نفرتوں کی آگ سے بچا جائے

ہم شاید نفسیاتی طور پر کمزور واقع ہوئے ہیں یا من حیث القوم ہماری شخصیتوں میں کوئی ایسی کمزوری یا کمی ہے کہ ہمیں کوئی غصہ یا اشتعال دلا دے‘ ہمیں بے وقوف بنایا جائے‘ ہمارے ساتھ کوئی ہاتھ کر جائے‘ ہمیں اپنی منشا کے مطابق کسی کام پر اکسائے‘ ورغلائے یا اپنی مرضی کے مطابق اپنے اشاروں پر چلائے اور جب وقت گزر جائے اور بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہ جائے اور پھر ہمیں معلوم ہو کہ ہم تو کسی اور کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے‘ ہماری ڈوریں تو کسی اور جگہ سے ہلائی جا رہی تھیں۔ ایک زمانہ تھا عوامی لیڈر بھٹو صاحب کے خلاف تحریک چلی۔ اس تحریک کے لئے خشک لکڑیوں اور خشک گھاس پھونس کی ضرورت تھی۔ وہ جمع کی گئیں تو ان پر کنستر بھر بھر کر تیل ڈالا جانے لگا۔ اس تحریک میں عوام کو آپس میں تقسیم کر دیا گیا۔ لوگوں کو اچھوں اور بُروں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اچھوں کو یہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ انہیں اچھوں کا درجہ کیوں دیا جا رہا ہے اور بُروں کو بھی معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ انہیں اس قدر برا کیوں کہا جا رہا ہے۔ اس وقت نفرتوں کا آتش فشاں پھٹ پڑا تھا اور اس کا لاوا سب کے سامنے بہتا چلا جا رہا تھا لیکن وہ لاوا کسی کو نظر نہیں آ رہا تھا۔ ایک غیبی آواز آ رہی تھی کہ تم نے اسی طرح نفرت بھرے جلوس نکالتے رہنا ہے‘ بُروں کو مطعون کرتے رہنا ہے‘ تم نے ہمارے اشاروں پر ناچتے رہنا ہے۔ باقی ہم سنبھال لیں گے۔ پھر وہ دن آیا جب سنبھالنے والوں نے سب کچھ سنبھال لیا اور کئی سال بُروں کو سبق سکھانے کے لئے کئی اچھوں کو تخلیق کیا گیا۔
چند سال بعد اِدھر اُدھر سے آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ ملک چل نہیں رہا‘ ادارے تباہ کئے جا رہے ہیں‘ ملک مقروض ہے اور قرضوں کی قسطیں نہیں دی جا رہیں‘ اس لئے پاکستان کو ایک ڈیفالٹ اور ناکام ریاست قرار دے دیا جائے گا۔ بس ایک سیاسی حادثہ ہو گیا۔ ملک پر جنرل مشرف کی حکومت قائم ہو گئی۔ جب مشرف صاحب نے اپنی پہلی تقریر کی تو لوگوں نے یقین کر لیا کہ یہ وہی نورانی اور نکھری ہوئی صبح ہے‘ جس کا ایک مدت سے انتظار تھا۔ اب اس نظریے اور مقصد کی بھی تکمیل ہو گی‘ جسے مختلف ادوار میں ہمارے حکمرانوں نے نظرانداز کیا۔ اب احتساب بھی ہو گا اور انصاف کا جھنڈا بھی لہرائے گا۔ ایک نعرہ بلند ہوا۔ سب سے پہلے پاکستان۔ پھر ہمارے لئے ایک غیبی ہدایات نامہ جاری کیا گیا۔ اس ہدایات نامہ میں وہی باتیں درج تھیں جو ہمارے فائدے میں تھیں۔ اگر ہم سکھ کا سانس لینا چاہتے ہیں تو فلاں فلاں کام کرتے جاؤ۔ کبھی کبھار ہمیں ہمارے فائدے کے کام پر مامور کرنے والے ہمیں پوچھ بھی لیتے تھے کہ کوئی تکلیف تو نہیں۔ کوئی خرچہ پانی چاہئے تو بتایئے۔
ہم حرفِ شکایت تو ہونٹوں پر نہیں لاتے تھے لیکن ہم جانتے تھے کہ ہمارے ملک میں شبرات کا سا سماں رہتا تھا یعنی شُرلیاں پٹاخے چلتے تھے یعنی دھماکے ہوتے تھے۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں لاشیں گرتی تھیں۔ ہم اتنے مجبور ہو گئے تھے کہ کچھ کَہ بھی نہیں سکتے تھے۔ ہمیں ہمارے فائدے کے کام پر لگانے والے کبھی کبھار ہماری پیٹھ بھی تھپک کر شاباش وغیرہ دے دیتے تھے اور کبھی کبھار روکھا لہجہ بھی اختیار کر لیتے تھے۔ پھر ہمیں بتایا گیا کہ تم لہولہان ہو چکے ہو۔ تمہارا ملک غلط راستے پر چل پڑا ہے۔ اہم سیاسی پارٹیوں کے لیڈر جلاوطن ہیں۔ ملک چلانا ان کا کام اور حق ہے۔ چودھری افتخار صاحب کا ایک حرفِ انکار تھا اور پوری قوم ان کے حرفِ انکار پر فریفتہ ہو گئی۔ ششدر رہ گئی کہ کیسا شیر دلیر ہے‘ جو مشرف صاحب کے سامنے چٹان بن گیا ہے۔ اب ہماری تقدیر بدل جائے گی۔ اب انصاف ہو گا۔ کوئی کسی پر ظلم نہیں کر سکے گا۔ چیف تیرے جاں نثار- بے شمار بے شمار۔ کا نعرہ گونجتا تو لوگ سمجھتے۔ اب یہ ملک علامہ اقبال اور قائداعظم کا ملک بننے جا رہا ہے۔ چودھری افتخار صاحب بحال ہوئے اور ایک بہت بڑے لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ اخبارات میں ان کے بیانات کی شہ سرخیاں لگتی تھیں۔ ملک میں انصاف کا بول بالا کرنے کے لئے وکیلوں نے جانیں بھی دیں اور بہت بڑی تحریک بھی چلی لیکن اخبارات میں قتل‘ چوری‘ ڈاکوں‘ تشدد‘ خودکشیوں‘ کمزوروں پر کتے چھوڑنے اور خواتین پر ظلم و زیادتی کی خبریں اب بھی تواتر کے ساتھ شائع ہو رہی ہیں۔ اتنے بڑے کھڑاک کا معاشرے کو کیا فائدہ پہنچا۔ اب پھر صورت حال ایسی ہے۔ نفرتوں کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے۔ لوگوں کو اچھوں اور بُروں میں پھر سے تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اپنا ہر عمل اچھا اور دوسرے کا ہر عمل برا۔ ایک بڑا نعرہ بنوا دیا گیا ہے۔ ملک کو لوٹا کھسوٹا جا رہا ہے‘ تباہ و برباد کیا جا رہا ہے‘ پیسہ بنایا جا رہا ہے۔ عوام کے خون پسینے سے محلات کھڑے جا رہے ہیں۔ قومی خزانے کو ذاتی تجوری سمجھ لیا گیا ہے۔ ہمارے ملک کے بارے میں کئی بار یہ بتایا جا چکا ہے کہ یہ فلاں فلاں مرض کا شکار ہے‘ پھر تشخیص کرنے والے بتاتے ہیں کہ جتنی جلدی ممکن ہو اس مرض کا علاج کر لیں۔ ایک غیبی آواز آتی ہے کہ اپنے مریض کو کسی نہ کسی طریقے سے ہسپتال پہنچا دیں‘ باقی ہم سنبھال لیں گے۔ جب مریض ہسپتال پہنچا دیا جاتا ہے تو اسے دیکھنے بھی کوئی نہیں آتا۔ ہمیں اب بھی یہی بتایا جا رہا ہے کہ مریض کمزوری سے نڈھال ہو گیا ہے۔ اس میں خون کی کمی واقع ہو گئی ہے بلکہ اس کا خون چوس لیا گیا ہے۔ ہمیں اس لئے یقین نہیں آ رہا کہ کہیں اس دفعہ بھی ہمارے ساتھ ہاتھ نہ ہو جائے اور ہمیں بعد میں پتا چلے کہ ہماری ڈوریں تو کوئی اور ہلا رہا تھا۔

ای پیپر دی نیشن