اکرم چوہدری
قیام پاکستان کے وقت سے ہی ہاکی کو قومی کھیل کا درجہ حاصل ہے۔ قومی ٹیم کی شاندار کارگردگی کی وجہ سے ایک عرصہ تک ہاکی کا کھیل پاکستان کی شناخت بنا رہا۔لیکن جدید تقاضوں کی دوڑ میں حریف ممالک وسائل کی وجہ سے آگے نکل گئے اور آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہاکی کے میدانوں پر برس ہا برس حکمرانی کرنے والی پاکستانی ٹیم اس بار ورلڈ کپ کے مقابلوں سے باہر بیٹھی ہے۔ ساری ذمہ داری مالی وسائل کی عدم دستیابی پر نہیں ڈالی جا سکتی ،عالمی کپ میں کوالیفائی نہ کرنے پر ہاکی انتظامیہ کی نااہلی کا احتساب بھی ضروری ہے۔ ہاکی کے زوال کی بنیادی وجہ اس کھیل کا حکومتی سرپرستی سے محروم ہونا ہے گوکہ وزیراعظم ہاکی کے پیٹرن انچیف ہیںلیکن کرکٹ کے مقابلے میں اس کھیل کے ساتھ سوتیلا پن برتا جا رہا ہے، عملی طور پر مانگ تانگ کر ہاکی کو چلایا جا رہا ہے۔ پی ایچ ایف کے سابق صدر قاسم ضیاءگذشتہ دور میں پیپلز پارٹی سے وابستگی کی بناءپر ذاتی کوششوں سے ہاکی کیلئے جیسے تیسے حکومتی گرانٹ حاصل کرتے رہے،اب اختر رسول مسلم لیگ نون سیاسی تعلق کا فائدہ اٹھانے کے لئے کوشاں ہیں ۔ بظاہر ہاکی سستا کھیل دکھائی دیتا ہے لیکن اس کی کٹ اور دیگر سامان خاصا مہنگا ہے جبکہ کھلاڑیوں کو سٹیمنا برقرار رکھنے کے لئے مخصوص خوراک بھی درکار ہوتی ہے اور ایسے اخراجات بیشتر نوجوانوںکے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لئے جو تھوڑے بہت مختصر یہ کہ وسائل کی عدم دستیابی اور پیسہ نہ ملنے سے ہاکی بیٹھ گئی ہے۔ ماضی میں سکول اور کالجز کی سطح پرقائم ٹیموں سے ہاکی کا ٹیلنٹ آتا تھا، مگر اب چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں سکول قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی جہاں کھیل اور گراﺅنڈ کا کوئی تصور نہیں،گھٹن کے اس ماحول میں بچوں کی درست نشوونما نہیں ہو پارہی تعلیمی ادارے سال میں ایک دن مصنوعی قسم کا سپورٹس ڈے منعقد کرکے سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض سے عہدہ برا ہوگئے ہیں، محکمہ تعلیم کے بے حس حکام نے نہ صرف کھیلوں کو تباہ کر دیا بلکہ بچوں سے ان کا بچپن بھی چھین لیا۔سکول اور کالجز کی سطح پرٹیمیںبنانے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا رہی جبکہ سپورٹس کی بنیاد پر تعلیمی اداروں میں داخلوں کا سلسلہ بھی بتدریج ختم کیا جا رہا ہے۔ ہاکی فیڈریشن کا حکومت سے دیرینہ مطالبہ ہے کہ وہ ملک کے اہم اداروں کو ہاکی ٹیمیں بنانے اور کھلاڑیوں کو ملازمتیں دینے کا پابند کرے لیکن ماضی کی حکومتیں اس پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہیں ۔ اس وقت پی آئی اے، نیشنل بنک، واپڈا، پاک آرمی، ائیرفورس، نیوی، کسٹمز، سوئی سدرن، پاکستان پولیس، اسٹیل ملز،پورٹ قاسم، پاکستان سپورٹس بورڈ ،پی ٹی وی اور ریلوے کی ٹیمیں ہیں لیکن ان ٹیموں کے ایک چوتھائی سے زیادہ کھلاڑیوں کو مستقل نوکریاں میسر نہیں، بیشتر کنٹریکٹ پر ہیں۔ یورپی ٹیموں نے ہاکی کا کھیل آسٹروٹرف پر منتقل ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ایشین ٹیموں پر برتری حاصل کر لی۔ایشیائی ملکوں میں ہاکی کے زوال کا ایک بڑا سبب عالمی مقابلوں کی آسٹروٹرف پر منتقلی ہے ۔جن یورپی ٹیموں نے اس کھیل میں برتری حاصل کی، ان میں سے جرمنی ، ہالینڈ اور آسٹریلیا کے پاس سینکڑوں آسٹرو ٹرف گراﺅنڈ ہےں۔ پاکستان میں صرف 12مقامات ایسے ہیں جہاں آسٹروٹرف پر کھیل ہو سکتا ہے جبکہ بعض مقامات پر آسٹروٹرف خراب ہو چکی ہے جبکہ کچھ شہروں میں یہ بچھائی جا رہی ہے ایشیاءمیں بھارت سے ہی موازنہ کیا جائے تو پاکستان کے 12میدانوں کے مقابلے میں صرف بھارتی پنجاب میں 20آسٹروٹرف گراﺅنڈ ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ہاکی کا شوق ماند پڑنے اور کلب ہاکی کے رجحان میں کمی سے ہاکی کا سرکٹ محدود ہو گیااور نئے ٹیلنٹ کی تلاش ایک چیلنج بن گیا ماضی میں گوجرہ، فیصل آباد ، پیرمحل، سرگودھا ،وہاڑی، سیالکوٹ شیخوپورہ، بہاولپور،ایبٹ آباد،لاہور اور کراچی سے ہاکی کے بڑے بڑے سٹار سامنے آئے لاہور میں کسی حد تک کلب ہاکی کا وجود بھی برقرار ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں ہاکی عملی طور پر کراچی اور کوئٹہ تک محدود ہے۔ فاٹا میں عمدہ ٹیلنٹ موجود ہے لیکن وہاں آسٹروٹرف نہیںہے۔ گلگت بلتستان کے نوجوانوں میں ٹیلنٹ بھی ہے اور ہاکی کھیلنے کا شوق بھی پایا جاتا ہے۔ ماضی میںگراس روٹ لیول پر مقبول ہاکی کا کھیل آج سمٹ کر چند بڑے شہروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ کرکٹ کے مقابلے میں میڈیا ہاکی کو مناسب کوریج نہیں دیتا، میڈیا نے کرکٹرز کو ہیرو بنا دیا اور ہاکی کے کھلاڑیوں کو زیرو کر دیا، کرکٹ میچزکی طرح ہاکی کے مقابلوں کی براہ راست کوریج نہیں کی جاتی، ہاکی کے لئے نشریاتی حقوق کے حصول کی کوشش تو دور کی بات الٹا الیکٹرانک میڈیا ہاکی میچ دکھانے کے عوض معاوضہ طلب کرتا ہے، سرکاری میڈیا بھی اس حوالے سے تعاون پر آمادہ نہیں۔کرکٹ نے تو ہاکی کو ڈبویا ہی ہے میڈیا نے بھی اسے پس منظر میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کھیل ملکوں کی شناخت کا ذریعہ بنتے ہیں، دنیا کے بہت سے ملکوں میں پاکستان بھی کھیل کے میدانوں میں کامیابیوں کی بدولت ہی جانا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں کھیلوں کو اس حد تک غیرضروری سمجھا جاتا ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں کھیلوں کا تذکرہ تک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں ، کھیل نئی نسل کی تعمیر میں نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں مگر یہ کسی سیاسی جماعت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔
قومی کھیل کی بحالی کا فارمولہ!
Jun 14, 2014