وزیراعظم کی جے آئی ٹی میں پیشی کیا رنگ لائے گی؟

Jun 14, 2017

....ادیب جاودانی ....

پاناما کیس کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے حکم پر قائم ہونے والی جے آئی ٹی نے وزیراعظم کو تحقیقات کیلئے طلب کر لیا جبکہ نواز شریف نے قانونی ماہرین سے مشاورت کے بعد جمعرات کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ کر لیا‘ جے آئی ٹی نے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کو بھی طلبی کا نوٹس جاری کر دیا۔ اتوار کو ایک نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم پر قائم ہونے والی جے آئی ٹی نے وزیراعظم کو تحقیقات کیلئے جمعرات کو طلب کر لیا ہے۔ جے آئی ٹی کی جانب سے وزیراعظم کو طلبی کا نوٹس موصول ہوگیا ہے۔ وزیراعظم کو جے آئی ٹی نے جمعرات دن 11بجے طلب کیا ہے‘ ان سے لندن فلیٹس‘ قوم اور پارلیمنٹ سے خطاب پر سوالات کئے جائیں گے۔ وزیراعظم سے حدیبیہ پیپر ملز سے متعلق بھی سوالات کئے جائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کا خط موصول ہونے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے کمیٹی کے رو برو پیش ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت رائے ونڈ میں اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا‘ جس میں وزیراعظم کی جے آئی ٹی کے رو برو پیشی کے حوالے سے امور کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے دوران قانونی ماہرین نے وزیراعظم کو ان کے بیٹوں کی جے آئی ٹی کے رو برو پیشی اور صدر نیشنل بینک سعید احمد کی درخواست سے متعلق بھی بریفنگ دی۔ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے پاناما کیس کی تحقیقات کیلئے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کو بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کیلئے نوٹس جاری کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم نواز شریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز پانچ بار اور چھوٹے صاحبزادے حسن نواز 2بار جے آئی ٹی کے رو برو پیش ہو چکے ہیں۔دریں اثناء وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ڈان اور پاناما سمیت بہت سی لیکس ہیں لیکن ہونا‘ ہوانا کچھ نہیں۔ انہوںنے بہت صحیح کہا ہے اور بیشتر سیاسی مبصرین اور حالات پر گہری نظر رکھنے والے صحافیوں کا بھی یہی خیال ہے کہ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ وزیراعظم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ مخالفین کے اصرار پر وہ کیوں استعفیٰ دیں۔ اسی طرح اگر وقت سے پہلے عام انتخابات کا اعلان کردیا جائے تو اس میں بھی خطرہ ہے کہ کہیں نشستیں کم نہ ہو جائیں۔ تازہ ترین مثال برطانیہ کی ہے جہاں وزیراعظم تھریسامے نے اس خوش گمانی میں مدت پوری ہونے سے پہلے عام انتخابات کروا دیئے کہ پہلے سے بڑھ کر کامیابی ملے گی‘ معاملہ الٹ گیا اور سادہ اکثریت بھی ہاتھ سے گئی۔ ممکن ہے کہ مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں اور ملکہ برطانیہ نے حکومت بنانے کی اجازت بھی دے دی ہے لیکن ملک بھر میں تھریسامے کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا ہے۔ پاکستان میں بھی ایک ایسا ہی تجربہ ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا جب وہ اپنے گمان میں مقبولیت کی انتہاء پر تھے۔ پھر ان کے خلاف ایسا زبردست احتجاج ہوا کہ حکومت ہاتھ سے گئی اور فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ پھر 11 سال تک سول حکومت کا چہرہ نظر نہیں آیا۔ اگر ایک فضائی حادثہ فیصلہ نہ دیتا تو یہ 11 سال 22سال بھی ہوسکتے تھے۔ اس میں سے کچھ سال جنرل پرویز مشرف لے اڑے اور انہوں نے بھی 9 سال نکال لیے۔ انہیں اب بھی گمان ہے کہ پاکستان کے عوام بے چینی سے ان کے منتظر ہیں اور ان کی سرکردگی میں کوئی تیسری جماعت اقتدار میں آسکتی ہے ۔ خوش گمانیوں کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ جنرل صاحب باوردی اقتدار میں دعوے کرتے تھے کہ وہ اکیلے ہی نواز شریف اور بے نظیر سے نمٹ سکتے ہیں۔ بے نظیر کو تو نمٹا دیا گیا۔ لیکن نواز شریف کا کچھ نہیں بگاڑ سکے جنرل پرویز مشرف اب اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ پاکستان میں آ کر دوبارہ اقتدار میں آسکیں۔ پاکستان میں جب جنرل ریٹائر ہو جاتے ہیں تو پھر انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔
پاناما کیس پر تحقیقات تو ہو رہی ہیں لیکن یہ بھی کوئی راز نہیں کہ ان میں نواز شریف کا نام نہیں ہے۔ اس کے باوجود عدالت عظمیٰ کے دو ججوں نے گاڈ فادر کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ وہ صادق اور امین نہیں ہیں۔ عدالت کے حکم پر مزید تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنائی گئی ہے جس کی پوری توجہ نواز شریف کے بیٹوں پر ہے۔ ان کے اثاثوں اور منی ٹریل کا ربط ان کے والد سے تلاش کیا جا رہا ہے۔ (ن) لیگ والے اس پر شدید برہم ہیں۔ بالواسطہ اور بلاواسطہ دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور آصف کرمانی للکار رہے ہیں کہ جے آئی ٹی میں زیادتی ہوئی تو اپنا حق استعمال کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں نمٹ لیں گے۔ حکمرانوں اور ان کے لواحقین یا متعلقین سے پوچھ گچھ ہو تو اسے زیادتی سمجھا جاتا ہے۔ وزیراعظم نواز نے یہ تو صحیح کہا تھا کہ گالیاں نہیں دیتے لیکن اس کام کیلئے انہوں نے بڑی مضبوط ٹیم رکھی ہوئی ہے۔ بہرحال ان کا یہ گمان سچ ثابت ہوتا ہوا نظر آتا ہے کہ لیکس میں سے کچھ نہیں نکلے گا ۔ پاکستان کی تاریخ بھی ایسی ہی کچھ ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری پر بے شمار الزامات لگے اور انہیں کئی برس تک قید کے نام پر بند بھی رکھا گیا۔ مگر کچھ ثابت نہیں ہوا۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ تازہ ترین مثال ڈان لیکس کی ہے۔ کیا ثابت ہوا؟ چنانچہ نواز شریف کا اطمینان ایسا کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ ان کے صاحبزادے حسین نواز نے بھی اپنی پیشی کے بعد یہی کہا ہے کہ جے آئی ٹی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
راقم نے سابق وزیر قانون ایس ایم ظفر سے دریافت کیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے جے آئی ٹی کے پیش ہونے سے کیا وزیراعظم نواز شریف استعفیٰ تو نہیں دے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ایسا ممکن نہیں ہے لیکن وہ الیکشن کرانے کااعلان کرسکتے ہیں۔ نواز شریف جے آئی ٹی میں بھرپور تیاری کرکے جا رہے ہیں۔ جے آئی ٹی کے سوالات کے جوابات تحریری طور پر لکھ کر ساتھ لے جا رہے ہیں ان کے جوابات سے جے آئی ٹی یقیناً مطمئن ہو جائے گی اور امید ہے کہ وہ نواز شریف کو بری الذمہ قرار دے گی۔

مزیدخبریں