فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں آرمی چیف کا مادر وطن کی حفاظت کی مکمل استعداد رکھنے اور بھرپور تیار ہونے کا ٹھوس پیغام
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ماہ فروری کے دوران بھارتی جارحیت کا دندان شکن جواب دینے پر فوج کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج مادر وطن کی حفاظت کرنے اور کسی بھی خطرہ کا جواب دینے کیلئے بھرپور تیار ہے اور اس کام کی استعداد بھی رکھتی ہے۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے جی ایچ کیو راولپنڈی میں دو روزہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپریشن ردالفساد کی کامیابیوں کا تسلسل جاری رہے گا۔ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں خطہ کے حالات‘ قومی سلامتی کے ماحول‘ درپیش چیلنجوں اور ممکنہ جوابی حکمت عملی کا جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر فارمیشن کمانڈرز نے ملک کی خدمت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ اس حوالے سے ہر ممکن کوشش جاری رکھی جائیگی۔ کانفرنس میں پاک فوج کے تمام جنرل افسران نے شرکت کی اور ملک و قوم کی خدمت کیلئے ہر قدم اٹھانے کا عزم ظاہر کیا۔
اس ملک خداداد کو شروع دن سے ہی جن چیلنجوں سے نبردآزماء ہونا پڑا اور پڑوسی ملک بھارت کی شکل میں جس موذی دشمن کا سامنا ہوا‘ اسکے تناظر میں عساکر پاکستان کی اہمیت بھی روٹین کے پرامن معاشروں کی افواج سے کہیں زیادہ بڑھ گئی اور یہ حقیقت ہے کہ عساکر پاکستان نے ملک کی سلامتی اور اندرونی استحکام کے حوالے سے ہر چیلنج کے مقابل قابل فخر کردار ادا کرتے ہوئے سرخروئی کی منزل حاصل کی ہے۔ بے شک عساکر پاکستان کی بنیادی ذمہ داری ملک کی سرحدوں کے تحفظ کی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کی سلامتی کو چاروں جانب سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ بھارت تو قیام پاکستان کے وقت سے ہی ہماری آزادی اور خودمختاری کیخلاف خبث باطن رکھتا ہے جو پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی سازشوں میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے جبکہ پاک افغان سرحد اور پاک ایران سرحد کی جانب سے بھی ہمیں اکثر اوقات کشیدہ ماحول کا سامنا رہتا ہے۔ اس طرح ملک کی چاروں سرحدوں پر مسلح افواج نے چوکنا رہ کر دفاع وطن کے تقاضے نبھانے ہوتے ہیں اور ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خدا کے فضل و کرم‘ قومی اتحاد و یکجہتی اور خود اپنی مہارت و مشاقی اور بے پناہ صلاحیتوں کی بدولت عساکر پاکستان ہمیشہ سرخرو ہوئی ہیں۔
ہمارے لئے یہ صورتحال بھی بلاشبہ فخر انبساط کا باعث ہے کہ عساکر پاکستان نے بیرونی چیلنجوں کے مقابل دفاع وطن کی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر عدم استحکام پیدا کرنے کی ملک دشمنوں اور انکے ایجنٹوں کی سازشیں بھی ناکام بنانے کیلئے آئین کے تقاضے کے مطابق ہمیشہ ٹھوس اور مؤثر کردار ادا کیا ہے اور ملک کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشیں کرنیوالے نادیدہ عناصر کو سرحدوں پر بھی اور ملک کے اندر بھی دھول چٹائی ہے۔ یہ امر واقع ہے کہ عساکر پاکستان کی حربی‘ دفاعی صلاحیتوں کی پوری دنیا قائل ہے اور اسی بنیاد پر اقوام متحدہ کی امن مشن فورس میں سب سے زیادہ تعداد پاکستان کے فوجی جوانوں اور افسران کی ہے جو مختلف ممالک میں شورشوں پر قابو پانے اور امن بحال کرنے کی کارروائیوں میں ہمیشہ مستعدی اور مشاقی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی سرانجام دیکر سرخرو ہوتے اور بیرون ملک پاکستان کا سر فخر سے بلند کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کو اپنی سلامتی اور خودمختاری کے حوالے سے سب سے زیادہ خطرات اپنے پڑوسی بھارت سے ہی لاحق ہیں جس نے قیام پاکستان کے وقت ہی ایک سازشی منصوبے کے تحت ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور پھر اس خودمختار ریاست میں اپنی فوجیں داخل کرکے اسکے بڑے حصے پر اپنا تسلط جمالیا۔ عساکر پاکستان بے سروسامانی کے باوجود اس وقت بھی دشمن کو دندان شکن جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتی تھیں تاہم انکے انگریز کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی نے بھارتی فوج سے کشمیر کا قبضہ چھڑانے کیلئے بانی ٔ پاکستان قائداعظم کے احکام کی تعمیل سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اس معاملہ میں صرف اپنے برطانوی فوجی سربراہ کے احکام کی تعمیل کے پابند ہیں۔ اگر جنرل گریسی قائداعظم کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے پاکستانی افواج بھی کشمیر میں داخل کر دیتے تو بھارت کا طاقت کا نشہ اسی وقت ہرن ہوجاتا اور جس طرح اروناچل پردیش میں بھارت کو چینی فوج کے جوابی اقدام پر ہزیمت و پسپائی کا سامنا کرتے ہوئے نامراد واپس لوٹنا پڑا تھا اسی طرح کشمیر میں بھی بھارتی فوج کو ہزیمت اٹھانا پڑتی۔ اس طرح کشمیر کو متنازعہ بنانے کی صورت میں پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی سازشی منصوبہ اسی وقت خاک میں مل جاتا جبکہ بھارت کو کشمیر پر تسلط جمانے کے بعد ہی پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشیں پروان چڑھانے کا نادر موقع ملا جس نے بعدازاں کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی پرکاہ کی حیثیت نہ دی۔ پاکستان کیخلاف جارحانہ عزائم بھی بڑھالئے جو پاکستان پر مسلط کی گئی ستمبر 65ء کی جنگ کی صورت میں پاکستان کیخلاف جارحیت پر منتج ہوئے مگر عساکر پاکستان نے جارح بھارت کو ہر محاذ پر پسپا ہونے پر مجبور کیا اور دفاع وطن کی ذمہ داریوں میں سرخروئی حاصل کی۔
بھارت نے پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی نیت سے ہی دسمبر 71ء میں پاکستان پر دوبارہ جنگ مسلط کی جس میں اس نے اپنی پروردہ عسکری تنظیم مکتی باہنی کے ذریعے پاک فوج کیخلاف نفرت انگیز مہم چلوائی اور ایسے حالات پیدا کردیئے کہ پاکستان کو بھارت کے آگے سرنڈر کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ وہ وقت پاکستان‘ اہل پاکستان اور عساکر پاکستان کیلئے بلاشبہ انتہائی کٹھن وقت تھا مگر پاکستان اس چیلنج سے بھی آبرومندی کے ساتھ عہدہ برأ ہوا اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی دانشمندی اور ڈپلومیسی والی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر نہ صرف بھارت کی قید سے عساکر پاکستان کے جنگی قیدی بنائے گئے 90 ہزار جوانوں اور افسران کو آزاد کرایا بلکہ بھارتی قبضے میں جانیوالے پاکستانی علاقے بھی اس سے چھڑوالئے۔
بھارت نے اسکے بعد بھی پاکستان کے ساتھ دشمنی ترک نہ کی اور سقوط ڈھاکہ کی طرح باقیماندہ پاکستان کو بھی تاراج کرنے کے خواب دیکھنے لگا۔ اسی مقصد کیلئے بھارت نے خود کو ایٹمی قوت بنایا اور پاکستان کیخلاف آبی دہشت گردی کا بھی آغاز کر دیا جبکہ سرحدوں پر یکطرفہ جارحانہ کارروائیاں کرنا بھی اس نے اپنا وطیرہ بنالیا۔ امریکی نائن الیون کے بعد بھارت کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشیں پروان چڑھانے کا مزید موقع ملا جس کے تحت اس نے پاکستان کے اندر بالخصوص بلوچستان میں اپنی ایجنسی ’’را‘‘ کا نیٹ ورک قائم کرکے پاکستان کو دہشت گردی کے ذریعے اندرونی طور پر عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کارروائیاں شروع کیں جبکہ ہر دہشت گردی کا ملبہ بھی اس نے پاکستان پر ڈالنا اپنا وطیرہ بنالیا۔ اسی سازشی منصوبہ بندی کے تحت بھارت نے فرقہ واریت‘ علاقائیت اور لسانی بنیادوں پر بھی پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کو دہشت گردی کیلئے استعمال کیا۔ یہ پاکستان کیلئے بلاشبہ انتہائی کٹھن وقت تھا جس سے عہدہ برأ ہونے کیلئے قومی اتفاق رائے کے ساتھ عساکر پاکستان نے جنوبی وزیرستان‘ سوات‘ مالاکنڈ‘ دیر‘ چترال میں دہشت گردوں کیخلاف اپریشنز کا آغاز کیا جن میں سرخروئی حاصل کرکے شمالی وزیرستان اور ملک کے دیگر حصوں میں بھی اپریشن ردالفساد کا آغاز ہوا۔ اگر آج ملک میں دہشت گردی کا ناسور جڑ سے اکھڑا ہوا نظر آرہا ہے تو اس میں عساکر پاکستان کے بے مثال کردار کا ہی عمل دخل ہے۔
عساکر پاکستان نے بلاشبہ جان جوکھوں میں ڈال کر سرحدوں پر بھی اور ملک کے اندر بھی دفاع وطن کے تقاضے نبھائے ہیں جس کے دوران انہیں قیمتی جانی اور مالی نقصانات بھی اٹھانا پڑے ہیں مگر انہوں نے دفاع وطن کا عہد نبھا کر دکھایا ہے۔ ہماری سکیورٹی فورسز آج بھی اسی جذبے کے ساتھ ملک کے اندر دشمن کے ایجنٹ دہشت گردوں سے نبردآزماء ہیں اور سرحدوں کی حفاظت کیلئے بھی ہمہ وقت مستعد و چوکنا ہیں۔ بھارت کی جنونی مودی سرکار نے رواں سال کے آغاز ہی میں پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنے جارحانہ عزائم کی انتہاء کی اور اسے کھلم کھلا چیلنج کیا جانے لگا اور پھر 26 فروری کو کنٹرول لائن پر فضائی دراندازی کا ارتکاب بھی کرلیا گیا جس کے جہازوں نے بالاکوٹ میں پے لوڈ گرایا اور رفوچکر ہوگئے۔ 27 فروری کو جب طاقت کے زعم میں بھارت نے دوبارہ فضائی دراندازی کی کوشش کی تو پہلے سے چوکس پاک فضائیہ کے دستے نے بھارتی جہازوں کو فضا میں ہی اچک لیا اور دو جہازوں کو پلک جھپکتے میں مار گرایا جبکہ اسکے ایک پائلٹ کو زندہ گرفتار کرلیا گیا۔ اس بھارتی ہزیمت کے پوری دنیا نے نظارے دیکھے اور عساکر پاکستان کی حربی دفاعی صلاحیتوں کی داد دی۔
یہ امر واقع ہے کہ ہمارے وطن عزیز کی ایٹمی ٹیکنالوجی بھی کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے مضبوط ہاتھوں میں مکمل محفوظ ہے اور ملک کی سرحدوں کے دفاع کیلئے بھی عساکر پاکستان اپنے کمانڈر انچیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں جذبے سے سرشار اور ہمہ وقت تیار ہیں۔ یہ ایسی سیسہ پلائی دیوار ہے جسے توڑنا دشمن کیلئے عملاً لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہوگا۔ پوری قوم کو اپنے وطن کی محافظ عساکر پاکستان پر فخر اور مکمل اعتماد ہے جو آج بھی دفاع وطن اور ہر شہری کی جان و مال کی حفاظت کی خاطر بے بہا قربانیاں دے رہی ہیں۔ گزشتہ روز جنوبی وزیرستان بم دھماکہ میں ایف سی کے دو اہلکار وطن اور اہل وطن کی حفاظت کے جذبے سے سرشار ہوکر ہی شہید ہوئے ہیں۔ قوم ایسی سربلند عساکر پاکستان کی قربانیاں بھلا کیسے فراموش کرسکتی ہیں۔