اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے امریکی شہری سینتھیا رچی کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست پر سماعت کے دوران فیصلہ محفوظ کرلیا۔ ہفتہ کو ایڈیشنل سیشن جج جہانگیر اعوان نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔ دور ان سماعت ریاست علی آزاد ایڈووکیٹ نے دلائل دیئے کہ ریاست کے پاس نازیبا ٹویٹ کرنے والی خاتون کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار ہے، کوئی بھی جرم ہوتا ہے تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ کارروائی کرے۔ ریاست علی آزاد ایڈووکیٹ نے کہا کہ قائداعظم یا علامہ اقبال کی شان میں کوئی گستاخی کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کون کریگا۔ انہوں نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے چاہنے والے محترمہ پر جانیں نثار کرنے کو تیار ہیں، درخواست گزار پاکستان پیپلز پارٹی اسلام آباد کا صدر ہے اور بلاول بھٹو اس اقدام کی حمایت کرتے ہیں، سینتھیا رچی کے خلاف ایف آئی آر درج ہونی چاہیے اور اس پر دہشتگردی کی دفعات بھی لگائی جانی چاہئیں۔ ریاست علی آزاد ایڈووکیٹ نے کہاکہ جج ارشد ملک ویڈیو سکینڈل کیس میں دہشت گردی کی دفعات کیسے لگا دیا گیا، اس کیس میں درخواست گزار جو خود ملزم ہے اسکی درخواست پر دہشتگردی کی دفعات لگا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سینتھیا رچی کے ٹویٹ کے بعد سوسائٹی میں خوف و ہراس پھیل چکا ہے ہر کوئی خود کو غیرمحفوظ تصور کر رہا ہے۔ ریاست علی آزاد نے کہاکہ ایف آئی اے درخواست گزار کے ایف آئی آر درج کرانے کے حق کو رد نہیں کر سکتا۔ انہوںنے کہاکہ اگر جرم کا ارتکاب ہوا ہے تو ایف آئی اے پابند ہے کہ وہ ایف آئی آر درج کرے۔ چوہدری خانزادہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہم قانون کو حرکت میں لانے کے لئے آئے ہیں ایف آئی اے ایف آئی آر درج کر کے تفتیش کرے۔ جج جہانگیر اعوان نے کہاکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے لواحقین موجود ہیں وہ خود درخواست دائر کیوں نہیں کرتے۔ ریاست علی آزاد نے کہاکہ اگر جرم کا متاثرہ بندہ عدالت میں نہیں آتا تو جو مرضی جرم کرے ہونے دیا جائے گا۔ وکیل ناصر عظیم نے کہاکہ 2011 میں صدر ہاؤس میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور رحمان ملک نے سینتھیا رچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ امریکی شہری کے وکیل نے کہاکہ کہا جا رہا ہے کہ 9 سال تک سینتھیا رچی خاموش کیوں رہیں۔ وکیل سینتھیا رچی ناصر عظیم خان نے کہاکہ سینتھیا رچی چونکہ غیرملکی تھی تو انہوں نے 2011 میں واشنگٹن ڈی سی میں درخواست دی تھی، کیا کوئی ٹویٹ ریکارڈ پر ہے کہ میری موکلہ نے ٹویٹ کر کے محترمہ بے نظیر بھٹو پر الزام لگایا۔ وکیل نے کہاکہ کیا ثبوت ہے کہ ٹویٹ سینتھیا رچی نے کیا، کیا کسی متعلقہ ادارے سے اس کی تصدیق کرائی گئی۔ ناصر عظیم خان نے کہاکہ کوئی خاتون ملک کے وزیراعظم کے خلاف کھڑی نہیں ہو سکتی۔ وکیل نے کہاکہ پر کوئی جانتا ہے کہ سینتھیا رچی بلاگر ہیں اور وہ گیارہ سال سے پاکستان کا اچھا امیج پیش کر رہی ہیں۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہاکہ ایف آئی آر دینے سے پہلے ایف آئی اے انکوائری کرتا ہے، ہماری استدعا ہے کہ اندراج مقدمہ کی درخواست خارج کی جائے۔ وکیل ریاست علی آزاد نے کہا کہ جب تک ایف آئی آر اور انوسٹی گیشن نہیں ہو گی کیسے معلوم ہو گا کہ ٹویٹ درست ہے یا غلط۔ وکیل ریاست علی آزاد نے کہاکہ 9 سال بعد خاتون کا ایمان جاگ گیا ہے اتنا عرصہ وہ کہاں تھی پہلے درخواست کیوں نہیں دی، خاتون ٹی وی چینل پر بیٹھ کر کہہ چکی ہے کہ ٹویٹ میرا ہے اور انکے وکیل عدالت میں انکار کر رہے ہیں۔ وکیل ریاست آزاد نے کہاکہ وہ خاتون دندناتی پھر رہی ہے پورے ملک کا نظام درہم برہم کر دیا ہے تو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔ بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا، امریکی خاتون سنتھیا رچی کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست پر فیصلہ 15 جون کو سنایا جائے گا، ایڈیشنل سیشن جج جہانگیر اعوان 15 جون کو فیصلہ سنائیں گے۔