خواجہ ریاض اویس پیرزادہ
اللہ تعالیٰ نے ازل سے رشد و ہدایت کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس مقدس فریضہ کی بجاآوری کے لئے چیدہ چیدہ بندوں‘ انبیاء کرام کو منتخب فرمایا۔ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو اس کائنات رنگ و بو میں مبعوث فرمایا جو خالق مخلوق کو ملانے کا کام کرتے رہے۔ مخلوق کی رشد و ہدایت و رہنمائی کا فریضہ امت کے برگزیدہ بندوں کے سپرد کیا گیا۔ امت کے صدیقین و صلحا نے اس فریضہ کو اتنی خوبصورتی سے نبھایا کہ آج دنیا کا کوئی قریہ یا حصہ ایسا نہیں جہاں اسلام کا پیغام نہ پہنچا ہو۔ یہ اگر فیض ہے تو انہی برگزیدہ ہستیوں کا مرہون منت ہے جنہوں نے اپنی زندگی رضائے الٰہی کے لئے وقف کئے رکھی۔ ایک ایک لمحہ دین محمدیؐ کی سربلندی کے لئے وقف کیا۔ حضرت خواجہ خواج بخش تارک اویسی بھی اسی قبیلے کے ایک درخشندہ ستارے ہیں جنہوں نے درماندہ مخلوق کو خالق سے ملانے کا فریضہ بڑی خوبصورتی سے انجام دیا۔ آپ نے خالق سے مخلوق کے تعلق کو ہمیشہ کے لئے مضبوط بنانے کے لئے زندگی وقف کر دی۔
سلسلہ اویسیہ کی معروف درسگاہ آستانہ عالیہ چینڈپور شریف ضلع ننکانہ کے شہر موڑ کھنڈا سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ جو تقریباً 2 صدیوں سے لوگوں کی علمی‘ دینی اور روحانی تسکین کا باعث بنی ہوئی ہے۔ 1825ء کے قریب سلسلہ اویسیہ کے مرد قلندر صوفی حضرت خواجہ خواج بخش تارک اویسیؒ ہلہ منیساں سے دین اسلام کی سربلندی کے لئے سکھوں کے گڑھ چینڈرپور شریف تشریف لائے اور حق کا علم بلند کیا۔ آپ سچے عاشق رسولؐ تھے۔ آپ کا تعلق راجپوتوں کے ممتاز خاندان (طور) سے تھا۔ آپ نے اندھیر نگری میں ڈیرہ لگا کر علاقے کو دین اسلام کی روشنی سے منور کیا۔ سکھ اور دیگر اقوام کے ہزاروں غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ اپنے حسن اخلاق سے غیر مسلموں کو اپنا گرویدہ کر لیتے اور پھر کلمہ توحید کا جام پلا دیتے۔ آپ کے عرس و میلہ کی دو روزہ تقریبات 29 اور 30 مئی کو عقیدت و احترام سے منائی جاتی ہیں جس میں ہزاروں مریدین شرکت کرتے ہیں۔ حضرت خواجہ خواج بخشؒ کے آستانہ پر آج بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے جس میں سینکڑوں بچے حفظ قرآن کی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے سجادہ نشین خواجہ نور الزمان نے مسجد اویس قرنی تعمیر کرا دی ہے جب کہ مدرسہ جامعہ اویسیہ نوریہ کی نئی وسیع و عریض عالی شان بلڈنگ بھی تعمیر کے آخری مراحل میں ہے جس میں رواں سال سے ہی درس نظامی کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ حضرت خواجہ خواج بخش اویسیؒ سے بہت سی ہستیوں نے فیض حاصل کیا۔ آپ کے خلیفہ خاص حضرت میاں فضل اعوان کا مزار ’’بگے محل‘‘ تحصیل جڑانوالہ میں واقع ہے۔ آپ نے بھی اپنے مرشد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین اسلام کے فروغ کے لئے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ ان کے خلیفہ میاں باہوؒ کا مزار ’’لنڈیانوالہ‘‘ تحصیل جڑانوالہ میں ہے۔ حضرت خواجہ خواج بخش کے لائق صاحبزادے حضرت خواجہ نور الحسن اویسیؒ کمسنی میں باپ کے سایہ شفقت سے محروم ہو گئے۔ جن کی ولادت 1849ء اور وصال 1929ء میں ہوا۔ آپ نے اپنے باپ کے مشن کو خوب نبھایا سینکڑوں افراد آپ کے دست مبارک پر مسلمان ہوئے جن کے خاندان آج بھی پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں۔ آپ نے اپنے آستانہ پر باقاعدہ درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ ہر وقت سینکڑوں طالب علم قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے موجود ہوتے۔ آپ طالبان کی تشنگی دور فرماتے آپ کے آستانہ پر پڑھنے والے کئی طالب علم زمانے کے نامی گرامی عالم دین بنے آ آپ نے دین اسلام کے فروغ کے لئے مختلف علاقوں میں مساجد تعمیر کرائیں۔ دین کے فروغ کے ساتھ ساتھ آپؒ نے خدمت خلق کو بھی اپنا شعار بنایا۔ آپؒ نے لاتعداد پانی کے حوض اور مسافر خانے تعمیر کرائے۔ آپؒ کے در اقدس سے کبھی کوئی غریب خالی ہاتھ نہ گیا۔ آپ غریبوں کی دل کھول کر مدد کرتے اور مریدین کو بھی اس کی خاص تاکید کرتے۔ آپؒ دین کی تبلیغ کے لئے جب گھر سے نکلتے تو آپ کے قافلے میں سینکڑوں افراد شامل ہوتے جس جگہ ڈیرہ لگاتے علاقہ بھر کے لوگ آپ کا وعظ سننے کے لئے جمع ہو جاتے‘ آپ نے درجنوں قرآن پاک کے نسخے اپنے ہاتھ سے لکھے جو آج بھی محفوظ ہیں۔ آپ نے تفسیر قرآن ’’نور الواعظین‘‘ کے علاوہ درجنوں مذہبی کتب تحریر کیں۔ تفسیر نور الواعظین پر پنجاب یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی جا چکی ہے۔ آپ کے پنجابی عارفانہ کلام ’’کلیات خواجہ نور الحسن‘‘ کو کمال شہرت ملی۔ سینکڑوں مریدین کو پوری کلیات زبانی یاد تھی۔ آپ نے ہمیشہ اخلاق و محبت کے ساتھ تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دیا۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے اکلوتے صاحبزادے حضرت خواجہ شیر محمد اویسیؒ جن کی ولادت 1886ء اور وصال 1971ء میں ہوا‘ نے اپنے والد گرامی کی زیر تربیت علمی و روحانی تعلیم حاصل کی‘ آپ اپنے والد کے تصحیح جانشین ثابت ہوئے آپ مسند ارشاد کے صحیح اہل تھے۔ آپ نے آستانہ کی خدمات سرانجام دیں۔ غریبوں‘ مسکینوں اور بیواؤں کی دستگیری کی اور رشد و ہدایت کے سلسلہ کو آگے بڑھایا‘ مدارس قائم کئے اور صحیح معنوں میں درویشوں کی طرح زندگی گزاری۔ عشق رسولؐ میں گم سنت مطہرہ کا نمونہ اور سالکین کے لئے مشعل راہ تھے۔ آپ کے بعد آپ کے صاحبزادے خواجہ محمد اسحاق اویسیؒ جن کی ولادت 1920ء اور وصال 1975ء میں ہوا نے اس مسند کو سنبھالا آپ نے تمام دینی علوم برصغیر کے نامور علماء سے اور اپنے والد سے حاصل کئے۔ آپ نے آستانہ عالیہ چینڈ پور شریف کے ساتھ ساتھ موڑ کھنڈا (اویس نگر) کو دینی اور روحانی تعلیمات سے روشن کیا اور وہاں بھی درس قائم کر کے دین کی آبیاری کی۔ آپؒ ایک باوقار اور حسن و جمال کا پیکر تھے۔ ان ظاہری خوبیوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے باطن کو ایمان کی روشنی اور عشق مصطفیؐ سے روشن سینہ عطا کیا تھا۔ آپؒ کا خطاب ہزاروں لوگ نہایت عقیدت و محبت سے سنتے اور اپنی زندگی دین مصطفیؐ کی ترویح اشاعت کے لئے وقف کرتے۔ آپ نے بھی اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مساجد کی تعمیر اور مدارس میں دینی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا جن سے فارغ التحصیل حفاظ‘ قرأ اور عالم دین دینی مشن کی اشاعت میں مصروف عمل ہیں۔ آپؒ بلند اخلاق اور اعلیٰ سیرت و کردار کے مالک تھے جس کا احترام بلاامتیاز تمام مسالک کے افراد کرتے۔ 1975ء میں آپ کی وفات کے بعد اس مسند کو آپ کے صاحبزادے خواجہ نور الزمان اویسی المعروف چن پیر نے سنبھالا‘ آپ نے اپنے اپنے آباؤاجداد کے دینی مشن کے ساتھ ساتھ فلاحی مشن کو بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ ۔۔