سیاسی سنگساری اور پدرم سلطان بود

آج ایک پاکستانی اور ایک بھارتی سیاستدان کی باتیں دیکھ کر پریشانی ہوئی اگر یہ سیاستدان سمجھتے ہیں کہ ان کی یہ باتیں لوگ پسند کرتے ہیں تو ان کی غلط فہمی ہے مگر وہ ایک خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم نے ’’کڑاکے کڈھ‘‘ دئیے ہیں۔

بھارت کی سابق سرکاری پارٹی کانگریس کے رہنما سندیپ ڈکشٹ نے اپنے بھارتی آرمی چیف کو سڑک کا غنڈہ قرار دیا ہے۔ کیا غنڈے اور سڑک کے غنڈے میں کوئی فرق ہوتا ہے مگر شاید اس طرح ڈکشٹ صاحب خوش ہوئے ہوں کہ میں نے کوئی کمال کر دیا ہے۔ پاکستانی آرمی چیف کے لئے لوگ کلمہ خیر ہی لکھتے ہیں۔
ایک پاکستانی سرکاری جماعت مسلم لیگ ن کے ترجمان طلال چودھری نے کہا ہے ’’عمران خان نااہل ہی نہیں ہوں گے سنگسار بھی ہوں گے۔‘‘ طلال کی اطلاع کے لئے عرض ہے انہیں پتہ ہی ہو گا کہ پاکستان میں سب نمایاں سیاستدان سنگسار ہونے کے لائق ہیں۔ جس گناہ کے لئے سنگسار کیا جاتا ہے وہ عمران خان کے علاوہ سب سیاستدانوں نے کیا ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ سیاسی سنگساری بھی کوئی سزا ہے۔ طلال چودھری دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے بارے میں بتا دیں۔
سیاستدانوں کو اس طرح کی ذاتی گھریلو اور غیر اخلاقی باتیں نہیں کرنا چاہئیں۔ اختلاف تو ہمیں بھی عمران خان سے ہے مگر اس کی کچھ باتوں کا اعتراف بھی ہے۔ ان کے بارے میں ہم بہت کچھ جانتے ہیں مگر سب باتیں کھلے عام کرنے والی نہیں ہوتیں۔ عمران خان بھی اب دوسرے سیاستدانوں جیسے ہیں۔
اس کے باوجود میں کہتا ہوں کہ الیکشن مہم میں عمران خان نکلے گا تو لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح اس کے اردگرد اکٹھے ہو جائیں گے۔ مگر اسے اتنی سیٹیں نہیں ملیں گی کہ وہ وزیراعظم بن سکے۔ مگر ایک بار اسے وزیراعظم بننے دیا جائے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ سب سیاستدان ایک جیسے ہوتے ہیں پہلے وہ عمران خان تھا اب سیاستدان ہے لوگ ووٹ عمران خان کو دیں گے۔ اس کے بعد عمران خان کی مرضی ہے کہ اپنے ساتھ اور لوگوں کے ساتھ جو کرے؟ ہمارے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا آ رہا ہے جو ہو رہا ہے۔ بھٹو بڑا لیڈر تھا۔ اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو ’’مقبول‘‘ سیاستدانوں کے ساتھ ہوا۔ وہ پھانسی کے پھندے سے لٹک گیا۔ میدان میں آدمی اترتے ہیں تو اپنی حفاظت بھی ضروری ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ آدمی جان کی بازی ہار جائے۔ یہ ہار ہارنے سے بھی بڑی ہے نواز شریف نے جان بچا لی تو تیسری بار وزیراعظم بھی بن گئے۔ اس کے لئے کلثوم نواز بھی تعریف کی مستحق ہیں۔ میں نے چاہا تھا کہ وہ سیاست میں رہیں۔ نجانے نواز شریف نے کس ڈر سے انہیں سیاست میں نہ آنے دیا۔ اب وہ مریم نواز کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ پہلے شوہر کے لئے اب بیٹی کے لئے ان کی قربانی قابل تعریف ہے مگر اس قربانی کو قربانی بھی نہیں سمجھا جا رہا۔
نواز شریف نے کسی تخلیقی محفل میں ضرب عضب کے ساتھ ضرب قلم کی بھی تعریف کی۔ یہ قابل تعریف بات ہے۔ اس پر برادرم عرفان صدیقی کو خاص طور پر غور کرنا چاہئے۔ عرفان صدیقی اور عطاء الحق قاسمی کبھی کبھی کالم لکھ دیا کریں۔ دونوں نوائے وقت سے نام مقام پا کر کسی اور اخبار میں گئے ہیں۔ انہیں خیال رکھنا چاہئے کہ انہیں جو منصب ملا ہے وہ کالم نگاری کی وجہ سے ملا ہے۔
اختر وقار عظیم نے اپنے والد پروفیسر سید وقار عظیم کی ایک کتاب مرتب کی ہے جس میں چالیس ادبی شخصیتوں کے مضامین شامل کئے گئے ہیں۔ اختر صاحب نے کوشش کی کہ جو کچھ کسی نے ایک بڑے انسان بڑے استاد اور بڑے نقاد ادیب سید وقار عظیم کے لئے لکھا ہے اسے جمع کرکے ایک بڑی کتاب بنا دیا جائے۔ اس میں استاد محترم ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر عبادت بریلوی، انتظار حسین، سجاد باقر رضوی، کشور ناہید، ڈاکٹر سہیل احمد خاں، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر یونس جاوید، مرزا ادیب، پروفیسر فتح محمد ملک، اصغر ندیم سید کے علاوہ اور بھی کئی معروف لوگ ہیں۔ میرے مختصر تاثرات بھی کتاب میں شامل ہیں۔ احمد ندیم قاسمی، پروفیسر گیان چند، جمیل الدین عالی، گوپی چند نارنگ، مالک رام، ڈاکٹر آغا سہیل، افتخار عارف، جمیل الدین عالی اور کئی دوستوں کے تاثرات بھی شامل ہیں۔
اختر وقار عظیم نے اپنے عظیم والد کے لئے اپنی محبت کا عظیم ہدیہ عقیدت کتاب کی صورت میں پیش کیا ہے۔ وہ اسم بامسمہ تھے۔ اختر اس کا نام رکھا ’’پدرم سلطان بود‘‘ یہ ایک منفی تاثر کا محاورہ ہے۔ اسے اختر صاحب نے مثبت بنا کے عجیب معرکہ آرائی کی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...