مریم نوازحکومت اورخودمختاری

Jun 14, 2016

منیر احمد خان

گزشتہ دوکالموں میں امریکہ اورپاکستان کے تعلقات پر اپنی گزارشات لکھ چکا ہوں۔ ایف16 طیاروں کا قصہ تو ختم ہو چکا لیکن نوشکی ڈرون حملہ پر بڑے پیمانے پر احتجاج جاری ہے۔ میاں نوازشریف کی حکومت نے اس پرزوردار احتجاج نہیں کیا تھاجس پر عسکری حلقوں میںبے حد تشویش پائی جاتی تھی۔ پارلیمنٹ نے بھی اس پر موثر آواز بلند نہیں کی۔ قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کے ساتھ ساتھ خاتون رکن کی تذلیل ہو رہی ہے۔ آرمی چیف نے وزیرخزانہ، وزیر دفاع، مشیرخارجہ اور سیکریٹری خارجہ کو GHQ طلب کرکے احساس دلایاکہ ملکی سلامتی اور خود مختاری پر آواز اٹھانا حکومت کی ذمہ داری ہے جس پر9 جون 2016ءکو سرتاج عزیزنے زوردار پریس کانفرنس کی اورکہا کہ امریکہ مطلب پرست دوست ہے۔ 15سال میں افغانستان کو پرامن نہ کر سکا ہم سے توقع لگائی جارہی ہے جبکہ پاکستان کی سکیورٹی کو اہمیت نہیں دیتا۔ ضرورت پڑنے پر ہمارے پاس آ جاتا ہے کام نکل جائے تو پوچھتا تک نہیں۔ مطلب نہ ہو تو امریکہ کا رویہ بدل جاتاہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتمادکا فقدان ہو چکا ہے۔ دوسری طرف ایوانوں کے اندر اور باہر ایک ہی شور ہے کہ تبدیلی آرہی ہے یا نہیں۔ سسٹم جا رہا ہے یا نہیں۔کوئی جولائی کی تاریخ دے رہا ہے توکوئی حکومت کی مدت پوری کرنے کی بات کر رہا ہے۔ چیئرمین سینٹ نے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ میاں رضا ربانی جمہوری شخص ہیں۔ آئین اور قانون کی حکمرانی کیلئے ہمیشہ جدوجہدکی ہے پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب پر بیٹھے ہوئے ہیں انکے پاس عام آدمی سے زیادہ انفارمیشن ہوگی اس لئے انکی بات کونظرانداز نہیں کیا جا سکتا جبکہ حکومت کا حال یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو بے وقعت کرنے پرتلی ہوئی ہے انکے اوپننگ کھلاڑی گندی زبان استعمال کرنے کے ماہر ہیں۔ میاں نواز شریف اوپن ہارٹ سرجری کی وجہ سے لندن میں ہیں۔ انکی عدم موجودگی میں حکومتی معاملات محترمہ مریم نواز شریف چلا رہی ہیں۔ اس طرح عملی طور پر اس وقت پاکستان میں عورت کی حکمرانی ہے۔ اہم اجلاسوں کی صدارت کر رہی ہیں اورآئے روز غیر ملکی سفیران سے ملاقاتیں کر رہی ہیں۔ مریم نواز عرصہ تین سال سے حکومتی معاملات میں شریک ہیں۔ وزیراعظم ہاﺅس میں قائم میڈیا سیل کو چلا رہی ہیں۔ انکی صلاحیتوں کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی اس لئے بھی کہ امریکن خاتون اول نے واشنگٹن بلاکر اعتراف کیا تھا اور انکے اعزازمیں تقریب منعقدکی تھی۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ ہو یا کرپشن کا جن، ایران، افغانستان اور بھارت کا تنازعہ ہو یا امریکہ کو اس کی زیادتیوں پر احساس دلانا تو جنرل راحیل شریف ہی پاکستان کی واحد شخصیت ہیں جو پاکستان کے موقف کی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں۔ دراصل حکومتی شخصیات کو احساس ہے کہ جنرل راحیل شریف ایک پاپولر شخص ہیں۔ دوسری طرف حکومتی کارکردگی کو اچھا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خواجہ آصف سابق حکومت کے دور میں لوڈشیڈنگ کےخلاف اور پاور پلانٹس کے معاملہ پر سپریم کورٹ بھی گئے تھے۔آج حالت یہ ہے کہ تین سال گزرنے کے باوجود لوڈشیدنگ ختم نہیں ہو سکی تو پھر بتایا جائے کہ اسمبلیوں میں کیا ہو رہا ہے؟ اسمبلیوں کوکون بے وقعت کر رہا ہے۔ ارکان اسمبلی اجلاسوں میںکیوں نہیں آتے۔ بجٹ اجلاس میںکورم پورا کیوں نہیں رہا۔ وزیر اپنی موجوں میں لگے ہوئے ہیں انکی غیرحاضری انتہائی مشکوک ہے۔ حکومت اور اپوزیشن نے مل کر پارلیمانی کمیٹی بنائی تاکہ پانامہ لیکس کی انکوائری کیلئے ٹرم آف ریفرنس بن سکیں لیکن پارلیمنٹ کے ارکان کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ مقررہ وقت گزرنے کے باوجود TORs پر اتفاق نہیں ہو سکا۔کس جمہوریت کی بات ہو رہی ہے اورکس کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اپنی کارکردگی کاکسی کو احساس نہیں۔ حکومت کے وزیر گالیاں دے رہے ہونگے تو پھرکون محفوظ رہ سکتا ہے۔
”مریم نواز حکومت“میں وفاقی وزیرکاخاتون رکن اسمبلی کو برے الفاظ سے مخاطب کرنا تو اور افسوسناک ہو جاتا ہے۔ محترمہ مریم نوازکو چاہئے کہ فوری طور پر خواجہ آصف کو نکال دیں اس سے پاکستان میں خواتین کی عزت میں اضافہ ہوگا۔ سپیکر قومی اسمبلی کی جانبداری کا اندازہ کر لیں کہ انہوں نے خواجہ آصف کا تحریری معافی نامہ تو پڑھ لیا لیکن وہ تحریک استحقاق نہیں پڑھی جو ڈاکٹر شیریں مزاری نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرائی تھی حالانکہ خواجہ آصف کے ریمارکس پر پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی۔ ان فضول مصروفیات میں قومی اسمبلی کس طرح قومی سلامتی کے امور پر غورکر سکتی ہے؟ بالآخر یہ فریضہ بھی آرمی چیف کو ادا کرنا پڑا۔ جنہوں نے ہنگامی طور پرآئے ہوئے امریکن وفدکوکھری کھری سنا دیں اورکہاکہ ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہیں۔ افغانستان میں عدم استحکام کا پاکستان پر الزام عائد کرنا افسوسناک ہے۔ جنرل راحیل شریف نے امریکی وفد سے دوٹوک الفاظ میں مطالبہ کیاکہ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان اور ملا فضل اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے۔ امریکیوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہو رہاکہ پاکستان نے ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کر دیا ہے۔ دہشت گردی اور خودکش حملے ایک عالمی مسئلہ ہے۔گزشتہ روز امریکہ کی ریاست فلوریڈاکے شہر اورلینڈو میں فائرنگ کے واقعہ میں جس طرح امریکی نژاد افغانی نے کلب میں جا کرگولیاں ماری ہیں انتہائی تکلیف دہ ہے 50 سے زائد لوگ مرے ہیں اور اتنے ہی ابھی تک زخمی ہیں۔ اس سانحہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔جنرل راحیل شریف نے زبردست stand لیا ہے ماضی میںکسی آرمی چیف نے امریکہ کے سامنے کبھی ڈٹ کر بات نہیں کی تھی۔ جنرل پرویز مشرف بڑے دلیرکہلواتے تھے لیکن ایک فون کال نے زمین پر ڈھیر کر دیا تھا اور امریکہ do moreکا ہی مطالبہ کرتا رہا۔ پاک افغان بارڈر پر فائرنگ بھی معمولی واقعہ نہیں۔ اس کا بھی قومی اسمبلی کو نوٹس لینا چاہئے۔ سنجیدہ بحث ہونی چاہئے۔ عورتوں کی تدلیل بند ہونی چاہئے۔ ٹرم آف ریفرنس کا فیصلہ ہونا چاہئے۔ مریم نوازکو شرما کر نہیں بلکہ ڈٹ کر حکومتی معاملات چلانے چاہئیں تاکہ قومی اسمبلی اور سینٹ قومی سلامتی کے معاملات کو زیادہ سنجیدگی سے لے سکے اور یہ تاثر ختم ہوکہ موجودہ اسمبلیاں اپنی افادیت کھو چکی ہیں اور یہ بحث بھی ختم ہوکہ حکومت یا سسٹم جولائی میں جا رہا ہے یا نہیں۔

مزیدخبریں