انسانیت کو ذلیل و رسوا کرنے، اسلام پاکستان کو بدنام کرنے کے مناظردرندہ نما بھیڑیا صفت مردوں نے کمزور لڑکیوں کو غیرت کے نام پر قتل کرنے سے دکھانے کا سلسلہ جاری کررکھا ہے جو وزیراعلیٰ، جسٹس صاحبان، اراکین اسمبلی وسینٹ ، میڈیا کے ایگزیکٹوز کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کمزور خواتین پر بے پناہ تشدد، برے طریقے سے آگ میں جلانا یا وحشیانہ قتل کے مختلف طریقے انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہیں۔ دو ماہ کے عرصہ کے دوران مانسہرہ، ایبٹ آباد میں لڑکی سے ظالمانہ سلوک، مری میں ٹیچر لڑکی ماریہ کا زندہ جلایا جانا، کچھ دنوں بعد لاہور میں زینت نامی لڑکی کو پسند کی شادی پر ماں باپ وغیرہ نے زندہ جلاڈالا۔ مختلف شہروں اور اضلاع میں خواتین پر خنجروں کے وار، تیزاب سے چہرے جلانے، گولی سے مارنے، کتے چھوڑنے، تیز دھار آلات سے ناک، زبان، کان کاٹنے کے واقعات 2014سے 2016 کے درمیان ہوتے رہے ہیں لیکن زیادہ ترواقعات میں خصوصی سماعت یا دہشتگردی کی عدالت کے فیصلے اور سزاؤں پر عمل درآمد میں تاخیر، حکومت اور وزرائے اعلیٰ اور کیلئے باعث شرمندگی ہونا چاہیے۔ حکومت حکمران اور میڈیا کے سینئر ایگزیکٹوز خواتین پر مظالم روکنے میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں۔ معاشرہ، سماج، ذہن سازی کے ادارے، تشدد کے طریقے پچاس چینلوں کے ڈراموں میں کئی سال سے دکھانے والے چینل سینئر افسران ان انسانیت دشمن ڈراموں میں مادر پدر آزادی، عشق کی بیماریوں کو آزادی اور فحاشی سے دکھانے والے میڈیا پالیسی ساز بھی گھر سے بھاگنے والی لڑکیوں، عشق سیاپا، عشق کی جیت، ماں باپ سے بغاوت پر ابھارنا، خواتین کی آزادی (بے حیا نام نہاد) اور حقوق کے نام پر مغربی کلچر کا نظریاتی بنیادوں کو تباہ کرنے کا غیر ملکی ایجنڈا اسے دس سال سے ڈرامہ، تھیٹر، سی ڈی کلچر، کالجوں کے ڈراموں، نمائشوں، پارٹی میں فروغ دے کر معصوم 16سال سے 20 سال کی لڑکیوں کو پیار اور عشق کے جنون کی نذرکرنے اور 15سے 22 سال کے ناپختہ ذہن لڑکوں کو تباہ کن اقدام… لڑکی سے عدالت میں شادی، بھگا لے جانے تک کے سنگین غلط فیصلے کروانا… یہ تمام سیاہ کرتوت میڈیا کے پروگراموں سے ہو رہے ہیں۔ اس لئے میڈیا کا ایک حصہ ایک سے ایک بڑھ کر اسلامی و پاکستانی روایات ثقافت کو تباہ کرکے معصوم لڑکیوں کو ’’عشق کی شادی‘‘ کے بچگانہ فیصلوں تک لے جانے کا ذمہ دار ہے۔ انڈیا کی فلموں اور والدین کی خود بیٹیوں کے ساتھ ایسی عشقیہ فلموں کو انجوائے کرنا اور بیٹیوں کو آزادی دینا بھی خون خرابے تک لے جانے کی وجہ ہے۔ والدین کی اپنی سوچ اور عمل بھی ماڈرن ازم روک ٹوک سے آزادی والا ہوگا۔ تو نتیجہ بھی زہرکھانا، گھر سے بھاگنا، والدین کا کالے کرتوتوں سے منہ کالا کروانا… اپنا بھی…! پھر غیرت کے نام پر قتل تک کی نوبت یہ سب برے کام، برے نتیجے سامنے آنا، والدین، تربیت، میڈیا کے جنسی ہیجان انگیز پروگراموں، عدالتی و انتظامی عدم انصاف قوانین کے عدم نفاذ غیرت کے نام پر قتل کرنے والے اہل خانہ کو قانون میں معاف، رقم وصولی، خاندان مکمل تباہ ہونے سے بچانے، سیاسی طاقتور گروپوں کے دباؤ سے غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات کا سزاؤں تک نہ جانا ریاست کا غیرت کے نام پر قتل کے قوانین میں سقم دور نہ کرنا اور خود ریاست کا تعزیر کے قوانین سخت نہ کرنا، مقدمات کی ریاست کی طرف سے پیروی نہ کرنا، فوری انصاف کی عدالتوں کے عدم قیام، پہلے پرانے مقدمات میں سخت سزاؤں کا نافذ نہ کیا جانا، خواتین پر لگاتار ظلم و ستم کی وجوہات ہیں۔ قانون میں ہر صورت ترمیم کی جانی چاہیے اور یہ قرآن اللہ رسول کا فیصلہ ہے… مجرم کو سزا ہر صورت عوام کے بڑے طبقے کے سامنے دی جائے، گردن اڑانا، پھانسی لٹکانا، کوڑے مارنا، کم ازکم بچوں سے زیادتی، قتل اسی طرح خواتین لڑکیوں کی اجتماعی گینگ ریپ اور قتل کی سزائیں اور زندہ جلانے، ناک، کان، ہاتھ کاٹنے، تیزاب پھینکنے اعضائ کاٹنے کی سزاؤں اور عوام کے بڑے طبقے کے سامنے سزائیں دینے کے قانون میں ترامیم حکمران اسمبلیاں سینٹ فوری کرنے کے اقدامات اٹھالیں اگر حکمران اورپارلیمنٹ اپنے اختیار و اقتدار کو ایسے سنگین جرائم میں بھی فوری استعمال نہیں کر پاتے یا غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں تو یہ یاد رکھنا چاہیے ان سارے بڑوں کو اللہ کی عدالت میں اپنا اپنا حساب آخر دینا ہے اور اسکی پکڑ یہاں بھی آ سکتی ہے!!!