قومی معیشت اور زراعت کے لئے پانی ایسے ہی ہے جیسے رگوں میں خون دوڑتاہے۔ ہمارے ملک میں آنے والا پانی زیادہ تر دریائوں کے ذریعے آتا ہے اور یہ دریا بھارت سے پاکستان کی طرف آتے ہیں۔بھارت نے تقریباً سارے دریائوں پر ڈیم بنا رکھے ہیں اور پانی کے پاکستان میں بہائو کو کنٹرول کرتا ہے۔ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور اس سے ہمیں کبھی خیر کی توقع نہیں ہوتی۔ جب پاکستان کو پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے تو بھارت پانی روک لیتاہے اور جب ہمارے ملک میں سیلاب آ رہے ہوتے ہیں تو بھارت مزید پانی چھوڑ دیتاہے۔ مقصد اسکا یہ ہے کہ پاکستان میں زراعت تباہ حال رہے۔ زمینیں بنجر رہیں اور ہماری معیشت کا براحال ہو جائے۔ ہماری مشکل یہ ہے کی ہمارے ہاں پانی ذخیرہ کرنے کے لئے جھیلیں اور ڈیم نہیں بنائے گئے ورنہ بارش کا پانی جمع کرنے کے علاوہ دریائوں کا فالتو پانی بھی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے جو بوقت ضرورت استعمال کیا جائے۔پانی کے ان ذخائر کی وجہ سے سیلابوں میں بھی خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔ ڈیم بنانا ہماری قومی مجبوری بن چکی ہے۔ اس سے پانی حاصل ہو نے کے علاوہ ہم اپنی فصلیں بہتر بنا سکتے ہیں۔انڈس ریورسسٹم اتھارٹی (IRSA) کے اعداد و شمارکے مطابق پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان ہر سال تقریباً 21 بلین ڈالر کا نقصان اٹھاتا ہے۔ہرسال 29 ملین ایکٹر فٹ پانی کسی استعمال میں آئے بغیر ہی سمندر میں گر جاتا ہے۔ سینٹ کے پالیسی فورم کی نشست کے دوران IRSA نے بتایا کہ پانی کے حالیہ بحران سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو فوری طور پر منگلاڈیم جتنے بڑے کم ازکم تین ڈیموں کو ضرورت ہے۔IRSA نے یہ بھی بتایا کہ صفائی کے ناقص نظام کی وجہ سے موجودہ ڈیموں کی کارکردگی بھی دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے اور ایک دن آئے گا جب نئے ڈیموں کی تعمیر اور پرانے ذخائر کی صفائی ستھرائی کے بغیر ہمارا جینا دو بھر ہو جائے گا۔ اسی طرح آئی ایم ایف، یواین ڈی پی اور کئی دیگر ادارے ہمیں پانی سے متعلق پیش آنے والے خطرات سے گاہے گاہے مطلع کرتے ہیں۔ان اداروں نے انتباہ کیا ہے کہ اگر حالات اسی طرح چلتے رہے اور ہم نے کوئی پیش رفت نہ کی تو 2040 تک پاکستان دنیا میںپانی کے لحاظ سے غریب ترین ملک بن جائے گا۔ دنیا بھر کے اداروں اور ماہرین کے مشوروں سے قطع نظر ہماری منصوبہ بندی میں پانی کی اہمیت اجاگر نہیں ہو سکی۔ ہمارے ملک کے سیاستدان بھی اپنی سیاسی مصلحتوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں جسکی وجہ سے ملک کا سب سے اہم منصوبہ"کالا باغ ڈیم" آج تک نہ بن سکا۔ پاکستان میں پانی اور زراعت سے متعلق ماہرین بھی اپنا مقدمہ صحیح طور پر پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں یا پھر ان میں اتنی اہلیت ہی نہیں ہے کہ پانی کے مسئلے کہ جو کہ ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ٹھیک طریقے سے ارباب اختیار کے آگے رکھ سکیں۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے جسکی کم وبیش70فیصد آبادی کا انحصار زراعت پرہے۔ اگر پانی نہیں ہوگا تو ہمارے ملک کی آبادی کی اکثریت کی معاشی حالت پر اسکے برے اثرات مرتب ہونگے ۔ ہر ذی شعور انسان سمجھ سکتا ہے کہ پانی کا مسئلہ پاکستان کیلئے کس قدر اہمیت کا حامل مسئلہ ہے ۔سابق چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جناب ثاقب نثار نے جون 2018ء میں ایک ازخود نوٹس لیتے ہوئے دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا حکم صادر کیا اور اس کیلئے ایک فنڈ بھی قائم کیا جس میں عوام نے دل کھول کر رقوم جمع کرائیں ۔ وزیراعظم عمران خان نے کرسی صدارت سنبھالتے ہی پانی کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے ملک میں ڈیم بنانے کی اہمیت پر زور دیا ۔انہوں نے واٹر کونسل کا اجلاس طلب کیا اور پاکستان کے اس سب سے بڑے مسئلے کو حل کرنے کے احکامات صادر کئے ۔بھارت کو پاکستان کی یہ پیش رفت کہاں ہضم ہو سکتی تھی لہٰذا بھارت نے اب یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا نہیں بلکہ بھارت کا حصہ ہے اور پاکستان اس علاقے میں ڈیم تعمیر نہیں کر سکتا۔ اس کے بر عکس چین جو کہ پاکستان کا اچھے اور برے حالات کا پارٹنر ہے اس نے ڈیم کی حمایت کرتے ہوئے اس میں پورے تعاون کا یقین دلایا ہے اور بھارت کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیم کی تعمیر سے خطے میں خوشحالی آئے گی جو سب کیلئے فائدہ مند ہے ۔یہ بھارت کی ہی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھا کہ عالمی بینک اور ایشئن ڈویلپمنٹ بینک جیسے مالیاتی اداروں نے منصوبے پر سرمایہ کاری کرنے سے اجتناب کیا ۔ بہر حال 13مئی2020ء کو دیا میر بھاشا ڈیم بنانے کا معاہدہ پاکستان اور چین کے درمیان طے پا گیا ہے ۔ چین کی طرف سے پاور چائنہ کمپنی اور پاکستان کی طرف سے FWOمعاہدے کے رکن ہیں ۔منصوبے پر 442بلین روپے خرچ ہو نگے جس میں ڈیم کی تعمیر، ڈائیوریشن سسٹم، ڈیم تک پہنچنے کا پل اور پاور ہائوس کی تعمیر شامل ہیں۔ منصوبے سے 4500میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی ۔یہ منصوبہ 2028ء تک مکمل کیا جائے گا۔ اس ڈیم میں 3ملین ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے کی اہلیت ہوگی ۔ ہمیں اس ڈیم کے علاوہ بھی بہت سے ڈیم بنانے ہونگے تاکہ پاکستان کی پانی کی ضروریات میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آئے ۔ دیامیر بھاشا ڈیم کا افتتاح تین مرتبہ ہوچکا ہے ۔ پہلی دفعہ 1998ء میں میاں نواز شریف دوسری دفعہ2006ء میں جنرل مشرف اور تیسری دفعہ 2011میں یوسف رضا گیلانی نے ڈیم کا افتتاح کیا لیکن نامعلوم مجبوریوں کی وجہ سے ہر دفعہ منصوبہ ناکام ہوگیا ۔ ہمارے پاس چوتھی دفعہ منصوبے کی ناکامی کی گنجائش نہیں ہے۔امید کی جاتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی یہ کوشش ضرور کامیاب ہوگی اور ڈیم پر کام جلد از جلد مکمل کیا جائے گا ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ بھارت سفارتی سطح پر اس منصوبے کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی پراجیکٹ کو نقصان پہنچانے کی بھرپور کوشش کرے گا ۔ لہٰذا اس کی سیکیورٹی پر بھی پورا دھیان دینا ہوگا ۔ جس طرح سی پیک کی سیکیورٹی کیلئے فوج کے الگ ڈ ویژن بنائے گئے ہیں اس طرح ڈیم کی حفاظت کیلئے بھی عملی اقدامات کرنے ہونگے تاکہ دشمن کے ہر ناپاک ارادے کا سدباب کیا جاسکے ۔ مزید برآں منصوبے کو جلد از جلدمکمل کیا جانا چاہیے تاکہ ملک میں زراعت کی ترقی ، پانی اور بجلی کی کمی کو جلد از جلد پورا کیا جاسکے ۔ یقینادیامیر بھاشا ڈیم دنیا کے بڑے ڈیموں میں شمار کیا جائے گا جوکہ پاک چین دوستی کی عظمت کا ایک اور منہ بولتا ثبوت ہوگا ۔ یقینابھاشا ڈیم ہمارے مستقبل کی ضمانت ہے اور زندگی کی علامت ہے ۔