ویلکم ”میرے عزیز ہموطنو“

پانامہ لیکس کی جے آئی ٹی پر ہونے والی دھماچوکڑی کے دوران وزیراعظم نواز شریف کا جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہونے کا اعلان کرنے کے بعد سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہونا اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی اپنے ہمراہ لے جانا یقیناً ان کی اس خوداعتمادی کا اظہار ہے کہ انہیں پہاڑ جیسے جھٹکے لگانے کے خواہش مند انہیں گزند تک نہیں پہنچا سکتے۔ زمانہ ان کے ساتھ ہے اور لٹنے کے اسباب پیدا کرنے والا ”کارنامہ“ ان کے ساتھ ہے۔ آپ کو بخوبی یاد ہو گا کہ نیوز لیکس انکوائری کمیٹی کی سفارشات کے حوالے سے بھی ”لٹنے“ کے سارے اسباب ایک ٹویٹر پیغام کے ذریعے بن گئے تھے اور پھر باہم شیر و شکر والی ایسی فضا بنی کہ بغلیں بجانے کے وجدانی لمحہ کے منتظر اپنی بغلیں جھانکتے رہ گئے.... دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشہ نہ ہوا
اب پانامہ لیکس کی جے آئی ٹی پر ہمہ جہت ہونے والی دھماچوکڑی اور ماری جانے والی بُبلیوں سے پھر ”حیلے“ کے ساتھ ”وسیلے“ کی راہ ہموار کرکے ان ہونی کے ہونے والی فضا سازگار بنا کر اس میں رنگ بھرنے کے جتن ہو رہے ہیں تو وزیراعظم کے جلو میں آرمی چیف کی سعودی عرب روانگی نے رنگ میں بھنگ ڈال دی ہے۔ میاں نواز شریف اسی اعتماد میں سعودی عرب کے چھ گھنٹے کے مختصر دورے کے بعد جے آئی ٹی میں اپنی پیشی کے مقررہ دن سے دو روز قبل ہی ملک واپس بھی لوٹ آئے۔ سو یہ طے ہو گیا کہ وزیراعظم نے کل جمعرات کے روز جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہونا ہی ہونا ہے۔
بطور وزیراعظم میاں نواز شریف کو یقیناً آئینی استثنیٰ حاصل ہے اور وہ چاہیں تو اس آئینی استثنیٰ کا سہارا لے کر جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہونے سے معذرت کر لیں اور ان کی وزارت عظمیٰ تک ان کے خلاف کسی قسم کی فوجداری کارروائی روک دی جائے مگر انہوں نے اپنے اس آئینی استثنیٰ کے باوجود وزیراعظم کی حیثیت سے جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہونے کا فیصلہ کیا ہے تو انہوں نے کسی اعتماد کی بنیاد پر ہی ایسا فیصلہ کیا ہو گا۔ مگر دوسری جانب کا اعتماد بھی دیکھئے کہ وزیراعظم کے منصب کا خیال کئے بغیر میاں نواز شریف کو ایک عام ملزم کی طرح کٹہرے میں لانے کا اہتمام ہوا ہے۔ اگر کچھ تھوڑے بہت رکھ رکھاﺅ کا ہی خیال رکھ لیا گیا ہوتا تو وزیراعظم سے تفتیش کا طریقہ کار ان کے منصب کے تقاضوں کی پاسداری کرنے والا وضع کیا جا سکتا تھا۔ مثلاً جے آئی ٹی انہیں ان کے صاحبزادوں کی طرح جوڈیشل اکیڈمی میں طلب کرنے کے بجائے خود وزیراعظم ہاﺅس میں جا کر ان سے ضروری تفتیش کر لیتی یا ویڈیو لنک کے ذریعے بیان قلمبند کرانے کی قطری شہزادے کو سہولت فراہم کرنے کی پیشکش وزیراعظم کے منصب کی پاسداری کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو بھی کی جا سکتی تھی۔ اس طرح اس ممکنہ ہنگامے اور تصادم سے ممکنہ طور پر بچا جا سکتا تھا جو آج وزیراعظم کی جوڈیشل اکیڈمی میں جے آئی ٹی کے روبرو پیشی کے وقت یقینی طور پر اتھل پتھل کی فضا ہموار کرتا نظر آ رہا ہے۔
کیا مقصد محض یہ تاثر دینا ہے کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں یا مقصد فی الواقع اتھل پتھل کی فضا ہموار کرنے والا ہی ہے جس میں ”میرے عزیز ہم وطنو“ کے لئے راستہ نکالنا آسان ہو جاتا ہے۔ اگر قانون کی نگاہ میں سب کے برابر ہونے کا تاثر دینا مقصود ہوتا تو یہ مقصد وزیراعظم نے خود ہی جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہونے کا اعلان کرکے پورا کر دیا ہے۔ مگر لگتا یہی ہے کہ وزیراعظم کو کٹہرے میں لانے میں بلانے والوں کے اپنے مقاصد کچھ اور ہیں اور یہ مقاصد ”اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں“ کا تصور نمایاں کرنے والے ہیں۔
یا تو ایسا ہوتا کہ پانامہ کیس کی آزادانہ انکوائری کے لئے وزیراعظم اپنے منصب سے الگ ہو جاتے یا کر دئیے جاتے اور پھر وہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوتے تو پھر ”یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے“ والی فضا نہ بنتی۔ اس کا اہتمام جے آئی ٹی کی تشکیل سے قبل کیا جا سکتا تھا۔ مگر میاں نواز شریف کو بطور وزیراعظم جے آئی ٹی کے کٹہرے میں لانا ان سے زیادہ وزارت عظمیٰ کے منصب کو مدھولنے کی کوئی مخصوص حکمت عملی لگتی ہے۔
یہی وہ صورت حال ہے جو وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کے دوران بنائے گئے باہم شیر و شکر والے ماحول کے باوجود خاکستر میں سے ”چنگاری“ پھوٹنے کے آثار پیدا کرتی نظر آتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے ماضی کا جائزہ لیا جائے تو جے آئی ٹی کی کارروائی کے آغاز کے ساتھ ہی اس کے ساتھ تصادم کی ہموار کی گئی فضا مسلم لیگ (ن) کی خانہ ساز حکمت عملی ہی نظر آتی ہے جس میں ”اوئے توئے“ اور ”چھڈاں گے نہیں“ والا لب و لہجہ اختیار کر کے اداروں کے مقابل اپنی طاقت ”شو“ کرنے کی ٹھانی گئی۔ نہال ہاشمی کی بڑھک کے فوری بعد خود وزیراعظم کے نوٹس لینے اور ان کی پارٹی رکنیت معطل اور ان سے سینٹ کی رکنیت سے استعفیٰ طلب کرنے کے اقدام کے باوجود مجھے نہال ہاشمی کا یہ فعل ان کی تنہا ذات کا فعل نظر نہیں آتا کیونکہ ایسا ہی لب و لہجہ مسلم لیگ ن کے دوسرے ارکان اور ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت نے بھی اختیار کیا مگر ان کی طنابیں نہیں کھینچی گئیں۔ پھر نہال ہاشمی کی اپنا استعفیٰ واپس لینے کی درخواست پر بھی مسلم لیگ ن کی قیادت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہ آیا اور وہ چیئرمین سینٹ کی رولنگ کے نتیجہ میں اپنی پارٹی قیادت سے ”بغاوت“ کے باوجود پورے دھڑلے سے سینٹر کا منصب سنبھالے بیٹھے ہیں۔ اب تو راجہ ظفر الحق کی قیادت میں قائم مسلم لیگ (ن) کی ڈسپلنری کمیٹی نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی والا نہال ہاشمی کا جرم ثابت ہونے پر انہیں پارٹی سے نکال بھی دیا ہے مگر ان کی سینٹری بدستور قائم ہے جو آئین کی دفعہ 63 اے والے وزیراعظم کے ایک جھٹکے کی مار ہے مگر وزیراعظم کی جانب سے پارٹی ہیڈ کی حیثیت سے ان کی سینٹ کی رکنیت ختم کرانے کیلئے ابھی تک چیف الیکشن کمشنر سے رجوع نہیں کیا گیا۔ اس لئے نہال ہاشمی کی بڑھک پارٹی سطح کی حکمت عملی کے تحت ہی لگائی گئی نظر آتی ہے۔ اس بڑھک کے بعد تو مسلم لیگی ”متوالوں“ کو گویا زبان ہی لگ گئی۔ دانیال عزیز، عابد شیر علی، طلال چودھری اور اب رانا ثناءاللہ۔ ان سب کا لب و لہجہ کیا فرزانوں کو ”اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں“ والی انگیخت کرتا نظر نہیں آتا؟ یقیناً یہ پالیسی ”جے اساں نہیں کھیڈناں تے فیر کوئی ہور وی کیوں کھیڈے“ والی ہے جو ”میرے عزیز ہم وطنو“ کیلئے تو بہت ہی سازگار ہوتی ہے۔
اگر دوسری جانب اس پالیسی کے منطقی انجام کی نوبت نہ آنے دینے کی نیت ہوتی تو یقیناً جلتی پر تیل ڈالنے سے گریز کر لیا جاتا مگر ادھر تو جلتی کو ہوا دینے کی پالیسی اختیار کی گئی نظر آتی ہے جس میں جے آئی ٹی کی اب تک کی کارروائی جلتی پر تیل کا کنستر پھینکنے کے مترادف ہے۔ عمران خان کو تو ایسی فضا نئی سیاسی زندگی بخش دیتی ہے چنانچہ ان سے جو بھی بن پڑ رہا ہے وہ آگ کو پھیلانے کے اسباب پیدا کر رہے ہیں اور پھر اس فضا میں علامہ القادری کا کینیڈا سے چھلانگ لگا کر پاکستان آ دھمکنا اور جے آئی ٹی پر اپنی سازشی سرشت کی طبع آزمائی کرنا کیا ”میرے عزیز ہم وطنو“ کے اہتمام کی منظم حکمت عملی نظر نہیں آ رہا۔ پھر جناب! تصور کر لیجئے! اگر وزیراعظم کل جمعرات کو جے آئی ٹی کے روبرو پیشی کیلئے جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں آ گئے تو اس کے باہر ہر دو جانب سے اہتمام کردہ تصادم کی فضا کیا اپنا رنگ نہیں دکھائے گی۔ اگر یہ فضا حکمران مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اس اعتماد پر استوار کی جا رہی ہے کہ دورہ سعودی عرب جیسی باہم شیر و شکر والی فضا میں ان کا کسی نے کیا بگاڑنا ہے تو معاف کیجئے اب کی بار بھی آپ سے اندازے کی غلطی ہو رہی ہے۔ دوسرے فریق کو تو ایسی ہی فضا سوٹ کرتی ہے سو کل ”باہم شیر و شکر“ کے باہم گتھم گتھا ہونے والا پورا سامان بالاہتمام موجود ہے۔
اگر کسی کی جانب سے سسٹم کو بچانا مقصود ہے تو جے آئی ٹی کی کارروائی کا طریقہ کار تبدیل کر لیا جائے اور وزیراعظم کے جوڈیشل اکیڈمی میں جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہونے کی نوبت نہ آنے دی جائے۔ اس کیلئے دو آپشن موجود ہیں جن کا میں اس کالم میں پہلے ہی تذکرہ کر چکا ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر سسٹم کے استحکام کے متمنی عوام بھی اپنے قائدین اور ”غمگساروں“ کے عزائم دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ....
کیا اسی زہر کو تریاق سمجھ کر پی لیں
ناصحوں کو تو سجھائی نہیں دیتا کچھ بھی
ویلکم ”میرے عزیز ہم وطنو“ ویلکم۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن