قومی اور انتخابی نشان ”شیر؟“

Jun 14, 2016

اثر چوہان

انگلستان کی ملکہ¿ الزبتھ دوم کی 90 ویں سالگرہ کے موقع پر ان کی طرف سے لندن میں علاجِ عارضہ¿ دِل کے بعد رُو بصحت وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے لئے شہزادہ چارلس کے ذریعہ خیر سگالی اور نیک خواہشات کا پیغام اور شاہی محل کے باغ کے شہد کا تحفہ بھجوانے کی خبر بادشاہوں کے بادشاہوں سے سلوک کی روایت کو آگے بڑھانے کا سِلسلہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انگلستان کے بادشاہ "Lion Heart" (شیر دِل) رچرڈ اوّل کی نسبت سے شیر کی شبیہہ برطانیہ کا قومی نشان ہے اور وزیراعظم نواز شریف کی مسلم لیگ ن کا انتخابی نشان بھی۔ رچرڈ اوّل (1157ءسے 1193ئ) کا صلیبی جنگوں میں مِصر اور شام کے سُلطان غازی صلاح اُلدّین سے ٹاکرا رہا ہے۔ یہ واقعہ بھی تاریخ کا حِصہ ہے (اور اِس پر انگریزی، اُردو اور ہندی میں کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں کہ (دورانِ جنگ بیمار دشمن رچرڈ شیر دِل کا علاج کرنے کے بہانے سلطان صلاح اُلدین ایوبی ڈاکٹر کا بھیس بدل کر اُس کے خیمے میں پہنچ گئے تھے۔
فلمی کہانی کے مطابق رچرڈ شیر دِل نے اپنے ڈاکٹر کو پہچان بھی لِیا تھا لیکن اُس نے ڈاکٹر کو بڑے احترام کے ساتھ واپس جانے دِیا۔ اُس دَور میں سُلطان صلاح اُلدّین ایوبی کی مملکت میں آف شور کمپنیوں کو کوئی نہیں جانتا تھا اور نہ ہی سُلطان صلاح اُلدّین ایوبی کے کسی بیٹے نے ٹیکس بچانے کے قانون سے فائدہ اُٹھانے کے لئے انگلستان میں اپنی کوئی آف شور کمپنی بنا رکھی تھی۔ سُلطان نے اپنی مملکت میں جدید ترین ہسپتال قائم رکھے تھے جہاں ہر مرض کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز تھے۔ اِس طرح مختلف سماجی رُتبوں کے مریضوں کا اپنے وطن میں ہی علاج کا بندوبست تھا۔ سُلطان صلاح اُلدّین ایوبی کی مملکت ہر قِسم کے پھلوں اور پھولوں کے باغات سے سجی تھی اور اُن میں اعلیٰ قِسم کا شہد بھی تیار ہوتا تھا۔
وزیراعظم نواز شریف ملکہ¿ برطانیہ کے شاہی باغ کا شہد استعمال کریں گے تو حسن نواز اورحسین نواز کی زبانی میڈیا کے ذریعے پاکستانی قوم کو پتہ چلے گا کہ اُس شہد سے ہمارے وزیراعظم کو کتنا فائدہ ہُوا؟ شہد کو اللہ تعالیٰ کی نعمت کہا جاتا ہے اور جنت اُلفردوس میں بہتی ہُوئی نہروں کے پانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دُودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ مِیٹھا ہو گا۔ شہد، پیغمبرِ انقلاب کی مرغوب غذا تھی۔ آپ نے شہد کو شفا بخش قرار دِیا ہے۔ کِیمیا گروں کا مقولہ ہے کہ ”شہد، سہاگہ، گھی، مری دھات کا جی!“ یعنی شہد، سہاگہ اور گھی کے استعمال سے مُردہ دھات بھی زندہ ہو جاتی ہے“۔ علاّمہ اقبال کا یہ مِصرع کہ....
”عروقِ مُردہ¿ خاکی میں، خونِ زندگی دوڑا“
کسی اور موضوع پر ہے۔ ملکہ الزبتھ دوم نہ صِرف برطانیہ بلکہ کینیڈا کی بھی (آئینی) ملکہ ہیں۔ ان دونوں ملکوں کی شہریت اختیار کرنے کے لئے ہر مرد/ عورت کو ملکہ¿ معظمہ سے وفاداری کا حلف اُٹھانا پڑتا ہے۔ لندن میں 22 سال سے مقیم ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین اور دُنیا کے 90 ملکوں میں کاروبارِ سیاست کرنے والے علاّمہ طاہر اُلقادری نے بھی باری باری برطانیہ اور کینیڈا کی شہریت اختیار کرنے کے لئے ملکہ الزبتھ دوم سے وفاداری کا حلف اُٹھایا تھا۔ دونوں قائدین میں بھائی چارا بعد میں قائم ہُوا لیکن ملکہ¿ معظمہ نے شہزادہ چارلس تو کیا بکنگھم پیلس کسی ہرکارے کے ذریعے بھی اُن کے لئے نیک خواہشات کا پیغام اور شاہی باغ کے شہد کا تُحفہ نہیں بھجوایا۔
ملکہ الزبتھ اوّل (1533ء1603ئ) کے دَور میں چند کتابوں کے مُصنف، شاعر، ادیب، اداکار اور ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر کو ”ملکہ اُلشعرا“ کی حیثیت حاصل تھی لیکن افسوس کہ ملکہ الزبتھ دوم نے مختلف موضوعات پر 550 کتابوں کے مصنف/ مو¿لف علاّمہ طاہر اُلقادری کو "Order Of The British Empire" (او بی ای) کے اعزاز کے قابل بھی نہیں سمجھا۔
برطانیہ میں نظریہ¿ پاکستان فورم کے صدر گلاسگو کے ملک غلام ربانی المعروف ”بابائے امن“ کو ملکہ¿ معظمہ نے کئی سال ہُوئے (برطانیہ میں بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے پر) ”او بی ای“ کے اعزاز سے نوازا تھا۔ مَیں نے اُن سے پوچھا کہ ”اے بابائے امن! کیا ملکہ¿ معظمہ نے کبھی آپ کو شاہی باغ سے شہد نہیں بھجوایا؟ تو اُنہوں نے کہا کہ ”مَیں ہمیشہ پاکستانی شہد استعمال کرتا ہُوں۔ ضلع تلہ گنگ میں میرے آبائی گاﺅں موضع ڈُھلّی کے باغ میں بہت ہی عمدہ شہد تیار کِیا جاتا ہے۔ اِس بار پاکستان آیا تو وزیراعظم نواز شریف اور آپ کو بھی بھجواﺅں گا“۔ ”بابائے امن“ کے والدِ مرحوم ملک حاکم خان تحریکِ پاکستان کے گولڈ میڈلسٹ کارکُن تھے۔ برادرانِ عزیز "The Nation" کے ایڈیٹر سیّد سلیم بخاری کے والد صاحب سیّد مختار حسین بخاری اور ”نوائے وقت“ کے ڈپٹی ایڈیٹر سعید آسی کے والد صاحب میاں محمد اکرم اور میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان بھی گولڈ میڈلِسٹ تھے۔ اِس لئے ہم تینوں دوستوں کو بھی "Offshore Honey" کی ضرورت نہیں۔
بقول مریم نواز وزیراعظم میاں نواز شریف سے ملاقات میں شہزادہ چارلس نے اُن سے کہا کہ ”جنابِ وزیراعظم! پاکستان کو آپ کی ضرورت ہے!“۔ ایک پنجابی لوک گیت میں ایک خاتون نے سات سمندر پار گئے اپنے محبوب کی ضرورت کی آڑ میں اپنی ضرورت بیان کرتے ہُوئے کہا تھا
”وے تیرِیاں نِتّ وطناں نُوں لوڑاں!“
یُوں تو جنابِ فیض احمد فیض نے اِس موضوع پر کہا تھا کہ
”چلے بھی آﺅ کہ گُلشن کا کاروبار چلے!“
لیکن اُنہوں نے وضاحت نہیں کی کہ جب گُلشن پاکستان میں آف شور کمپنیوں کا کاروبار ہو گا تو مفلوک اُلحال عوام ”تخت گرانے اور تاج اچھالنے کے لئے کِس موسم کا انتظار کریں؟ بہرحال شہزادہ چارلس کا یہ بیان مسلم لیگ ن کی تیسرے اور چوتھے درجے کی قیادت کی "Political Laundering" کے بہت کام آئے گا اور اُنہیں اپنے اپنے ”خمیدہ خم“ ٹھونک کر میدان میں اُترنے کا موقع ضرور مِلے گا۔ امریکہ میں لفظ "Honey" کا جانِ من یا دلبر جانی کے معنوں میں استعمال کب شروع ہُوا؟ وہ تو بھارتی وزیراعظم شری دامودر داس نریندر مودی کا کوئی پاکستانی شُبھ چِنتک ہی بتا سکے گا۔ ”دامود داس“ کا مطلب ہے دامودر کا غُلام۔ دامود شری کرشن جی مہاراج کا ایک صِفاتی نام ہے۔ شری کرشن جی گائے کے دودھ، مکھن اور شہد کے رسیا تھے۔ پنجابی کے پہلے شاعر پاک پتن کے بابا فرید شکر گنج کہتے ہیں کہ
”سکّر، کھنڈ، نِوات، گُڑ، ماکِھیو، ماجھا دُدّھ
ستبھے وَستوں مِٹھیاں، ربّ نہ پُجن تُدّھ“
یعنی اِس میں کوئی شک نہیں کہ شکر، کھانڈ، گُڑ، شہد اور (بھینس کا) دُودھ، یہ سب چیزیں میٹھی ہیں لیکن اے ربّ! یہ تیرے نام کی مٹھاس کو نہیں پہنچتیں!“۔ بابا فرید خاندانِ غلاماں کے نامور بادشاہ غیاث اُلدّین بلبن کے داماد ہونے کے باوجود درویش تھے۔ شاید بابا جی کے کسی مُرید نے اُن کی خدمت میں بھی تھوڑا سا جنگلی شہد پیش کر دِیا ہو لیکن اُن کے پاس شہزادہ چارلس کی طرح کسی شہزادے (بابا جی کے برادرِ نسبتی) نے آ کر یہ کبھی نہیں کہا ہو گا کہ ”اے اللہ کے نیک بندے! ہندوستان کو آپ کی ضرورت ہے!“۔ اُس دَور میں جنگل میں شیر تو ہوتے تھے لیکن شیرکا قومی اور انتخابی نشان نہیں تھا۔

مزیدخبریں