلم پر ڈیمز کی تعمیر کیلئے پیش رفت کی تو اس پر رسمی احتجاج اور کمزور کیس تیار کرکے بھارت کو ڈیمز تعمیر کرنے کے بھی مواقع فراہم کر دیئے گئے۔ بھارت نے پہلے دریائے جہلم پر مقبوضہ کشمیر میں بگلیہار ڈیم کی تعمیر شروع کی تو پاکستان کی جانب سے اس منصوبے پر اعتراض کرنے کے بجائے اسکے محض ڈیزائن پر اعتراض کیا گیا‘ جو بھارت نے نیا ڈیزائن پیش کرکے دور کر دیا چنانچہ عالمی عدالتِ انصاف میں پاکستان اپنا کیس ہار کر واپس آگیا جبکہ بھارت نے اپنی من مرضی سے بگلیہار ڈیم کی تعمیر مکمل کرلی اور ساتھ ہی موقع سے فائدہ اٹھا کر سو سے زیادہ چھوٹے بڑے ڈیمز کی تعمیر شروع کر دی جبکہ اب وولر بیراج کی تعمیر کے بھارتی منصوبے پر بھی پاکستان کی جانب سے پہلے اسکے سندھ طاس معاہدے کے منافی ہونے کا اعتراض اٹھایا گیا جو بھارت نے مسترد کیا اور اس ڈیم کا ڈیزائن تبدیل کرکے پاکستان کیلئے قابل قبول بنانے کی حکمت عملی طے کی تو ہمارے مہربانوں نے جھٹ پٹ اس نامعقول بھارتی تجویز کو شرف قبولیت بخش دیا چنانچہ باوجود اسکے کہ وولر بیراج ڈیم کی تعمیر سندھ طاس معاہدے کے قطعی منافی ہو گی۔ بھارت کو ہمارے حکمرانوں کی رضامندی سے یہ ڈیم تعمیر کرنے کی بھی سہولت مل گئی ہے۔ اسکے بعد ہمارے ساتھ وہی کچھ ہو گا‘ جس کی نشاندہی بھارتی انسٹی ٹیوشن آف انجینئرز کی جانب سے نیپال کانفرنس میں کی گئی ہے کہ 2020ءتک بھارت پاکستان کا پانی مکمل طور پر بند کر دیگا۔
وولر بیراج کے بعد بھارت کرگل ڈیم اور دوسرے بڑے ڈیمز کی تعمیر کا بھی نہ صرف ارادہ رکھتا ہے بلکہ انکی تعمیر کیلئے کام بھی شروع کر چکا ہے جبکہ وولر ڈیم کے ٹنلز کے ذریعے دریائے جہلم کے پانی کا رخ موڑ کر مجوزہ کرگل ڈیم میںڈالا جائیگا جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دریائے جہلم کے پانی کا کوئی ایک قطرہ بھی ہمیں مل پائیگا؟ گزشتہ سال کے سیلاب کی تباہ کاریوں نے بھی کیا آبی دہشت گردی کی بنیاد پر ہماری سالمیت کیخلاف تیار کی گئی گھناﺅنی بھارتی سازشوں سے پردہ نہیں اٹھایا؟ جب ہماری جانب آنیوالے دریاﺅں کے پانی پر بھی بھارت کا کنٹرول ہو گا تو وہ جب چاہے گا‘ اسے روک کر ہمیں قحط اور خشک سالی کا شکار بنا لے گا اور جب چاہے گا‘ یہ سارا فالتو پانی ہماری جانب چھوڑ کر یہاں قیامت خیز سیلاب کی نوبت لے آئیگا جس سے ہماری لہلہاتی فصلیں بھی تباہ ہونگی اور شہری و دیہاتی آبادیاں بھی ڈوب جائیں گی۔ اسی مکروہ سازش کی تکمیل کیلئے ہی تو بھارت کشمیر پر اپنا تسلط جمائے رکھنا چاہتا ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کسی بھی سطح پر ہونیوالے پاکستان بھارت مذاکرات کو کامیاب نہیں ہونے دیتا جبکہ ہمارے حکمران نہ صرف ان گھناﺅنی بھارتی سازشوں کا توڑ نہیں کرتے بلکہ ان سازشوں کی تکمیل کا بھی خود ہی اپنے موذی دشمن کو موقع فراہم کر رہے ہیں۔ انہیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اصل حقائق کا ادراک کرتے ہوئے عالمی بنک کے متعلقہ فورم پر وولر بیراج کیخلاف اپنا ٹھوس اور مضبوط کیس تیار کرکے لے جانا چاہیے‘ ورنہ جس بدو مہاراج کو آپ اونٹ سمیت خیمے میں داخل ہونے کی اجازت دے رہے ہیں‘ وہ پورے ”خیمے“ پر خود ہی قابض ہو جائیگا۔
طیب اردگان کی
بھاری اکثریت سے جیت
ترکی میں طیب اردگان کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے عام انتخابات میں واضح برتری حاصل کرلی ہے‘ جس پر ترکی میں جشن منایا گیا۔
طیب اردگا کی پارٹی عوامی حمایت کے بل بوتے پر تیسری مرتبہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے‘ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو جہاں ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے پر عوامی پذیرائی ملی‘ وہیں اتاترک کے سیکولرازم نظریات سے بتدریج نجات پر بھی عام آدمی نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ طیب اردگان حکومت کی طرف سے اتاترک کے ملحدانہ اقدامات کو متروک کرنے کے اقدامات کو عالم اسلام میں بھی سراہا جا رہا ہے۔ گو اب بھی ترک فوج اور عدلیہ کی طرف سے اتاترک کے سیکولر اور ملحدانہ نظریات کی آبیاری کی خواہش پائی جاتی ہے لیکن یہ دونوں اہم ادارے عوامی قوت کے سامنے بے بس ہیں۔ البتہ فوج کی طرف سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی متعدد بار سازش ہوئی جو طیب اردگان نے اپنی فہم فراست اور بروقت اقدامات سے ناکام بنا دی۔ ترکی تو کیا کسی بھی ملک میں عوامی امنگوں کیخلاف اقدامات کو حمایت حاصل نہیں ہو سکتی‘ ترکی پاکستان کا برادر اسلامی اور دوست ملک ہے‘ طیب اردگان کی کامیابی پر بہت سے اسلامی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی طمانیت پائی جاتی ہے۔ جدید ترکی اپنی حد تک عالم اسلام کی نمائندگی کر رہا ہے‘ غزہ کے محصورین کی امداد کیلئے بھجوایا جانیوالا فلوٹیلا اس کا ثبوت ہے۔
آج سامراجی اور استعماری طاقتیں مسلمانوں کا گھیراﺅ کئے ہوئے ہیں‘ صلیبی جنگ جاری ہے‘ افغانستان‘ عراق‘ ترکی‘ پاکستان اور لیبیا کا ناطقہ بند کیا جا چکا ہے‘ ایران‘ یمن‘ شام زیر عتاب ہیں‘ ایسے میں ایک مضبوط اسلامی بلاک کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت ترکی‘ ایران‘ پاکستان اور افغانستان پر مشتمل اسلامی بلاک پوری کر سکتا ہے۔ ترکی ایران تو تیار ہیں‘ پاکستان اور افغانستان امریکہ کے زیر اثر ہیں۔ زرداری اور کرزئی دونوں حالات کی نزاکت کا ادراک کریں‘ صلیبی جنگ کا مقابلہ مذکورہ ممالک کے بلا ک بنانے سے ہی ممکن ہے۔ بعدازاں اس میں عرب ممالک اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس مجوزہ اسلامی بلاک کی تشکیل کےلئے عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ حرف آخر پاکستان کی طرف سے اہل ترک کو طیب اردگان کی بھاری اکثریت سے کامیابی مبارک ہو۔
سیاچن پر غیر ملکی فوج کی تعیناتی !
امریکہ نے سیاچن تنازعہ حل کرنے کیلئے دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے پر سارک ممالک میں شامل نیپال کی گورکھا یا برطانیہ کی فوج کی تعیناتی کی تجویز پیش کی ہے، امریکہ نے زور دیا ہے کہ اقوام متحدہ سیاچن پر سارک ممالک یا برطانوی فوج کی تعیناتی کے حق میں قرار داد منظور کرے۔
امریکہ پوری دنیا پر اپنا تسلط جمانے کیلئے کوشاں ہے۔ افغانستان اور عراق میں خون کی ندیاں بہانے کے بعد اس کی نظریں دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے سیاچن پر مرکوز ہیں اقوام متحدہ کے ذریعے قرار داد منظور کروا کر وہاں نیپال کی گورکھا یا برطانیہ کی فوج کو تعینات کروا کر امریکہ اس خطے میں اپنے قدم جمانے پر غور کر رہا ہے، دنیا کے سامنے ظاہر یہ کیا جا رہا ہے کہ پاک بھارت تعلقات صرف سیاچن تنازعے کی وجہ سے خراب ہیں، ہم نے اس مسئلے کو حل کر دیا ہے لیکن درحقیقت امریکہ بلند ترین پہاڑی پر قبضہ کرکے پاکستان، افغانستان اور چین پہ نظر رکھنا چاہتا ہے جس کا زیادہ نقصان پاکستان اور چین کو ہو گا، چین کیلئے اس سلسلے میں زیادہ ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے‘ سلامتی کونسل میں اگر یہ قرارداد پیش ہوتی ہے تو چائینہ اسے ویٹو کردے کیونکہ افغانستان اور پاکستان تو پہلے ہی دہشت گردی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور امریکہ اپنے مطلب کے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہے، بغیر کسی روک ٹوک کے وہ ڈرون حملوں کے ذریعے ہماری سلامتی پر کاری ضربیں لگا رہا ہے، سیاچن پر قبضے سے اصل میں وہ چائینہ کو نیچا دکھانے اور اس پر نظر رکھنے کیلئے کوششیں کر رہا ہے۔
امریکہ اگر پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کا خواہاں ہے تو اسے بنیادی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہاں سے تو وہ نظریں چراتا ہے اور اپنے مفاد کیلئے وہ صرف سیاچن کے 110 کلو و میٹر رقبے پر نظریں جمائے ہوئے ہے، امریکہ اس خطے میں نیا کھیل کھیلنے سے باز رہے اور اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کیلئے نت نئے شوشے مت چھوڑے۔