پاکستان تحریک انصاف کی قیادت تاحال ’’سیاسی بلوغت‘‘ سے عاری

نواز رضا… اسلام آباد
کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد 25 جولائی 2018کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 171 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی بیشتر نشستوں کے لئے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کر دیئے ہیں جبکہ پارٹی کے چیئرمین عمران خان عمرہ کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب چلے گئے ہیں۔ تحریک انصاف پارٹی ٹکٹ جاری کرنے میں دیگر جماعتوں پر سبقت تو لے گئی ہے لیکن پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کچھ اس طرح ہوئی ہے کہ تحریک انصاف کے دیرینہ کارکنوں کو نظر انداز کر کے مختلف سیاسی جماعتوں سے آئے ہوئے ’’الیکٹیبلز‘‘ کو پارٹی ٹکٹوں سے نوازا گیا ہے جس کے باعث تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف ’’چیخ و پکار‘‘ شروع ہو گئی ہے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی بہت بڑی تعداد بنی گالا پہنچ گئی ہے اور عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر دھرنا دے دیا اور بنی گالہ جانے والے راستے بلاک کر دیئے ہیں ۔ عمران خان نے عمرہ کی ادائیگی کے فوراً بعد 13 جون 2018 کو پارلیمانی ریویو بورڈکا اجلاس بلا لیا ہے۔ تحریک انصاف کی پارٹی ٹکٹ کے ایک امیدوارخان بہادر نے نے دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ ’’دھرنے میں انہوں نے پیسہ پانی کی طرح بہایا ،آبپارہ سے مرغیاں خرید کر لاتے بلکہ’’ نائی‘‘ بن گئے ،لیکن ٹکٹ کوئی اور لے اڑا ‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اپنے ناراض کارکنوں کو کس طرح مطمئن کرتے ہیں۔ اس بارے میں آنے والے دنوں میں ہی کوئی بات حتمی طور کہی جا سکتی ہے ۔ بہرحال تحریک انصاف میں ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ اکٹھا ہونے سے جوصورتحال پیدا ہوئی ہے بمشکل ہی سنبھل پائے گی ۔ پاکستان مسلم لیگ ن جو کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، نے تاحال پارٹی امیدواروں کو ٹکٹ جاری نہیں کئے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کا اجلاس منگل کو بھی جاری رہا۔ اس بات کا قومی امکان ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن آج کل میں امیدواروں کا اعلان کر دے گی۔ متحدہ مجلس عمل نے ابھی تک باضابطہ طور پر اپنے امیدواروں کا اعلان نہیں کیا ہے متحدہ مجلس عمل کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کا اجلاس اسلام آباد میں جاری ہے ۔تاہم متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں نے اپنے متوقع امیدواروں کو انتخابی مہم شروع کرنے کا گرین سگنل دے دیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ، کے پی اور بلوچستان کے لئے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے بیشتر امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔ تا ہم’’ پاور بیس ‘‘ پنجاب کے بارے میں پیپلز پارٹی کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسے پنجاب سے’’ مناسب ‘‘امیدوار میسر نہیں ہیں یا بیشتر لوگ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے کو تیار ہی نہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی و دیگر قوم پرست جماعتوں کی جانب سے بھی جزوی طور پر پارٹی ٹکٹ کے اعلانات آ رہے ہیں۔ پارٹی ٹکٹوں کے اجرا کے بارے میں حتمی فیصلہ پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کی آخری تاریخ کو ہی ہو گا۔ گو کہ پاکستان تحریک انصاف کو قائم ہوئے دو سے زائد عشرے گزر گئے ہیں لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تاحال پارٹی کی قیادت ’’سیاسی بلوغت‘‘ سے عاری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت عجلت میں فیصلے کر رہی ہے یا اسے ’’کہیں اور‘‘ سے ہدایات موصول ہو رہی ہیں جن پر اسے بامر مجبوری عمل کرنا پڑ رہا ہے۔ کارکنوں کے احتجاج اور دبائو نے پارٹی قیادت کو بعض نشستوں پر فیصلے تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ عمران خان نے حسب سابق قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں سے کاغذات نامزدگی داخل کرائے ہیں تا ہم اب کی بار انھوں نے انتخابی حلقوں میں تبدیلی کی ہے۔ انھوں نے 2013 ء کے عام انتخابات میں سابق این اے 56 اور موجودہ این اے 62 جہاں سے انھوں نے قومی اسمبلی کی نشست برقرار رکھی تھی، سے انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چونکہ انھوں نے پورے پانچ سال اس حلقے میں آنے کی زحمت گوارا نہیں کی اس لئے انھوں نے اس حلقہ سے دوبارہ انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد انھوں نے این اے 61 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار ملک ابرار کے خلاف انتخاب لڑنے کا عندیہ دیا تھا لیکن انھوں نے بھاری پتھر چوم کر اس حلقہ انتخاب سے بھی راہ فرار اختیار کر لی۔ اب انھوں نے اپنے لئے این اے 53 جو کہ اسلام آباد سے جو ایک نیا حلقہ بنا ہے، کو محفوظ سمجھ کر انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے این اے 60 اور این اے 62 کو ناکام جوتشی کے لئے خالی چھوڑ دیا ہے جبکہ مسلم لیگ ن تاحال راولپنڈی کے دو حلقوں کے بارے میں امیدواروں کا فیصلہ نہیں کر پائی۔ این اے 62 سے قومی اسمبلی کے سابق رکن حنیف عباسی انتخاب لڑنے کے خواہش مند ہیں جبکہ اسی نشست پر ممتاز مسلم لیگی رہنما چوہدری تنویر کے صاحبزادے بیرسٹر دانیال چوہدری بھی میدان میں اتر چکے ہیں۔ پارٹی نے ان دو میں سے ایک امیدوار کے حق میں فیصلہ کرنا ہے۔ دوسری طرف این اے 55 جو کہ اب این اے 60 ہے سے شیخ رشید احمد امیدوار ہیں، ان کے مقابلے میں شکیل اعوان، شیخ ارسلا اور عابد وحید شیخ سمیت متعدد امیدوار پارٹی ٹکٹ کے لئے قطار میں کھڑے ہیں۔ پارٹی قیادت نے ابھی تک ان دو حلقوں کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ٹکٹوں کے امیدواروں کی نظریں ماڈل ٹائون لاہور میں مسلم لیگ ن کے ہیڈ آفس پر لگی ہوئی ہیں۔ اب تک ہونے والے گیلپ سروے مسلم لیگ ن کی کامیابی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن جو کہ اب ایک ’’اینٹی اسٹبلشمنٹ‘‘ جماعت کے طور پر قومی افق پر ابھر ی ہے کو جنوبی پنجاب کے سوا کہیں اور بڑا نقصان نہیں پہنچا۔ اس کے باوجود پنجاب میں مسلم لیگ کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ نواز شریف مخالف قوتوں کو یہی پریشانی کھائے جا رہی ہے کہ تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک میں کمی نہیں آئی بلکہ اس میں کچھ اضافہ ہی ہوا۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کو جلسوں میں جو پذیرائی مل رہی ہے، وہ شاید اقتدار سے نہ نکالے جانے کی صورت میں نہ ملتی۔ اگر میاں نواز شریف کو جیل بھجوا دیا گیا تو بیشتر سیاسی تجزیہ گاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس کا براہ راست فائدہ مسلم لیگ ن کو پہنچے گا۔ بظاہر پاکستان مسلم لیگ ن کے اندر کوئی بڑا اختلاف نظر نہیں آتا لیکن مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما چوہدری نثار علی خان کی نواز شریف سے دوریاں بڑھ رہی ہیں ۔ چوہدری نثار علی خان نے حسب سابق پارٹی ٹکٹ کے لئے درخواست دی ہے اور نہ ہی پارٹی کے کسی پلیٹ فارم پر جا کر اپنے لئے ٹکٹ مانگا ہے انہوں نے کہا ہے کہ نہ جانے کیوں مجھے ٹکٹ نہ دینے کا بہانہ بنانے کے لئے مضحکہ خیز ڈرامے کئے جا رہے ہیں۔ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ انکے ٹکٹ کا امیدوار ہوں اور نہ ہی اسکا محتاج ۔ علالت سے صحت یابی کے بعد سارے امور پر کھل کر اظہارِ رائے کروں گا۔ لہذاجاتی امراء والوں کو کہتا ہوں کہ ڈراموں اور بچگانہ حرکتوں سے اپنا مذاق اڑوائیں اور نہ ہی میری تضحیک کریں۔ کیا کبھی یہ ہوا ہے کہ پارٹی کے سینئر ترین ارکان جو کئی دفعہ منتخب ہو چکے ہوں وہ بورڈ کے سامنے آکر ٹکٹ کے لئے انٹرویو دیں۔پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے طرز عمل سے یہ بات واضح ہو گئی ہے چوہدری نثار علی خان اور میاں نواز شریف کے درمیان پائی جانے والی دوریاں بڑھ گئی ہیں دونوں کے سیاسی راستے جدا ہو گئے ہیں اب چوہدری نثار علی خان آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑیں گے اگر چوہدری نثار علی خان کو پارٹی ٹکٹ نہ دیا گیا تو اس کے پارٹی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھی چوہدری نثار علی خان کے حلقے سے ان کے روایتی حریف غلام سرور خان کو ٹکٹ دے دیا ہے۔ قبل ازیں عمران خان نے یہ بات کہی تھی کہ اگر چوہدری نثار علی خان نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا تو وہ ان کے مقابلے میں امیدوار کھڑا نہیں کریں گے۔ چونکہ صورتحال واضح نہیں اس لئے عمران خان نے بھی غلام سرور خان کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دیا ہے۔ جبکہ ان دو حلقوں میں کئے گئے حالیہ گیلپ سروے کے مطابق چوہدری نثار علی خان آزاد امیدوار کی حیثیت سے یا پارٹی ٹکٹ پر انتخاب لڑیں، ان کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن بظاہر ایک غیر منظم جماعت ہے لیکن اس کی قیادت سائنسی بنیادوں پر انتخاب لڑ نے کا فیصلہ کیا ہے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے پنجاب کی حد تک بین الاقوامی شہرت کے حامل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک آوپینیئن ریسرچ سے انتخابی سروے کرایا ہے، جس کی رپورٹ کو پیشِ نظر رکھ کر پارٹی ٹکٹ جاری کئے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن جس نے 2013 کے انتخابات میں پنجاب میں ’’سویپ‘‘ کیا تھا 2018 ء میں ’’ناموافق سیاسی حالات‘‘ کی وجہ سے وہ شاید اس قدر نشستیں حاصل نہیں کر سکے گی جس قدر اس نے 2013 ء میں عمران خان کے سونامی کے آگے بند باندھ کر حاصل کی تھیں۔ مگر جنوبی پنجاب سے ایک بڑی تعداد میں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے چلے جانے کے باوجود مسلم لیگ ن کو پنجاب میں شکست دینا ناممکن نظر آتا ہے۔ اب بھی مسلم لیگ ن کے پنجاب میں سے قومی اسسمبلی کی 90 سے 100 نشستیں حاصل کرنے کا امکان ہے۔

ای پیپر دی نیشن