میرے ’’مرشد خاص ‘‘ مجاہد ختم نبوت آغا شورش کاشمیری اکثر کہا کرتے تھے کہ سیاست دان کے ہاتھ میں رحم کی لکیر نہیں ہوا کرتی ۔ یہ ان کی طویل سیاسی زندگی کا نچوڑ تھا۔ آج کے سیاسی دوست کل کے دشمن ہو سکتے ہیں۔ دو دشمنوں کو سیاست دوست بننے پر مجبور کردیتی ہے پاکستان کی سیاست میں میاں نواز شریف نے عروج وزوال دیکھا ہے تیسری بار وزیر اعظم بننے کا اعزاز بھی صرف نواز شریف کو حاصل ہوا ہے۔ میں بھی نصف صدی کی سیاست کا طالبعلم ہوں۔ پچھلے تین عشروں سے زائد میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے ’’قربت اور فاصلوں ‘‘ بڑے قریب سے دیکھا ان کے درمیان ہونے والی ’’ناراضیوں ‘‘ اور ’’صلح صفائی ‘‘ کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں ۔ جب میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیا ن فاصلے بڑھ گئے تو میاں نواز شریف کے قریبی حلقوں نے انہیں ’’اقتدار انجوائے ‘‘ کرنے کا طعنہ دیا اور کہا گیا کہ چوہدری نثار علی خان پر میاں نواز شریف کا کچھ زیادہ ہی قرض ہے جس پر چوہدری نثار خان نے جواباًً کہا کہ اگر ’’قرض ‘‘ کا حساب کتاب ہی کرنا ہے تو پھر میاں نواز شریف کی طرف میرا کچھ زیادہ ہی قرض نکلے گا ۔ خیر’’ناراضی‘‘ اور’’ خوشی غمی‘‘ کا تعلق ختم ہونے کے باوجود دونوں نے کبھی ایسی بات نہیں کہی جس سے دونوں کے درمیان ’’راز داری ‘‘ کا بھرم ختم ہوا ہو۔ چوہدری نثار علی خان کو اس بات کا قلق ہے کہ 34سالہ رفاقت کے بعد ان سے میاں نواز شریف سے وفاداری بارے سوالات کئے گئے ۔میاں نواز شریف اور ان کے درمیان کوئی بڑا اختلاف نہیں تھا جس کے باعث دونوں کے درمیان اتنی زیادہ دوریاں بڑھ جاتیں ۔ میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان اس قدر گہری دوستی تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے 80فیصد فیصلے چوہدری نثار علی خان کی مرضی سے ہوا کرتے تھے لہذا مسلم لیگ (ن) میں میاں نواز شریف کی آشیر باد حاصل کرنے کے لئے چوہدری نثار علی خان کی ’’گڈ بک ‘‘ میں ہونا ضروری ہوتا تھا پھر میاں نواز شریف کے اقتدار کو زوال آنے کے بعد تیزی دونوں کے درمیان تعلقات کار میں اس حد تک کشیدگی پیدا ہو گئی کہ میاں نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاسوں کے شرکاء کی فہرست سے چوہدری نثار علی خان کا نام خارج کر دیا گیا۔ دلچسپ امر یہ ہے میاں نواز شریف کے سپریم کورٹ سے نا اہل قرار دئے جانے کے بعد چوہدری نثار علی خان وزیر اعظم ہائوس میںمیاں نواز شریف کے پاس گئے کہا کہ میں آج اپنا دل صاف کر کے آپ کے پاس آیا ہوں میں آپ کے ساتھ کھڑا رہوں گا ۔ چوہدری نثار علی خان پنجاب ہائوس میں میاں نواز شریف کی زیر صدار ت ہونے والے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے ان کی موجودگی میں میاں نواز شریف کے جی ٹی روڈ کی بجائے موٹر وے کے ذریعے لاہور جانے کے پروگرام کو حتمی شکل دی گئی اور یہ طے پایا کہ جب میاں نواز شریف چکری پہنچیں گے تو چوہدری نثار علی خان لاہور تک خود ان کی گاڑی ڈرائیو کرکے لے جائیں گے لیکن چوہدری نثار علی خان کے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ’’ہارڈ لائنر ‘‘ نے لاہور جانے والے جلوس کا روٹ تبدیل کرا دیا ۔ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان سیکیورٹی کے پیش نظر جی ٹی روڈ کی بجائے موٹر وے کے ذریعے لاہور جانے کے حق میں تھے یہ کوئی ایسااختلاف نہیں تھا جو ختم نہ کیا جا سکتا پھر جب میاں نواز شریف کا جلوس فیض آباد کے راستے مری روڈسے گذراتو چوہدری نثار علی خان نے ان کا استقبال نہیںکیا۔ پھر پارٹی کے اندر چوہدری نثار علی خان کے مخالفین نے اس معاملہ کو ’’کیش‘‘ کرایا۔ دلچسپ امر یہ ہے اس کے باوجود کچھ زیادہ نہیں بگڑا تھا جاتی امراء میں میاں نواز شریف ’’مہمان خاص‘‘ (چوہدری نثار علی خان ) کا انتظار کیا جارہاتھا۔ ایک دو روز قبل میاں نواز شریف کی جانب سے چیدہ چیدہ صحافیوں کے اعزاز میں دی جانے والی ضیافت میں ایک اخبار نویس کے سوال کے جواب میں غالباًً پرویز رشید نے چوہدری نثار علی خان کے بارے میں کچھ ایسے ریمارکس دئیے جس کے بعد چوہدری نثار علی خان نے جاتی امراء میں میاں نواز شریف سے ملاقات کا پروگرام ہی منسوخ کر دیا ۔ یہی وہ ’’ٹرننگ پوائنٹ‘‘ ہے جب میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان اختلافات میں اضافہ ہو گیا ۔ اب وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ میرے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب ہم میں میاں شریف نہیں رہے وہ زندہ ہوتے تو کسی جرات نہیں تھی کہ میاں نواز شریف کو میرے ساتھ اس قسم کا رویہ اختیار کرنے کی اجازت دیتے ۔ جب اسلام آباد کی ممتاز شخصیت حاجی نواز کھوکھر کی رہائش گاہ پر پاکستان مسلم لیگ(ن) کی بنیاد رکھی گئی تو اس وقت اسلام آباد میں کوئی ہوٹل یا کوئی شخص مسلم لیگ (ن) کا کنونشن منعقد کرنے کے لئے جگہ دینے کے لئے تیار نہ تھا۔ حاجی نواز کھوکھر کی رہائش گاہ پر 15،16مسلم لیگی رہنمائوں میں سے میاں نواز شریف کے مسلم لیگ (ن) کی صدارت کا تاج سجانے کے لئے راہ ہموار کرنے والوں میں چوہدری نثار علی خان پیش پیش تھے۔ چوہدری نثار علی خان نے مجھے بات بتائی کہ 34سالہ سیاسی رفاقت کے آخری 4 سال میں میرے لئے وہ نواز شریف نہیں تھا۔ وہ اپنے طرز عمل سے مجھے وزیر اعظم ہونے کا احساس دلاتے رہتے تھے۔ جب میاں نواز شریف کو ’’نا اہل ‘‘ قرار دیا جا رہاتھا انہوں نے بہت پہلے کہہ دیا تھا میاں نواز شریف اور کسی کو وزیر اعظم بنائیں یا نہ بنائیں۔ انہیں وزیر اعظم نہیں بنائیں گے۔ میں اپنے لیڈر سے غداری کا سوچ نہیں سکتا تھا لیکن کوئی غلط کام مجھ سے کروا نہیں سکتا۔ میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز جب چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کرتی تھیں تو وہ ان کو اپنا آئیڈل قرار دیتی تھیں پھر چچا اور بھتیجی کے درمیان ’’قیادت ‘‘ کے ایشو پر ایسا اختلاف پیدا ہوا کہ چوہدری نثار علی خان میاں نواز شریف سے بہت دور ہو گئے کیوں کہ انہوں نے ٹیکسلا میں ایک پریس کانفرنس میں مریم نواز کو پارٹی کے صدر کے طور پر قبول نہ کرنے کا اعلان کر کے ان کے پارٹی صدر بننے کی راہ میں رکاوٹ ڈالی۔مسلم لیگ (ن) میں میاں شہباز شریف ہی واحد شخصیت رہ گئے تھے جو نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان صلح کرا سکتے تھے لیکن وہ بھی ناکام ہو گئے ۔ نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان صلح کرانے کا آخری موقع بیگم کلثوم نواز کی وفات پر فاتحہ خوانی اور میاں نواز شریف کی عیادت تھا لیکن چوہدری نثار علی خان اپنی وضع قطع کے لیڈر ہیں وہ اپنے میڈیکل چیک اپ کے لئے لندن بھی گئے لیکن وہاں بھی میاں نواز شریف کی عیادت نہیں کی ۔ میں ان شا اللہ بہت جلد میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان ہونے والی ’’لڑائیوں اور ناراضیوں ‘‘ پر قلم اٹھائوں گا ۔
نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے اختلافات
Jun 14, 2020