مخدوم منور عارفی سلطان صاحب کی شخصیت کا نمایاں پہلوحمد ثناءاورنعت گوئی ہے۔ اہل تصوف کی قطار میں بھی کھڑے نظر آتے ہیں ۔ آدھے درجن سے زیادہ تصنیفات ان سے منسوب ہیں ۔ انہوں نے دوکتابیں مجھ ناچیز کو عنائت فرمائیں ۔ ایک ”روح تصوف “ کے نام سے جسکو انکے مرشد قطب زماں حکیم محمد جمیل عارفی سرکار مرحوم و مغفور نے تحریر کی اور اسکو مرتب خود خواجہ مخدوم منور عارفی سلطان صاحب نے کیا۔ دوسری کتاب ”اولیا ءاللہ کے ارشادات مقدس“ اسکو بھی انہوں نے ہی مرتب فرمایا ۔اوّل الذکرکتاب”روح تصوف“ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کتاب اسی فیصد سے زیادہ منظوم انداز میں لکھی گئی ۔اسکا دل نشین انداز تحریر قاری کو آخر وقت تک اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ اس کا دیبا چہ ‘ حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول خود مخدوم منور عارفی سلطان صاحب کا تحریر کردہ ہے۔ تصوف کے موضوع پر 1923 ءمیں لکھی گئی یہ نادر طرز تحریر آج کے دور میں تقریباًناپید ہے ۔ لیکن انداز اتناسہل اور سادہ کہ عام قاری کو ایک یہ نشست میں پوری کتاب ختم کرنے پرنہ صرف مجبور کردیتا ہے بلکہ اسکو باربار پڑھنے کی تحریک بھی پیدا کرتا ہے۔ دیڑھ درجن کے قریب موضوعات جو تصوف کے لوازمات بھی ہیں پر سیر حامل بحث اتنے مختصر انداز میں کہ جیسے دریا کو کوزے میں بند کردیا گیا ہو۔ وہ قاری حضرات جوخشک مضامین سے پہلو تہی کرتے ہیں اگرایک بار چند سطور پر سرسری نظر دوڑانا چاہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی اسکو پڑھتے چلے جائیں گے۔ خاکسار کو اہل تصوف کی کبھی قربت حاصل نہیں رہی ۔ یہ بدنصیبی ہے کہ ہم دنیا داری میں لہو لعب میں اتنے مستغرق ہوچکے ہیں کہ انجام کا ر پر نظر ڈالنے کی فرصت بھی نہیں پاتے۔ نفس الامر یہ ہے کہ نفس پروری اور نفس کشی ایک دل میں ایک ساتھ پرورش نہیں پاسکتے ۔ نفس امارہ کے ہم اتنے اسیر ہیں کہ اس سے جان چھڑا نا محال ہے۔ بلکہ یہ کہنازیادہ مناسب لگتا ہے کہ ہم نے خود ارادی طور پر خود کو نفس امارہ کے مضبوظ قلعہ میں قید کرلیا ہے۔ گوکہ نفس لوامہ کا راستہ اسی قلعہ سے گزرتا ہے۔لیکن ہم نے نفس پرستی کی آہنی دیواریں خوداسکے اطراف کھڑی کی ہیں۔ صاحب کتاب حکیم محمد جمیل عارفی مرحوم نفس امارہ کے باب میں خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں کہ ” نفس امارہ کی اصلیت حرص و ہوس ہے اسیر اسکا بوالہوس ہے کام اسکا فتنہ فساد ہے نتیجہ اسکا عارفیت برباد ہے۔ نفس کا طبیب انسانی ہے ۔ اسکو اللہ راہ پر قتل کرو اور ہر وقت معبود حقیقی سے ڈرو۔ اور نفس کو اللہ راہ پر قتل کرنا جہاد اکبر ہے‘ جو قاصر ہے اسکا شیطان رہبر ہے۔“ آگے چل کر مزید رقمطراز ہیں کہ ”نفس بجنسہ مثل کتے کے ہے عمل کی ہڈی اسکے منہ میں ہے جسکو ہر وقت وہ بخوڑتارہتا ہے اور صاحب نفس پرزور دیتا ہے جو بر وقت بدمستی چوپایہ ہے ‘ بوقت غصہ درندہ ‘ بوقت معصیت ناسمجھ بچہ انجان مال پائے توفرعون ہے‘ سامان سے پیٹ بھرے تو مستانہ ‘ بھوکارہے تو دیوانہ ‘ دانہ پائے لوگوں کو ستائے‘ بھوکارہے آپے سے گزرجائے۔“ اسی بات میں وہ مزید فرماتے ہیں کہ ” نفس و شیطان کا قاتل علم ہے‘ جو بے علم ہے وہ بے حلم ہے‘ ”وغیرہ وغیرہ ۔ اس کتاب میں مصنف نے جوباب باندھے ہیں انمیں سلام ‘ یقین ‘ تصور‘ مراقبہ‘ مکاشفہ‘ محاسبہ ‘ مجاہدہ‘ ذکر وفکر ‘ دل ‘ نفس امارہ‘ دنیا‘ فقر ‘ شریعت‘ طریقت‘ حقیقت ‘ معرفت‘ مومن ‘ عارف کامل‘ صبر و شکر‘ علم ‘ عالم فاضل ‘ خودی اور سماع شامل ہیں ۔ خواجہ مخدوم منور عارفی سلطان کی دوسری مرتب کردہ کتاب”اولیاءاللہ کے ارشادات مقدس “ بھی لیک بہترین اضافہ ہے ۔ کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے کہ یہ اقوال زریں پرمبنی ہے ۔ روح تصوف کی بابت میں خود کو اس قابل نہیں پاتا کہ اس پر نقدو نظر کی جراءت کر سکوں۔ البتہ اسکومحض تذکرہ کی ذیل میں سمجھا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ لیکن آخر ی دوباب جو خودی اور سما ع پرمبنی ہیں ان پرکچھ عرض کرنا چاہوں گا اگر اس میں کچھ کج فہمی نظر آئے تو اصلاح کا طالب رہوں گا۔ مثلاً خودی کا باب علامہ اقبال کی خودی سے براہ راست متصادم آتا ہے ۔ اگر یہ شرعی وضاحت تھی تو میرے علم میں اضافہ کا باعث ہوگی۔ علمائے دین کی نظر میںاگر خودی کی تشریح ویسی ہی ہے جیسی مذکورہ کتاب کے باب میں ہے تو میرے یقین کو پختہ کردیگی اور میری کج فہمی دور ہوجائیگی ۔ اگر تصور اقبال درست ہے تو اسکی کسوٹی کیا ہوگی؟ اگر شرعی اعتبار سے علامہ اقبال کا تصور خودی درست ہے تو دونوں میں تضاد کیوں نظر آرہا اسکی وضاحت درکار ہوگی۔ واضح ہو کہ مذکورہ کتاب میں خودی کو گمراہی سے تعبیر کیا گیا ہے ۔اس کتاب کا آخری باب سماع پر باندھاگیا۔ اس پر دومختلف مکتب فکر میں واضح تقسیم نظرآتی ہے ۔ دونوں کے پاس دلائل ہیں ۔ لیکن قرآن وحدیث میں اس پر وضاحت کیساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ایک علمی بحث ہے۔ اسکو تنازع کی سرحد سے دور ہی رکھا جانا چاہئےے ۔جسکی دلیل ٹھوس اور واضح ہو اسکو قبول کرنا ہی عافیت ہے۔