شوگرانکوائری ،وزیراعظم سنجیدہ تھے مگر!!!

پرانا قصہ ہے دور دراز علاقے میں ایک مدرسہ تھا،ایک اجنبی مسافر کا گزر ہوا ، مولوی صاحب سے پانی پلانے کی درخواست کی ۔ مولوی صاحب نے اپنے حجرے میںمٹکا خالی دیکھا تو مسافر کو انتظار کرنے کا کہہ کر اپنے ایک طالب علم کو بلوایا تاکہ یہ مٹکا پانی کا کنویں سے بھر لائے۔جب بچہ حجرے میں آیا تو مولوی صاحب نے اسے اپنے قریب بلایا اورایک تھپڑ رسید کر دیا اورکہا، ’’یہ مٹکا خالی ہے اسے بھر کر لائو‘‘۔ قریب ہی بیٹھے اجنبی شخص نے سارا ماجرا دیکھا، تعجب ہوا اور استفسار کیا ۔’’ آپ نے بچے کو تھپڑ کیوں رسید کیایہ تو زیادتی ہے۔‘‘مولوی صاحب نے جواب دیا ،’’زیادتی نہیں ہے، یہ بچہ ہے، مستیاں،اٹھکیلیاںکرتے کرتے مٹکا توڑ کر آ گیا تو کیا ہو گاخوامخواہ نقصان ہو جائے گا اور پانی بھی پینے کو نہیں ملے گا۔ اسی لئے نقصان سے پہلے ہی اسے محتاط کر دیا ہے۔‘‘در حقیقت ہمارے وزیر اعظم عمران خان کا بھی کردار مولوی صاحب والا ہونا چاہیئے تھا لیکن ایسا نہیںہوا ان کی حکومت میں ان کے ہی اتحادی اور محسن آٹا ، چینی پر اربوں روپے کی سبسڈی لے کر حکومت کو چونا لگایااور مہنگا بیچ کر عوام کولوٹ رہے ہیںلیکن وزیر اعظم کو تب ہوش آیا جب معاملہ کہاں سے کہاں پہنچ چکا۔وزیراعظم عمران خان کے دور میں جب چینی کی قیمتیں بڑھیں تو انہوں نے پاکستانی عوام سے وعدہ کیا کہ میں اس معاملے کی تحقیق کرائوں گا، اس معاملے کو منظر عام پر بھی لائوں گا اور اس میں ملوث افراد کے خلاف ایکشن لیا جائے گا چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو۔ شہزاد اکبر نے بتایا کہ وزیراعظم کا فیصلہ ہے کہ چاہے کوئی شخص کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اس کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو، وہ مالی طور پر یا باقی کسی طریقے سے کتنا ہی زورآور کیوں نہ ہو، اسے جواب دہی کرنی پڑے، یہی پاکستان تحریک انصاف کا منشور ہے اور یہی وہ مینڈیٹ ہے جو پاکستان کے عوام نے انہیں دیا ہے۔اسے لطیفہ کہوں یا عوام کے ساتھ کھلواڑ پر کھلواڑ کہوں ،وزیراعظم عمران خان نیازی نے شوگر انکوائری کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد جس میں ان کے قریبی دوست، دست راست، محسن ، پی ٹی آئی کا اے ٹی ایم کارڈجہانگیر ترین ، جنوبی پنجاب کے مخدوم خسرو بختیار وبرادرجو کہ حکومت میں ایک ستون کی حیثیت رکھتے ہیں، پنجاب میں اہم اتحادی پرویز الہی، مونس الہی جیسے قربت والے شامل ہیں ،ان کے خلاف کارروائی کی ہدایت کر دی ہے دوسری جانب انکوائری کا سامنا کرنے والوں کا اطمینان قابل رشک ہے کہ رپورٹ کیا پڑھنی تھی کہنا ہے کہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے۔ایسی رپورٹس ، انکوائریز کا کیا فائدہ جب کچھ کر نہیں سکتے ،اپنے محسنوں اور اتحادیوں کو فائدہ دے کر اب انکوائریاں منظر عام پر لا کر عوام کے وقت اور پیسے کا زیاں ہے۔ ستم بالئے ستم کہ وزیر اعظم کی ہدایات یہ ہیں کہ شوگر کارٹلز کے خلاف 1985ء سے اب تک دی گئی تمام سبسڈیز پر ریفرنس بھیجا جائے گا۔پہلے حالیہ معاملہ تو حل کریں کیونکہ چینی توآج بھی 85روپے کلو بک رہی ہے آپ کے نوٹسز، کارروائیوں اورانکوائریز کا خاک فائدہ ہوا عوام کو۔ایسے حکمرانوں اور ایسی حکمرانی سے عوام کو کیا حاصل۔جب چینی کا بحران آیا تو وزیراعظم عمران خان نے فوراً ایک تحقیقاتی کمیشن بنایا،اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ایک ماہ کے دوران چینی کی قیمتوں کے پرکاٹ دئیے جائیں گے اوراپنی پرانی قیمتوں پر فروخت ہونے لگے گی لیکن روایت تو ہمیشہ یہی رہی ہے کہ فوراً انکوائری کمیشن بن جاتے ہیں لیکن ان انکوائریز کو پیچیدہ بنا دیا جاتا ہے اس کی سفارشات پر کوئی عمل نہیں کیا جاتا اور وقت کے ساتھ ساتھ لوگ بھی اس زیادتی کے عادی ہو جاتے ہیں اور اسے بھول جاتے ہیں جو کہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ وزیراعظم اس بارے میں بہت سنجیدہ تھے مگر کس حد تک وہ جہانگیر ترین،مخدوم خسرو بختیار، مونس الہی و دیگر جانتے ہیں لہٰذا انہوں اس کمیشن کی رپورٹ کو بھی پبلک کیا، کئی لوگوں کا خیال تھا کہ اسے عوام کے سامنے نہیں لایا جائے گا لیکن عوام کو ایک پل کے لئے خوش کر دیا، اس کے بعد فرانزک آڈٹ ہوا اور اس پر بھی لوگوں کے شکوک تھے کہ بات شاید اس سے آگے نہیں بڑھے گی کیونکہ شوگر کے شعبے میں بڑے بڑے طاقتور لوگ بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ناصرف مقررہ وقت پر فرانزک آڈٹ ہوا بلکہ اس کی تفصیلات بھی عوام کو بتائی گئیںاوریہ تفصیلات بتانے تک ہی نظر آرہی ہیں کیونکہ معاملے کو مزید طول دیا جارہا ہے ۔وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا ہے کہ کئی لوگوں کا خیال تھا کہ شوگر انکوائری کا یہ معاملہ یہیں رفع دفع ہو جائے گا لیکن ہمارا احتساب اور اس ملک کو آگے لے جانے کا عزم اور عوام کے مفادات کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔اب دیکھنا ہے کہ یہ عوامی مفادات کیسے ہوںگے، عوام کو کتنا ریلیف ملے گا، معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کی طفل تسلیاں کچھ یوں ہیں ،’’ یہ رپورٹ گزشتہ پانچ سال کی سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ شوگر کی صنعت میں اہم کھلاڑی اور افراد بے ضابطگی سے مافیا
کے انداز میں کام کرتے ہیں اور سیاسی اثرورسوخ کے حامل ہیں۔ شوگر انڈسٹری کے لوگ من چاہی زیادتیاں کر رہے تھے، یہ مافیا کی طرح کام کر رہے تھے اور اس میں موجود تمام ہی اہم اور بڑے افراد کسی نہ کسی طرح کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے جس کی وجہ سے فیصلہ سازی پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثرانداز ہو رہے تھے اور اس کا نتیجہ غریب عوام کی جیب سے پیسہ نکالنا تھا چاہے وہ قیمت بڑھا کر ہو، ٹیکس چوری سے ہو یا سبسڈی لے کر اپنی تجوریاں بھرنا تھا۔واجد ضیاء کی انکوائری اور فرانزک رپورٹ کے بعد اب حکومت پورے 29ارب کی سبسڈی کا معاملہ نیب کو بھیج رہی ہے، نیب اس میں فوجداری تحقیقات کرے گا اور ماضی اور حال میں سبسڈی دینے والے جس بھی عہدے پر براجمان رہے ہوں، ان کے خلاف کارروائی کرے گا۔ 15-2014 میں ساڑھے چھ ارب، 16-2015 میں پھر 605ارب، 17-2016 میں وفاقی حکومت نے 20ارب کی سبسڈی دی جبکہ سندھ کی حکومت نے بھی 4.1ارب روپے کی سبسڈی دی تھی کی تحقیقات کرے گااور جب تک تحقیقات ہو گی حکومت اس دوران مزید سبسڈی دے چکی ہو گی۔ پاکستان میں خود احتسابی کی اس کے علاوہ ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔دل دکھتا ہے افسوس ہوتا ہے، حکمران ہوں یا حزب اختلاف عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر عوام ہی کو چونا لگاتے ہیں ، ان کا استحصال کرتے آئے ہیں۔تبدیلی کے نام پر پی ٹی آئی حکومت بنی لیکن بیشتر مہرے کون ہیں سب پر عیاں ہیں وہی ماضی کے کردار۔ انکوئریاں ماضی میں بھی ہو تی رہی ہیں اور آئندہ بھی ہوں گی لیکن طاقتور سیاستدانوں،بیوروکریٹس، ٹیکنو کریٹس کے سامنے عوام بے بس ہیں اور یونہی ہی پستی رہیں گے اور یہ ایک حقیقت طے ہے کہ شوگر مافیا کیخلاف انکوائر ی بجا لیکن وزیراعظم عمران خان کچھ نہیں کر سکتے کیوںکہ ان بیساکھیوں پر ان کی حکومت قائم ہے۔

ای پیپر دی نیشن