کالا باغ ڈیم کی تعمیر غیر ضروری ہے کیونکہ ڈیم میں ذخیرہ کرنے کیلئے اضافی پانی دستیاب نہیں۔
اِس دلیل کو ہمارے بعض مصنف اور کالم نویس بڑے زور وشور کے ساتھ پیش کرتے ہیںجو آبی مسائل کے حوالے سے مسلمہ اصول کی نفی کرتی ہے ۔ وہ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ صوبوں کو 1991ءکے پانی کی تقسیم کے معاہدے کے مطابق بھی پانی نہیں مل رہا ، لہٰذا ایسی صورت میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر وسائل کا ضیاع ہوگی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر پانی کی دستیابی اور اسے ذخیرہ کرنے کے بارے میں عالمی صورتحال کو محل ِ نظر رکھا جائے تو حقائق اس سے مختلف ہیں۔دُنیا کے تمام بڑے دریاﺅں پر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے ۔اور اِن دریاﺅں پر ڈیم تعمیر کرنے کا فیصلہ درج ذیل عوامل پر منحصر ہوتا ہے :
(الف) دریا میں پانی کے زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم بہاﺅ کا طریق:
ہر دریا میں پانی کے بہاﺅ میں اتار چڑھاﺅکا مخصوص چلن ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ دریاﺅں میں بہہ کر آنیوالے پانی کی مقدار ہماری ضرورت کے اوقات سے مطابقت رکھتی ہو ۔ مثال کے طور پر پاکستان کے سب سے بڑے دریا سندھ میں پانی کا زیادہ بہاﺅ سال کے صرف چار مہینوں میںہوتا ہے ۔ ذیل میں دیئے گئے گراف سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سال کے دوران مختلف موسموں میں پانی کا بہاﺅ کس تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے۔
ڈیموں کی تعمیر کیلئے سرمایہ کاری ایک اقتصادی فیصلہ ہے اور اس کا براہ راست تعلق درج ذیل دو امور سے ہے :
1۔جن دنوں دریا میں پانی کا بہاﺅ کم ہوتا ہے ، اُن دنوں کتنے پانی کی ضرورت ہے؟2۔متوقع سیلاب سے بچاﺅ کی صورت میں حاصل ہونے والے فوائدکتنے ہیں؟3۔آبی ذخیرہ تعمیر کرنے کی جگہ کی موزونیّت او رپن بجلی پیدا کرنے کا اضافی فائدہ :
کالا باغ ڈیم منصوبے پر مباحثہ میں ایک اہم نقطہ پانی کی دستیابی اور اُسے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے باہمی تعلّق کے بارے میں ہے ۔ بظاہر دونوں چیزوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلّق درست دکھائی دیتا ہے ، لیکن اس باہمی تعلّق کو اپنی مرضی کا نتیجہ اخذ کرنے کیلئے جس طرح پیش کیا جاتا ہے ، وہ واٹر مینجمنٹ کے شعبہ کے بارے میں آگاہی رکھنے والے کسی بھی شخص کیلئے حیرت کا باعث ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے ۔ دُنیا بھر میں دریاﺅں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اوسطاً پانی کے سالانہ بہاﺅ کا 40فیصد ہے ۔ ذیل میں دیئے گئے چارٹ کے ذریعے پاکستان سمیت دُنیا بھر میں بڑے دریاﺅں پر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت واضح کی گئی ہے ، تاکہ قارئین از خود صورتحال کا موازنہ کرسکیں۔چند بڑے دریائی طاس میں پانی کا اوسط سالانہ بہاﺅ اور پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت:
پانی کے مسائل کا ادراک رکھنے والا ہر ذی فہم شخص اِس بات کو جانتا ہے کہ پاکستان میںایسے مقامات ، جہاں پانی ذخیرہ کیا جاسکے ، چند ایک ہی ہیں ۔ پانی کے وسائل کے بارے میں اے این جی عباسی کی سربراہی میں قائم ٹیکنیکل کمیٹی نے 2005ءمیں اپنی رپورٹ جاری کی۔ یہ کمیٹی اُس وقت کی حکومت کی جانب سے نئے ڈیموں کی تعمیر کے بارے میں صوبوں کے درمیان اختلافات دور کرنے کیلئے بنائی گئی تھی ۔ رپورٹ کی جلد دوئم کے صفحہ نمبر 73پر وُہ بحیثیت چیئرمین نشاندہی کرتے ہیں کہ ”سکردو / کٹزرہ ڈیم میں تقریباً 35ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی بہت بڑی صلاحیت موجود ہے ۔ یہاں اضافی پانی کا ایک بڑا حصہ جمع کیا جاسکتا ہے اور ضرورت کے مطابق ڈیم سے خارج کرکے اس پانی کو استعمال میں لایا جاسکتا ہے .... علاوہ ازیں کالاباغ ، بھاشا اور اکھوڑی کے تینوں مجوزہ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی صلاحیت محض 18ملین ایکڑ فٹ ہے ،جو سکردو/ کٹزرہ جیسے کیری اوور(Carry Over)ڈیم کی صلاحیت کا نصف ہے ۔ بظاہر اِ س طرح کے کئی نسبتاً چھوٹے ڈیم ایک ایسے بڑے کیری اوور ڈیم کا متبادل نہیں ہوسکتے ، جس کی ہمیں ضرورت ہے۔“ محترمہ زبیدہ مصطفی نے 4جنوری 2006ءکو جب اس موضوع پر روزنامہ ڈان میں کالم تحریر کیا ، تو اس بات کا ادراک نہ کرسکیں کہ جناب اے این جی عباسی ،جن سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ کالاباغ ڈیم تعمیر کرنے کی مخالفت کرینگے ،کیوں اپنی رپورٹ میں ایسا نہ کر پائے۔ اِ س بات پر اپنے کالم میں اُنہوں نے اِن الفاظ میں تبصرہ کیا ”یہ بات حیران کُن ہے کہ چیئرمین نے واشگاف الفاظ میں یہ تجویز نہیں کیا کہ کالاباغ ڈیم منصوبہ ترک کردیاجائے۔“
ہمارے ملک میں بہت سے قابل احترام لوگ سمجھتے ہیں کہ دریا کے آزادانہ بہاﺅ کو تبدیل کرنے کیلئے کوئی بھی انسانی تعمیر قانون ِ فطرت کیخلاف ہے ۔ ایسے لوگوں کیلئے ڈیم ناپسندیدہ تعمیرات ہیں۔پانی کا بہاﺅ متاثر ہونے کے بارے میں دریا کے زیریں علاقوں میں رہنے والے لوگوں کولاحق خدشہ دراصل خوف پر مبنی ہے اور یہی خوف آبی ذخائر تعمیر کرنے کی ضرورت سے متعلق اُنکے خیالات میں تضاد پیدا کرتا ہے۔
صدر ایوب خان کی وصیت کے مطابق اُنکے انتقال کے 33سال بعد آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی جانب سے شائع ہونے والی اُن کی ڈائری کے مطالعہ کے دوران مجھے ایک حیران کن بات کا علم ہُوا ۔ 9نومبر 1969ءکو ایوب خان اِپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ ”چیئرمین واپڈا آفتاب قاضی نے مجھے ایک نہایت دلچسپ بات سنائی۔ تربیلا مکمل ہونے کے بعد دریائے سندھ میں ذخیرہ کرنے کے لئے 22ملین ایکڑ فٹ پانی رہ جائے گا۔ وُہ تھل کے صحرامیں پانی جمع کرنے کے ایک ایسے مقام کے بارے میں صلاح مشورہ کرچکے ہیں جو اس تمام پانی کو ذخیرہ کرسکتا ہے۔ اِس منصوبے کے لئے ڈیم اور حفاظتی بندوں کی تعمیر پر اُتنی ہی لاگت آئے گی جتنی تربیلا ڈیم پر آئی ہے ۔چونکہ یہ ڈیم خشک زمین پر قائم کیا جائے گا ، لہٰذا اس کی تعمیر کے لئے کچھ دیر توقّف کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے بعد دریائے سندھ پر جو منصوبے تعمیر کئے جاسکتے ہیں وہ تربیلا ڈیم کے بالائی علاقوں میں پن بجلی پیدا کرنے کے کئی ایک منصوبے ہیں۔“ جناب آفتاب قاضی ، اے جی این قاضی کے نام سے معروف ہیں اور اُن کا تعلق سندھ سے تھا ۔ اُن کی شہرت بہت اچھی تھی اور انہوں نے 1966ءسے 1969ءتک تین سال سے کچھ زیادہ عرصہ چیئرمین واپڈا کے طور پرخدمات سرانجام دیں ۔ انہوں نے ایوب خان کو یہ منصوبہ اس و قت پیش کیا جب منگلا پر 8.78ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم مکمل کیا جاچکا تھا اور تربیلا کے مقام پر 11.6ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحےت کے حامل ڈیم کی تعمیر شروع ہونے والی تھی۔پانی کی دستیابی کی بحث 1980ءکے عشرے میں شروع ہوئی ۔ اس بحث کا بنیادی ماخذ پانی کی تقسیم کے معاہدے کی عدم موجودگی میں مجوزہ کالاباغ ڈیم سے نکالی جانے والی نہروں کا خوف تھا ۔ بعد ازاں 1990ءکے عشرے اور اس کے بعد کے دنوں میں یہ بات ایک سیاسی مہم کے طور پر جاری رہی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ 1975ءمیں پاکستان میں قابل استعمال پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی صلاحیت 18.646ملین ایکڑ فٹ تھی۔ اب منگلا ڈیم ریزنگ کے باوجود پانی ذخیرہ کرنے کی یہ صلاحیت کم ہو کر محض 14.023ملین ایکڑ فٹ ہے ۔۔
ایسے قارئین جو اِ س موضوع کے بارے میں پڑھتے رہتے ہیں ،وُہ اس حوالے سے ابھی تک ابہام محسوس کرسکتے ہیں، کیونکہ عباسی رپورٹ میں پانی کی دستیابی واپڈا ، جناب عباسی صاحب ، ٹیکنیکل کمیٹی کے سات ارکان اور صوبہ سندھ کے نمائندہ نے اپنے طور پر الگ الگ شمار کی ہے۔ پانی کے بہاﺅ کا تخمینہ لگانے کےلئے اس قدر اختلافات ہمارے اُس غیر معقول رُجحان کا مظہر ہے، جسکے تحت ہم ہر اُس سائنسی اور تکنیکی معاملے کو مسخ کرنے کے درپے ہوتے ہیں جو ہمارے دلائل سے موافقت نہ رکھتا ہو۔ پانی کی دستیابی کے بارے میں لگائے گئے اندازوں میں حقیقی طور پر شاید ہی کوئی فرق ہو۔