نیب چیئرمین سچے نکلے۔ سارے قیافے غلط نکلے

پچھلے دنوں نیب چیئر مین سے ایک ملاقات کے حوالے سے جاوید چودھری نے دو کالم لکھے۔ اس کے بعد ایک ویڈیو وائرل ہو گئی۔ جن پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ لگتا تھا کہ نیب چیئر مین پر کہیں سے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ مگر انہوں نے تو خودکہا کہ وہ ہر طرف سے دبائو میں ہیں۔ اپوزیشن، حکومت اور ریاستی ادارے سبھی ان سے ناخوش ہیں۔ کسی نے جاوید چودھری کی دیانت پر شک و شبہے کا اظہار کیا۔ کسی نے کہا کہ کالم نویس کسی کے آلہ کار بنے۔ مجھے اس تبصرے پر دلی کوفت ہوئی کیونکہ میں جاوید چودھری کی صلاحیتوں کا معترف ہوں۔ جاوید چودھری کو کم و بیش ہر ٹی وی چینل پر مدعو کیا گیا۔ انہوں نے کالموں کے مندرجات کی تصدیق کی مگر نیب چیئرمین کی طرف سے طرح طرح کی تاویلات آنے لگیں۔ اس گردو غبار میں عوام یہ جاننے سے قاصر رہے کہ اصل قصہ کیا ہے۔ کیا وہی ہو گا جیسا کہ نیب چیئر مین نے کہا ہے کہ وہ ہر کسی کو بلاامتیاز اندر کر دیں گے۔ یا کچھ بھی نہیں ہو گا اور میرے ممدوح کالم نگار جاوید چودھری کو خفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مگر یہ کیا کہ دونوں سچے نکلے۔ جاوید چودھری نے جو لکھا، وہی ہوا اور نیب چیئرمین نے جو کہا، عین اس کے مطابق جیلیں بھرنے لگیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ سلسلہ آگے کہاں تک جاتا ہے۔ وزیراعظم نے بجٹ کے بعد پھر تقریر کی کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔ اس دعوے سے بہرحال لوگوں کو یہ کہنے کاموقع مل رہا ہے کہ نیب حکومت کی ہدایات پر چل رہا ہے۔ حالانکہ آئینی طور پر نیب ایک خود مختار ادارہ ہے جیسے فوج ایک خود مختار ادارہ ہے۔ ادارے تو سبھی خود مختار ہونے چاہئیں۔ پی ٹی آئی نے تو کہا تھا کہ وہ پولیس کو بھی خود مختار کریں گے مگر آغاز ہی الٹ ہواا ور پاک پتن کے ایک پولیس افسر حکومت کی زد میں آ گئے، پھر پنجاب کے کئی آئی جی پولیس صاحبان سے دوری پیدا ہوئی۔ یہ سب کچھ پی ٹی آئی کے اعلانات اور منشور سے الٹ تھا۔ پی ٹی آئی تو سول بیوروکریسی کو بھی آزاد کرنے کے حق میں تھی مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آیا، پی ٹی آئی تو اپنے وزرا کو خود مختاری دینے کی خواہاں تھی مگر صرف چھ آٹھ ماہ میں درجنوں وزیر عتاب کا نشانہ بنے۔ اس طرح موجودہ حکومت بھی اسی روش پر چل رہی ہے جیسی پہلی حکومتیں تھیں۔ کوئی فرق نہیں پڑا۔ میں تبدیلی کا لفظ استعمال نہیں کروں گا کہ یہ بہت خوار اور بدنام ہو چکا۔ نیب چیئرمین اور جاوید چودھری کیسے سچے ثابت ہوئے۔ یوں کہ بلاول نیب میں پیشی کے لئے آئے تو نیب کے دفتر کے باہر کرفیو کی کیفیت تھی۔ نیب کے ادارے نے ثابت کیا کہ وہ آل پاور فل ہے۔ پی پی پی کے جیالوں کی خوب مرمت کی گئی جبکہ پر امن طور پر اکٹھا ہونا ان کا آئینی حق تھا۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جاوید چودھری کے انٹرویو سے نیب کو زیادہ طاقت ملی۔ اور اس نے یکے بعد دیگرے گرفتاریاں بھی شروع کر دیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری بند۔ اگلے روز حمزہ شہباز بھی بند۔ نواز شریف پہلے سے بند، نیب چیئرمین نے تسلی دلائی تھی کہ فریال تالپور کو عورت ہونے کے ناطے نرمی مل سکتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے فریال کی ضمانت منسوخ ہونے کے باوجود اسے گرفتار نہیں کیا، اگر عورت ہونا ہی نرم سلوک کا استحقاق ہے تو یہ نرمی مریم نواز کے ساتھ نہیں برتی گئی۔ عمران خان بات بات پر ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں۔ اس دور کی بات ضرور کی جانی چاہئے مگر ریاست مدینہ کے سربراہ نے کہا تھا کہ میری بیٹی بھی چوری کرے گی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹے جائیں گے۔ نیب تو ریاست مدینہ کے اس اصول سے انحراف کر رہا ہے۔ نیب چیئر مین نے وزیر دفاع کی خرابی صحت کا ذکر کیا تھا مگرا س کے باوجود ان کی گر فتاری کا عندیہ دیا تھا، دیکھئے یہ انہونی کس روز ہوتی ہے۔ ویسے پی ٹی آئی کے ایک مہان لیڈر عبدالعلیم خاں نیب کے مہمان بن چکے ہیں۔ جاوید چودھری نے نیب چیئرمین سے جو سنا۔ اسے بلا کم و کاست بیان کر دیا، ان کے کالموں سے ہی پتہ چلا کہ زرداری نیب پیشی بھگتنے آئے تو ان کے ایک ہاتھ سے چائے کی پیالی نہیںسنبھالی جاتی تھی۔ اس لئے انہیںپیالی کے نیچے دوسرا ہاتھ رکھنا پڑا۔ نیب چیئرمین کی نظر زرداری کی ٹانگوں پر نہیں پڑی۔ شاید وہ بھی کپکپا رہی ہوں گی۔ کیا زرداری کی یہ کیفیت نیب کے خوف کی وجہ سے تھی یا وہ کسی جسمانی عارضے میں مبتلا ہیں جسے رعشہ یا اعصابی کمزوری کہا جا سکتا ہے۔ اس کی حقیقت سامنے آنی چاہئے۔ میںنے تاریخ کھنگالنے کی کوشش کی کہ جب سقراط کو زہرکا پیالہ دیا گیا تھا تو کیا ان کے ہاتھ بھی لرزے تھے۔ مجھے یونانی تاریخ سے اس کا پتہ نہیں چل سکا ۔ مگر ہو سکتا ہے کہ سقراط کے جلاد نے کوئی داستان طرازی کی ہو اور اسے انگریزی میں ترجمہ نہ کیا گیا ہو۔ میںنے بھٹو کے آخری لمحات نامی کتاب کھولی۔ یہ ان کے جیلر یا پراسیکیوٹر نے لکھی ہے اور اس میں یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو سے آخری ملاقات کی تو وہ چیخ چیخ کر رونے لگیں حتیٰ کہ جیل کے سبھی قیدی بھی رونے لگے اور خود جیلر کی آنکھوں سے بھی آنسو ٹپک پڑے۔ اسی جیلر نے لکھا ہے کہ بھٹو کو پتہ چلا کہ اسے کسی وقت پھانسی دی جا سکتی ہے تو انہوںنے دیواروں سے سر ٹکرانا شروع کر دیا۔ انہیں کنٹرول کرنے کے لئے ان کے ہاتھ پائوں باندھ دیئے گئے۔ جب بھٹو کو پھانسی گھاٹ کی طرف لے جایا گیا تو وہ بے ہوش ہو گئے اور انہیں سٹریچر پر ڈالنا پڑا۔ جب پھانسی گھاٹ قریب آیا تو بقول جیلر بھٹو صاحب اچانک اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے پائوں سے چل کر پھانسی کے تختے پر کھڑے ہوئے۔ شاید بے چارے پیپلز پارٹی والے انہی لمحات کے پیش نظر اپنے دل کو تسلی دلانے کے لئے کہتے ہیں کہ جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے۔ جیلر نے یہ سب کچھ لکھا، کیوں لکھا۔ صرف اس لئے کہ ملک کے لئے ایٹم بم بنانے والے ایک بہادر انسان اور اس کے خاندان کو بے وقعت کیا جائے۔ ان کی تضحیک کی جائے۔ ان کا تمسخر اڑایا جائے۔ مجھے یاد ہے کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد ایک صحافی نے تارا مسیح کا انٹرویو کیا اور اس پر مبنی ایک پمفلٹ چھاپا جسے حکومتی اداروں نے لاکھوں کی تعداد میں خریدا۔ مقصد بھٹو کو بدنام کرنا تھا۔ بزدل ثابت کرنا تھا۔ اگر اس الف لیلیٰ کی کوئی حقیقت ہوتی تو بھٹو کی بیٹی سانحہ کارساز کے بعد باہر چلی گئی اور انہیں پتہ تھا کہ واپس گئیں تو قتل کر دی جائیں گی مگر اس پر عزم خاتون نے واپسی اختیار کی اور شہادت کو گلے لگایا۔ زرداری نے لغاری‘ نواز اور مشرف کے ادوار حکومت میں دس برس جیلوں میں بسر کئے۔ میرے مرشد مجید نظامی نے انہیں مرد حر کا خطاب دیا۔ اس خاندان کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کے ہاتھوں پر نیب دفتر میں رعشہ طاری ہو جاتا ہے۔ یہ سراسر کردار کشی ہے۔ میں جاوید چودھری کی قدر کرتا ہوں۔ کاش! انہوںنے یہ دو جملے نہ لکھے ہوتے۔ یہ زرداری صاحب کی تضحیک کا باعث بنے۔ اور میرے جیسے ایک عام شہری کے جذبات کو بھی سخت ٹھیس پہنچی۔ میرا سب لوگوں کو مشورہ ہے کہ وہ ماہرین اعصاب سے رجوع کریں اور اپنی قوت برداشت کی جانکاری حاصل کریں۔ اور نیب کے سامنے پیش ہونے سے پہلے ہی میڈیا کو بتا دیں کہ اندر جا کر ان پہ کیا گزرے گی۔اللہ سب کو برے وقت سے بچائے۔ مگر۔۔ نہیں چھوڑوں گا۔ کا بیانیہ اس قدر خوفناک ہے کہ لوگ اعصابی مریض بنتے جا رہے ہیں کہ کہیں ان کے گھر سے دولت کے بجائے کوئی سانپ ہی نہ نکل آئے، اب تو کمیشن بننے کی دیر ہے۔، اسی دنیا میںیوم حشر کا سماں دیکھنے کو ملے گا۔ مگر مدینہ کی ریاست میں تو ایسا نہیں ہوا تھا۔ اس روز تو عام معافی کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ آج کی پاکستانی مدینہ کی ریاست معافی تلافی کے لئے کیوں تیار نہیں۔ اگر تیار نہیں تو براہ کرم ریاست مدینہ کو ماڈل بنانے کا دعویٰ نہ کیا جائے۔ یہ مدینے پر بہت بڑا احسان ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن