وفاقی حکومت کا دوسرا بجٹ اعدادوشمار کاروایتی گورکھ دھندہ یا حقیقی عوام دوست بجٹ؟
وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے پی ٹی آئی حکومت کا دوسرا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ 3437 ارب روپے کا خسارہ کا بجٹ ہے جس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ ان کی بجٹ تقریر میں مجوزہ بجٹ کے پیش کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق بجٹ کا مجموعی حجم 7294.9، ارب روپے ہے جو رواں مالی سال کے بجٹ کے حجم سے کم ہے اور ملک کی تاریخ میں پہلی بار قومی بجٹ کا حجم گزشتہ سال کے حجم سے کم ہوا ہے۔ مجوزہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہیں کیا گیا اور یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کو تنخواہوں اور پنشن کی مد میں کوئی ریلیف نہیں ملا، مجوزہ بجٹ کے مطابق آئندہ مالی سال سود اور قرضوں پر 2946 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے جبکہ اعلیٰ تعلیم کیلئے 64 ارب روپے اور ترقیاتی بجٹ کیلئے 1324 رب روپے مختص کئے گئے ہیں اسی طرح بجٹ میں پی ڈی ایس پی کی مد میں 650 ارب روپے اور طبی آلات کی خریداری کیلئے 71 ارب روپے رکھے گئے ہیں،جبکہ غریب خاندانوں کیلئے 150 ارب اور ایمرجنسی فنڈ کے لئے100 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
وزیر صنعت وپیداوار نے اپنی بجٹ تقریر میں بتایا کہ آئندہ مالی سال میں دو ہزار دو سو 223 ارب روپے کے غیرملکی قرضے حاصل کئے جائیں گے۔ ان کے بقول آئندہ مالی سال کے بجٹ میں حکومتی آمدنی کا تخمینہ ایف بی آر کی جانب سے محصولات کی وصولی کی صورت میں 4963 ارب روپے اور نان ٹیکس آمدنی کی مدمیں 1610 ارب روپے کا لگایا گیا ہے۔ بجٹ میں بیرونی وسائل سے 810 ارب روپے حاصل ہونے کی توقع ظاہر کی گئی ہے اور آئندہ مالی سال کیلئے بجلی کی سبسڈی میں 77 ارب روپے کی کمی تجویز کی گئی ہے۔ بجٹ میں بھاری فیسیں لینے والے تعلیمی اداروں پر 100 فیصد سے زائد ٹیکس تجویز کیا گیا ہے جبکہ ٹیکس دہندگان کیلئے سکول فیس پر ٹیکس کی شرط ختم کردی گئی۔ مجوزہ بجٹ میں سو ارب روپے بجلی اور گیس کے موخر شدہ بلوں کیلئے رکھے گئے ہیں اور ریسٹورنٹس اور ہوٹلز پر ٹیکس ختم کردیا گیا ہے جبکہ درآمدی پولیسٹر اور سٹیشنری سمیت 18 ٹیرف لائنز کی پانچ سو کے قریب آئٹمز پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ بجٹ میں شناختی کارڈ پر خریداری کی حد پچاس ہزار روپے سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کر دی گئی ہے۔ اسی طرح کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 25 ارب اور سیلز و انکم ٹیکس کی مد میں 20 ارب روپے کا ریلیف فراہم کیا گیا ہے جبکہ شادی ہالزمیںتقریبات پر ایڈوانس انکم ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔ بیرسٹر حماد اظہر کے بقول وزیراعظم آفس کے اخرات میں ریکارڈ 21 فیصد کمی کی گئی ہے۔ انہوںنے اپنی بجٹ تقریر کے دوران بجٹ کے اہداف پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ قومی معیشت کرونا کے باعث مشکلات کا شکار ہے اور معاشی بحران ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ قومی اسمبلی کے بعد مجوزہ قومی بجٹ گذشتہ روز سینٹ میں بھی پیش کر دیا گیا۔
ویسے تو ہر بجٹ کو عوام الناس ہی نہیں، اقتصادی ماہرین کی جانب سے بھی اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور بجٹ پیش کرنے والی ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ اعداد و شمار کی بنیاد پر عوام کو مطمئن کیا جائے، اس تناظر میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے اور اس میں نقائص و مضمرات ڈھونڈ ڈھونڈ کر منتخب ایوانوں میں اور عوام کے سامنے لائے جاتے ہیں چنانچہ بجٹ اجلاس کے موقع پر حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کو اپنی اپنی سیاست چمکانے کا خوب موقع ملتا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے لئے بجٹ اس لئے چیلنج بنتا ہے کہ پی ٹی آئی سابقہ حکمرانوں کی کرپشنوں اور قومی دولت و وسائل کی لوٹ مار کو اجاگر کر کے اورکرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل اور ریاست مدینہ جیسے فلاحی معاشرے کے قیام کے بلند بانگ دعوؤں کے باعث وفاقی اور صوبائی اقتدار کا مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اس لئے روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے بے انتہا مسائل کے حل کے لئے عوام کی پی ٹی آئی حکومت سے زیادہ توقعات وابستہ ہوئیں۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی حکومت کا پہلا قومی بجٹ عوام کے لئے مایوس کن رہا جس میں نہ صرف عوام کے غربت مہنگائی کے مسائل کے حل کا کوئی راستہ نہ نکلا۔بلکہ نئے ٹیکسوں کے نفاذ اور مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ سے عوام کے مسائل مزید بڑھ گئے جس سے عوام میں پیدا ہونیوالا اضطراب حکومتی گورننس کو چیلنج کرتا نظر آیا۔ اس تناظر میں دوسرے قومی بجٹ میں پی ٹی آئی حکومت کو مزید چیلنجز درپیش تھے کیونکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کرونا وائرس نے ہماری قومی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا موقع فراہم نہیں کیا اور اس کی حالت مزید دگرگوں ہونے سے ملک میں عملاً کسادبازاری کے حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس وقت ملک میں جس سرعت کیساتھ کرونا وائرس پھیل رہا ہے اور اس کے متاثرین اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اس کے پیش نظر حکومت مکمل لاک ڈاؤن پر مجبور ہوئی تو کاروبار زندگی بند ہونے سے عوام کے بھوکوں مرنے کا اندیشہ تقویت حاصل کرے گا چنانچہ غیر یقینی کی اس فضا میں حکومت کے لئے عوام کو ریلیف دینے والا بجٹ بنانا انتہائی مشکل مرحلہ تھا۔ یقینا اسی تناظر میں حکومت کو ریکارڈ خسارے کا بجٹ پیش کرنا پڑا اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے سے بھی گریز کرنا پڑاجس سے حکومت مزید عوامی اضطراب اور اپوزیشن کی غیض و غضب والی مزاحمتی تحریک کی زد میں آ سکتی ہے۔ تاہم بجٹ میںنئے ٹیکس لگانے سے گریز کر کے حکومت نے عوام کو روز افزوں مہنگائی میں ریلیف دینے کی ضرور کوشش کی ہے ۔ اگر پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں خاطر خواہ کمی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ گئے جو یقینا مہنگائی میں کمی والے ثمرات ہونگے تو پھر کسا د بازاری والے حالات میں عوام دوست بجٹ پیش کرنا یقینا اس حکومت کا بڑاکارنامہ بن جائے گا۔