اولمپیئن خواجہ ذکاءالدین(سابق کوچ پاکستان ہاکی ٹیم )
میرے لئے بہت دکھ کی بات ہے کہ ہالینڈ میں ہونیوالے عالمی کپ ہاکی ٹورنامنٹ میں قومی ٹیم ایونٹ کا حصہ نہیں ہے۔ ہم نے چار مرتبہ عالمی کپ جیتا اولمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کئے۔ ایشیا کی سطح پر اعزازات حاصل کئے۔ غرضیکہ دنیائے ہاکی کے تمام اعزازات جیتے لیکن آج یہ صورتحال ہے کہ ہم عالمی کپ سے باہر ہیں اور ٹی وی پر دیگر ٹیموں کو دیکھ رہے ہیں۔ کیا یہ آنکھیں کھولنے اور دماغ درست کرنے کے لئے کافی نہیں؟ میں 1960ءمیں روم اولمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کرنیوالی ٹیم کا حصہ تھا پھر 1984ءلاس اینجلس اولمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کرنیوالی ٹیم کا کوچ اور پھر 1994ءمیں چیمپئنز ٹرافی جیتنے والی ٹیم کی کوچنگ کے فرائض بھی ادا کئے۔ ساری زندگی ہاکی کے میدانوں میں گزارنے کے بعد آج جب میں گیند کے ساتھ بھاگ نہیں سکتا صرف ٹی وی پر میچ دیکھ کر اپنا شوق پورا کرتا ہوں میری بھاگنے کی عمر نہیں رہی لیکن سوچنے کی صلاحیت باقی ہے اور ہر میچ اسی جذبے کے ساتھ دیکھتا ہوں کہ ضرور کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ مجھے آج بھی آسٹریلیا کو کھیلتے دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ چارلس ورتھ نے آسٹریلیا کو بہت کچھ دیا ہے، کئی عالمی اعزازت جتوائے ہیں۔ وہ آج بھی آسٹریلیا کی خدمت کر رہا ہے۔ آسٹریلوی کھلاڑیوں کی گیند کے ساتھ اور اس کے بغیر دوڑ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس ٹورنا منٹ میں بھی آسڑیلیا کی ٹیم بہت اچھے ردھم میں نظر آرہی ہے جرمنی ایشیاءروایتی کھیل پیش نہیں کر سکا ان کا آغاز بھی اچھانہ تھا۔ مجھے ہالینڈ کو دیکھ کر ہمیشہ بہت خوشی ہوتی ہے۔ میں ان کے کھیل کو بہت انجوائے کرتا ہوں۔ ان کے کھیلنے کا انداز ہم سے ملتا جلتا ہے۔ ان کے فارورڈز بھرپور حملے کرتے ہیں۔ ارجنٹائن نے غیر معمولی کھیل کا مظاہرہ کیا، آغاز میں جرمنی کے خلاف انہوں نے بہترین دفاعی منصوبہ بندی کے ساتھ کھیلا۔ جرمنی کے خلاف انہوں نے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔ ہمارے شہناز شیخ کو بھی تمام میچوں کو قریب سے دیکھنا چاہئے۔ پاکستان کی ٹیم کے ہیڈ کوچ کے لئے اس عالمی کپ میں سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ ہر میچ مختلف حکمت عملی اور تبدیلیوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ شہناز شیخ چار پانچ سال تک تنقید کرتا رہا ہے۔ وہ بہت کچھ کرنا بھی چاہتا ہے۔ اب اسے موقع ملا ہے تو اسے اپنی کارکردگی سے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ قومی ٹیم کی کوچنگ کا اہل ہے اور ملکی ہاکی کے لئے کچھ کر سکتا ہے۔ اسے صرف ایک چیز بچا سکتی ہے اور وہ ہے بہترین کارکردگی، شہناز کو چاہئے کہ وہ زبان بند دماغ اور آنکھیں کھلی رکھے۔ بھارت کے پاس رولینٹ آلٹمینز ہے جو ایک کامیاب، باصلاحیت اور قابل انسان ہے۔ اس نے عالمی سطح پر بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں تاہم ٹیری مورس ایک ناکام کوچ ہے۔ وہ امریکہ ملائشیا سمیت کئی ممالک میں کام کرچکا ہے لیکن وہ ایک فتح گر کوچ نہیں ہے لیکن پھر بھی بھارت نے اس کی خدمات حاصل کی ہیں اس انتخاب پر مجھے بڑی حیرت ہے۔ دلچسب بات یہ ہے کہ بھارت نے بہت پیسہ خرچ کیا ہے ایک عالمی ہاکی لیگ بھی کر وا دی بھارتی کھلاڑی بھاگ دوڑ تو کرتے نظر آرہے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔
اب اپنی اندرونی حالت کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ میری خواہش ہے کہ تمام عظیم کھلاڑی مل کر قومی کھیل کی ترقی کے لئے کام کریں۔ مفاہمت خوش آئند ہے، ضروری ہے، مشاورت بھی ہونی چاہئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جرات انکار سب سے اہم اور ضروری ہے۔ سب کو ساتھ لیکر چلنا اہم ہے لیکن قافلے میں شامل تمام افراد کی سب باتیں ماننا لازم نہیں۔ فیصلہ سازی میں شخصیت کو دیکھ کر فیصلہ کرنے کے بجائے قومی ہاکی کے مفاد کو مد نظر رکھا جائے۔ تباہ حال قومی کھیل کو دوبارہ عروج پر لے جانے کے لئے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی آنکھیں کھولنی چاہئیں۔ سو فیصد کام اور سخت محنت کریں۔ اپنی نالائقی کو دعاﺅں سے چھپانے کی بجائے عملی اقدامات کریں۔ بیان بازی کم کریں اور اچھے کاموں کے لئے دماغ کا زیادہ استعمال کریں۔ ہم غیر معمولی حالات سے گزر رہے ہیں تو اقدامات بھی غیر معمولی ہونے چاہئیں۔ ہاکی سے جڑے تمام افراد کو یہ جان لینا چاہئےے کہ ان کی عزت مرتبہ اور وقار قومی کھیل سے ہے۔ ہاکی کے وقار کو اپنی عزت سمجھ کر کام کریں۔ رونا دھونا چھوڑیں۔ اپنے آپ کو ٹھیک کریں اور یہ جان لیں کہ ہمیں ٹھیک کرنے کے لئے آسمانوں سے کوئی نہیں آئے گا جہاں نئے وسائل پیدا کرنا ضروری ہیں وہیں موجود وسائل کا درست استعمال اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ آج ہالینڈ میں ہونے والے عالمی کپ میں پاکستان شامل نہیں اگر ہم نے آئندہ عالمی کپ کھیلنا ہے تو پھر ہمیں اچھی اور مثبت سوچ کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔ اختر رسول اور اس کی ٹیم کو انتظامی معاملات میں آج زیادہ محنت، ایمانداری اور توجہ کی ضرورت ہے۔ کاش یہ اس سپرٹ کے ساتھ انتظامی معاملات کو چلائیں جس سپرٹ کے ساتھ یہ گراﺅنڈ میں ہاکی کھیلا کرتے تھے۔
ہاکی کو مفاہمت نہیں جرات انکار کی بھی ضرورت
Jun 14, 2014