کراچی چیمبر نے فنانس بل کے سیکشن 108اے بی کو مسترد کردیا

Jun 14, 2019

کراچی(کامرس رپورٹر)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی ) کے صدر جنید اسماعیل ماکڈا نے فنانس بل 20190-2020کے سیکشن108 AB کے تحت’’ ٹرانزیکشن انڈر ڈیلرشپ ارینج منٹس ‘‘کا حوالہ دیتے ہوئے شرائط کو مسترد کردیا ہے جو کہ کسی مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں کاروباری ادارے تباہ ہو کر رہ جائیں گے۔ایک بیان میں جنید ماکڈا نے کہا کہ سیکشن 108اے بی کے تحت سیلز ٹیکس ایکٹ 1990کے تھرڈ شیڈول میں موجود تمام مصنوعات یا پھر بورڈ کی جانب سے تجویز کی گئی دیگر مصنوعات جو سپلائرز ایسے ڈیلرز حضرات کو ڈیلرشپ معاہدے کے تحت مہیا کر رہے ہیں جو رجسٹرڈ نہیں اوران کے نام فعال ٹیکس گزاروں کی فہرست میں بھی موجود نہیں ایسی صورت میں ڈیلرز سے طے شدہ مارجن کا 75فیصد سپلائرز کو اپنی آمدنی میں شامل کرنا ہوگا۔ مزید براں اس سیکشن کو فعال بنانے کی غرض سے تیار کنندہ کی قیمت فروخت کے 10فیصد کوڈیلرز کا مارجن تصور کیا جائے گا جو سراسر رجسٹرڈ افراد اور فائلرز کے ساتھ کھلی ناانصافی ہے جو باقائدگی سے اپنی قومی ذمے داری کو پورا کرتے چلے آرہے ہیں۔ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ سیکشن108 AB کے تحت ایک شخص ڈیلرشپ ارینج منٹس کے تحت ڈیلرز کے ساتھ سیلز ٹیکس ایکٹ1990کے تھرڈ شیڈول میں درج یا دوسری دیگر مصنوعات سپلائی کرتا ہے جو سیلز ٹیکس ایکٹ 1990کے تحت رجسٹرڈ نہیں اور اس آرڈیننس کے تحت ایکٹیو فہرست میں ظاہر نہیں ہوتے تو ڈیلرز کے 75فیصد مارجن کے برابر رقم اس شخص کی آمدنی میں شامل کی جائے گی جو کسی قسم کی سپلائی کررہاہے۔اس کے علاوہ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ اس سیکشن کی کارروائی کے مقاصد کے لیے تیارکنندگان کی قیمت فروخت کے10فیصد کو ڈیلرز کے مارجن کے طور پر تصور کیا جائے گا جو رجسٹرڈ افراد اور فائلرزکے ساتھ سراسر ناانصافی ہے جو باقاعدگی سے اپنی قومی ذمہ داریوں کو پورا کررہے ہیں۔جنید ماکڈا نے زور دیا کہ اس طرح کے اقدامات کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہوں گے کیونکہ اس کے نتیجے میں کاروباری لاگت میں نمایاں اضافہ ہوگا اورکاروبار کرنے کو آسان بنانے کے عمل میں رکاوٹ کا باعث بنے گا۔انہوں نے کہاکہ ایک طرف ہم پہلے ہی ودہولڈنگ ایجنٹس اور کلیکٹرز کہلا ئے جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف اب ایسا لگتا ہے کہ پالیسی ساز ٹیکس احکامات نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کا کام بھی ہم سے لینا چاہتے ہیں جو کہ درحقیقت فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا کام ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ اور بہت سے اناملیز پارلیمنٹیرینز کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں جنہیں فنانس بل کی منظوری دینے سے پہلے اس قسم کی غیر قانونی اقدامات کا مفصل جائزہ لینا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہاکہ ایف بی آر کے ساتھ یہ امر سجھ سے بالا تر ہے کہ کاروباری اداروں کو ودہولڈنگ اور ٹیکس کی ادائیگی کے لیے سہولتیں دی جائیں گی۔ یہ کاروباری اداروں کے لیے مشکلات پیدا کررہے ہیں جن کو ٹیکس حکام کا کام بھی کرنا پڑتا ہے اور اضافی بک رکھنے کے اخراجات بھی برداشت کرتے ہیں اس کے بعد انہیں ٹیکس حکام کی جانب سے ہراساں کرنے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے کہاکہ بہتر یہ ہوگا کہ اگر یہ فرائض انجام دیے جائیں تو ٹیکس حکام کی طرف سے اس اضافی خدمت کے عیوض کاروباری اداروں کو کچھ معاوضہ دیا جائے۔انہوں نے ایف بی آر پر زور دیا کہ فنانس بل 2019-20کے سیکشن108 AB کے تحت شرائط پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے واپس لے جس کی وجہ سے تاجروصنعتکار برادری میں تشویش پائی جاتی ہے۔جنید ماکڈا نے کہاکہ کراچی چیمبر فی الحال پورے فنانس بل کا جائزہ لے رہاہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی رائے لی جارہی ہیں نیز مختلف اناملیز کی نشاندہی بھی کی جارہی ہے جو جلد ہی ایف بی آر کو پیش کی جائیں گی اور ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینے کی درخواست کی جائے گی کیونکہ اس قسم کے کاروبار مخالف اقدامات پر عمل درآمد سے کئی صنعتیں اپنی بقا قائم نہیں رکھ سکیں گی۔

مزیدخبریں