تنخواہوں اپنشن میں 10 فیصد اضافہ امپورٹد مہنگی گاڑیاں پلاٹوں پر بھی ٹیکس

Jun 14, 2016

لاہور (خصوصی رپورٹر+ کامرس رپورٹر+ نیوز رپورٹر+ خصوصی نامہ نگار) پنجاب کی وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے اپوزیشن کے شور وغوغا‘ گو نواز گو‘ جھوٹے جھوٹے‘ جھوٹی جھوٹی کے نعروں کی گونج میں موجودہ شہبازشریف حکومت کا چوتھا بجٹ پنجاب اسمبلی میں پیش کر دیا۔ وزیر خزانہ عائشہ غوث کی بجٹ تقریر کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف ان کی حوصلہ افزائی کے لئے ڈیسک بجاتے رہے ان کی پیروی میں حکومتی بنچوں سے وزیر خزانہ کو دوران بجٹ تقریر تالیاں اور ڈیسک بجاکر داد دی جاتی رہی۔ وزیر خزانہ نے 4بج کر 40منٹ پر بجٹ تقریر شروع کی جوکہ ایک گھنٹہ 25منٹ پر محیط تھی۔ بجٹ تقریر مکمل کرنے پر انہیں وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے ان کی نشست پر جاکر مبارکباد دی۔ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے 2016-17کیلئے 1681 ارب 41 کروڑ روپے کا بجٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب میں بھی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ آبپاشی، لائیوسٹاک، جنگلات، ماہی پروری کیلئے مجموعی طور پر 147 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، صوبائی اخراجات کیلئے 31 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، وزیرخزانہ نے بتایا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت 1039 ارب روپے ملیں گے، لینڈ ریکارڈ کا دائرہ کار پورے صوبے تک بڑھائیں گے اور تھانہ کلچر کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، صوبائی ریونیو میں 280 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سرکاری ملازمتوں میں خواتین کا 15 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا اور خواتین کی بالائی عمر کی حد 3 سال بڑھا دی گئی ہے۔کاشتکاروں کو 17 ارب روپے کا سود حکومت پنجاب برداشت کرے گی۔ جدید زرعی مشینری کیلئے ایک ارب روپے سے زائد مختص کئے گئے ہیں۔ 53ہزار ایکڑ اراضی کو قابل کاشت بنایا جائے گا۔ بے موسمی فصلوں کی کاشت اور ڈرپ اری گیشن کیلئے ڈھائی ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دیہی روڈ پروگرام کیلئے 27 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ڈولفن فورس کا دائرہ کار راولپنڈی، فیصل آباد اور دیگر شہروں تک پھیلایا جائے گا۔ پنجاب میں توانائی کے مختلف منصوبے دسمبر2017ء میں مکمل ہوجائیں گے۔ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کیلئے130ارب روپے سے زائد مختص کئے گئے ہیں۔ نوجوانوں کیلئے مختلف منصوبوں کی مد میں 23ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پانچ ارب 20کروڑ روپے کی لاگت سے تمام ڈسٹرکٹ ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن ہو گی۔ بجٹ کے ایک ایک حرف کو حقیقت کا روپ دیں گے ۔ چینی قیادت نے وزیر اعظم نواز شریف پر بھر پور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ملتان میں میٹرو بس کا افتتاح جلد ہو جائے گا۔ فائیو سٹار ہوٹل، پلیئرز ہاسٹل، میوزیم، پارکنگ پلازہ کیلئے ایک کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ فرنچائز یا کسی قسم کے ڈیلرز پر سالانہ 5 ہزار روپے ٹیکس کی تجویز ہے۔ خسارہ پورا کرنے کیلئے 361 ارب روپے قرض لیا جائے گا۔ تنخواہوں میں اضافے سے اخراجات میں 13 ارب روپے کا اضافہ ہوگا۔ پنشن کی شرح میں اضافے سے 24 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ صوبے میں 23 ہزار 618 نئی آسامیاں پیداکی جائیں گی۔ مری میں 100 بیڈ کا زچہ و بچہ ہسپتال قائم کیا جائے گا۔ نکاسی آب اور اخراج آب کیلئے 57.4 ارب روپے مختص۔ بجٹ میں زراعت کیلئے 52.3 ارب روپے رکھے گئے۔ مزدور کی کم سے کم اجرت 14 ہزار مقرر کی گئی۔ خود روزگار سکیم کے تحت بلا سود قرضوں کیلئے 3 ارب رکھے گئے۔ رمضان پیکیج کیلئے 5 ارب‘ ٹرانسپورٹ پر سبسڈی کیلئے 8 ارب 60 کروڑ اور مفت ادویات کی فراہمی کیلئے 16 ارب 60 کروڑ روپے رکھے گئے۔ 100 ارب روپے کا کسان پیکیج دیا گیا۔ بلا سود قرضے اور سمارٹ فون بھی دیئے جائیں گے۔ کھاد کی بوری سستی کردی گئی۔ زرعی ٹیوب ویلوں اور سستی کھاد کیلئے سبسڈی دی جائیگی۔ صوبائی وزیرخزانہ نے انسانی حقوق اور اقلیتی برادری کی بہتری کیلئے آئندہ بجٹ میں ایک ارب60 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویزپیش کی ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ نے بتایا گزشتہ سال 46 کروڑ کی لاگت سے مینارٹیز ڈویلپمنٹ فنڈ قائم کیا جا چکا ہے جس کے تحت رواں مالی سال میں متعدد ترقیاتی منصوبے مکمل کئے جارہے ہیں اور اقلیتی طلبا کو رواں مالی سال میں 22 کروڑ روپے کے تعلیمی وظائف دیئے جا رہے ہیں۔آئندہ مالی سال میں اقلیتی طلباکو سکالر شپ کے لئے 25 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب سرکاری ملازمتوں میں اقلیتی برادری کے لئے 5 فیصدکوٹہ مختص ہے جبکہ مسیحی بھائیوں کے لئے کرسمس بازار لگانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن کے شور شرابے سے اسمبلی مچھلی منڈی بن گئی۔ عائشہ غوث کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن ڈیڑھ گھنٹہ ایوان میں احتجاج کرتی رہی۔ اپوزیشن اراکین نے بجٹ تقریر کے ڈاکو منٹ پھاڑ ڈالے اور سپیکر کے ڈائس کی طرف پھینک ڈالے۔ اپوزیشن اراکین بجٹ کی تقریر والی کاپیاں ڈیسک پر مار مار کر بجاتی رہی۔ سپیکر اسمبلی رانا اقبال کی طرچف سے بار بار آرڈر آف دی ہائوس‘‘ کے الفاظ بلند ہوتے رہے۔ حکومتی اراکین کی جانب سے ’’رو عمران رو‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ بجٹ تقریر میں عائشہ غوث جب ترقیاتی بجٹ کے نئے کاموں کا ذکر کرتی تو اپوزیشن اراکین ’’چل جھوٹی چل جھوٹی‘‘ کے نعرے لگاتے۔ ایوان میں صورتحال اس وقت دلچسپ ہوگئی جب حکومتی رکن نے اکیلے کھڑے ہوکر ’’پاگل پاگل‘‘ کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ صوبائی وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشانے بتایا کہ حکومت پنجاب نے پر ائمر ی سکولوں میں اساتذہ کی کمی کو پورا کر نے کیلئے45 ہزار نئے ٹیچرز بھر تی کرنیکا فیصلہ کیا ہے اس طرح پنجاب کے ہر پر ائمری سکول میں تدریسی خدمات سر انجام دینے کیلئے کم ازکم 3ٹیچرز ضرور موجود ہوں گے اور پنجاب حکومت اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کی تمام بھرتیاں مکمل طور پر شفا ف طر یقے سے میرٹ کے مطابق ہی کی جائیں گی۔
لاہور (کامرس رپورٹر) پنجاب کے آئندہ مالی سال 2016-17ء کے فنانس بل کے مطابق کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹیز، پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹیز میںغیر منقولہ جائیداد کی منتقلی پر ڈی سی ریٹ کے مطابق 3فیصد سٹیمپ ڈیوٹی وصول کرنے کی تجویز دی گئی۔ درآمد شدہ 1300سی سی سے لے کر 2500سی سی تک کی گاڑیوں پر 70ہزار روپے سے لے کر تین لاکھ روپے تک ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو یکم جولائی 2016ء سے وصول کیا جائے گا، اے کیٹگری ایریا میں پلاٹ جن پر قبضہ لینے کے دو سال تک تعمیر نہیں کی گئی اس پر ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے، موت کے کنویں، جھولے اور جادو کے کھیلوں پر تفریحی ٹیکس ختم کر دیا گیا، 1300سی سی تک کی گاڑیوں کے لئے اختیاری سکیم متعارف کرائی گئی ہے جس کے تحت تین سال کا ایک ساتھ ٹیکس ادا کیا جا سکتا ہے اور اس پیشگی ادائیگی کی وجہ سے ان کو 10فیصد رعایت دی جائے گی، مختار عام پر کیپٹل ویلیو ٹیکس100روپے مربع فٹ ختم کر کے کل ویلیو کا 2فیصد عائد کرنے کی سفارش کی گئی ہے، ود ہولڈنگ ایجنٹس اگر ٹیکس کی کٹوتی نہیں کرے گا تو اسے ود ہولڈنگ ٹیکس خود اد اکرنا پڑے گا، اگر وفاق یا کوئی صوبہ پنجاب کے سیلز ٹیکس آن سروسز کی ان پٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں دے گا تو پنجاب بھی اسے یہ سہولت فراہم نہیں کر یگا۔ پنجاب اسمبلی میں پیش کئے گئے فنانس بل کے مطابق اس وقت کوآپریٹو سوسائٹیز وغیرہ میں جائیداد کی منتقلی کے وقت فریقین کی طرف سے ظاہر کردہ قیمت پر اشٹام ڈیوٹی سٹمپ ایکٹ 1899کے جدول نمبر 1آرٹیکل نمبر 63Aکے تحت 3فیصد کے حساب سے وصول کی جارہی ہے اور سٹمپ ایکٹ 1899کی دفعہ 27A کے تحت ضلعی کلیکٹر کے جاری کردہ ریٹ لاگو نہ ہیں۔ لہٰذا گورنمنٹ کے خزانے کو نقصان سے بچانے کیلئے سٹمپ ایکٹ کی جدول نمبر 1آرٹیکل 63Aکو دفعہ 27A میں شامل کرنے کی تجویز ہے تاکہ ضلعی کلیکٹر کے جاری کردہ ریٹ کے مطابق اشٹام ڈیوٹی وصول ہوسکے۔ سٹمپ ایکٹ کی دفعہ 29 اس بات کا تعین کرتی ہے کہ دستاویزات کی تحریک کے وقت کون سا فریق اشٹام کا خرچہ ادا کرے گا لیکن کچھ دستاویزات مثلاًمعاہدہ مابین ٹھیکیدار ہمراہ لوکل گورنمنٹ وغیرہ، عدالتی ڈگری، ہبہ نامہ، ہائوسنگ سوسائٹیز وغیرہ میں جائیداد کی منتقلی اس دفعہ میں شامل نہ ہے جس سے بعض اوقات اشٹام ڈیوٹی کے اداکرنے کی ذمہ داری کا تعین کرنے میں دشواری ہوتی ہے اس ابہام کو دور کرنے کیلئے سٹمپ ایکٹ کی دفعہ 29میں ان دستاویزات کو شامل کرنے کی تجویز ہے۔ فی الوقت مختار نامہ میں اگر مختار عامہ کی قیمت بھی ادا کردی جائے اور جائیداد کو بیچنے کا اختیار بھی دے دیا جائے تو اس میں فریقین کی طرف سے ظاہر کردہ قیمت پر اشٹام ڈیوٹی 3فیصد کے حساب سے وصول کی جاتی تھی اور اس پر ضلعی کلکٹر کا جاری کردی ویلیوایشن ٹیبل لاگو نہ ہوتا تھا۔ لہٰذا اب تجویز ہے کہ ایسے مختار نامہ میں جائیداد کی قیمت کا تعین فریقین کی ظاہر کردہ قیمت کی بجائے ضلعی کلکٹر کی قیمت کے مطابق ہوگا۔ لیکن اشٹام ڈیوٹی کا ریٹ تین فیصد جو کہ پہلے سے لاگو تھا وہی رہے گا اس کے علاوہ مختار نامہ میں اگر جائیداد کی فروخت کے اختیار دئے جائیں تو اشٹام ڈیوٹی 1200کے حساب سے وصول کی جاتی تھی اب اشٹام ڈیوٹی ضلعی کلکٹر کے جاری کردہ ویلویشن ٹیبل کے مطابق 2فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ اس ترمیم سے جائیداد کے خریدار جن کو درحقیقت بیع نامہ رجسٹرڈ کروانا چاہیے تھا اوروہ گورنمنٹ کے ٹیکس بچانے کیلئے مختارنامہ در ج کرواتے تھے کی حوصلہ شکنی ہوگی اور وہ بیع نامہ کروانے کو ہی ترجیح دیں گے ۔ اس وقت مختارنامہ پر سی وی ٹی 100روپے فی مربع فٹ کے حساب سے وصول کیا جارہا تھا اسے ختم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے اور اشٹام ڈیوٹی ضلعی کلکٹر کے جاری کردہ ریٹ کے مطابق 2فیصد کے حساب سے لاگو کرنے کی تجویز ہے ۔ فنانس بل میں محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ٹیکسوں کی شرح میں معمولی ردو بدل کیا گیا ہے۔ موٹر کیب رکشہ کے مالکان کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک اختیاری سکیم متعارف کی جارہی ہے جس کے تحت موٹر کیب رکشہ کے مالکان لائف ٹائم ٹوکن ٹیکس ادا کرسکتے ہیں۔ اس کیلئے 3ہزار یکمشت ادا کرنے کی تجویز ہے ۔ 1500سی سی سے 2000 سی سی تک کی گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس کی مد میں 2فیصد سے3فیصد کا اضافہ زیر غور ہے اس سے حکومت کو 200ملین روپے کی آمدنی ہوگی۔ 1000سی سی سے 1300سی سی تک کی گاڑیوں کے مالکان کی سہولت کیلئے اختیاری سکیم متعارف کرائی جارہی ہے جس کے تحت تین سال کا ایک ساتھ ٹیکس ادا کیا جاسکتا ہے اور اس کی پیشگی ادائیگی کی وجہ سے ان کو 10فیصد رعایت دی جائے گی۔ گاڑیوں کے ٹوکن ٹیکس کو 10فیصد چھوٹ کے ساتھ ادائیگی کے وقت کو جولائی سے بڑھا کر اگست کیا جارہا ہے اس سے تمام موٹر مالکان استفادہ حاصل کرسکیں گے ۔ چھوٹی تفریحات مثلاً موت کا کنواں، جھولے، جادو کے کھیل، چھوٹے سرکس وغیرہ پر تفریحی محصول انٹر ٹینمنٹ ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز ہے۔ پراپرٹی ٹیکس کے قانون کے مطابق زمین اور بلڈنگ پر ٹیکس لگایا جاسکتا ہے اس بار پلاٹ جہاں پر قبضہ لئے دو سال گزر گئے پر ٹیکس لگانے کی تجویز ہے جس سے حکومت کو 50ملین آمدن کی توقع ہے۔ 1300سی سی سے زائد کی درآمدی گاڑیوں پر70ہزار سے لیکر 3 لاکھ روپے تک ٹیکس لگانے کی تجویز ہے جس سے حکومت کو 50ملین آمدنی کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔ فنانس بل میں پنجاب ریونیو اتھارٹی کے انتظامی تجربات کی روشنی میں پنجاب سیلز ٹیکس آن سروسز ایکٹ 2012ء میں ترامیم پیش کی گئی ہیں جن کا تعلق ان پٹ ایڈجسٹمنٹ کے طریقہ کار کی مربوط انداز میں وضاحت، ود ہولڈنگ سٹیٹمنٹ کی وصولی کے حوالے سے متعلقہ شق کا اضافہ، اسی حوالے سے مقررہ جرمانے میں اضافہ تقریباً نو خدمات کے دائرہ کار میں اضافے اور تین نئی خدمات پر سروسز ٹیکس کی عائد گی سے ہے۔ ان نئی خدمات میں کاسمیٹک اور پلاسٹک سرجنز، ہیئر ٹرانسپلانٹ، ویئر ہائوس، سٹوریج اور پیکر شامل ہیں جن پر 16فیصد کے حساب سے جی ایس ٹی کی وصولی کی جائے گی۔ مزیدبرآں پنجاب انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس ایکٹ 2015ء میں ویلیو کی ڈیفی نیشن میں ترمیم تجویز کی گئی ہے تاکہ اس کو دفعہ 3میں موجود ویلیو اور کسٹمز ایکٹ 1969سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔

مزیدخبریں