لندن (آن لائن+ اے پی پی) لندن میں جنگ زدہ علاقوں میں جنسی تشدد کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس میں کشمیریوں کا نقطہ نظر نہ سنے جانے پر سینکڑوں کشمیریوں نے شدید احتجاج کیا، کانفرنس کی میزبانی ہالی وڈ کی اداکارہ انجلینا جولی اور برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ لندن کانفرنس میں کشمیر کا ذکر تک نہیں ہوا حالانکہ ان 117 ممالک کی بات کی گئی جہاں جنسی تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں۔ کشمیری کارکنان کے مطابق کانفرنس میں بھارت کا بھی ذکر ہوا تھا لیکن کشمیر کے حوالے سے نہیں۔ کشمیر سے لندن آنے والے سرگرم کارکنوں نے اپنا احتجاج ٹوئٹر پر شروع کر دیا ہے اور شکایت کی ہے کہ کشمیریوں کو ان کا نقطہ نظر سنانے نہیں دیا گیا۔ برطانیہ میں مقیم ایک کشمیری کارکن ثناء سلطان نے بی بی سی کو بتایا کہ کانفرنس کے دو کشمیری کارکنوں کو پہلے دن اس بنا پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے سے روکا گیا کہ ان کے ہاتھوں میں ایسے پوسٹر تھے جن پر کشمیر میں ریپ کے واقعات کا لندن کانفرنس میں ذکر نہ ہونے پر احتجاجی جملے درج تھے۔ ’دوسرے دن یہ کہہ کر کانفرنس سے نکال دیا گیا کہ ان کا احتجاج پالیسی کے خلاف ہے۔ ثناء سلطان کے مطابق کشمیری کارکن ایک پیٹیشن پر بھی کام کر رہے ہیں جو برطانوی پارلیمان کے حوالے کی جائے گی۔ اس پیٹیشن پر لوگوں کے دستخط لئے جا رہے ہیں اور اس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ بھارتی فوج کشمیر میں جس جنسی تشدد کا ارتکاب کر رہی ہے، اس پر کانفرنس اور برطانوی پارلیمان خاموش کیوں ہے؟ جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے رابطہ کار خرم پرویز کے مطابق 1989 سے اب تک کشمیر میں 7,000 جنسی تشدد کے واقعات ہوئے ہیں اور ان میں سے محض 100 کیس عدالت تک پہنچے۔ ادھر وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنازعات میں جنسی تشدد کا شکار ہونے والے پوشیدہ افراد کی بڑی تعداد کی موجودگی کو نہ صرف بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کی ضرورت ہے بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس گروپ کے افراد ہی زیادہ نظرانداز اور خطرے سے دوچار ہیں اور پوشیدہ متاثرین سماجی اور ثقافتی طور پر بھی مسائل کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ تنازعات میں جنسی تشدد کا شکار ہونے والوں کے بارے میں اعدادوشمار جمع کرنے اور ان کی شناخت کا موجودہ مکینیزم کافی نہیں بلکہ جدید طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
لندن کانفرنس/ احتجاج