اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ کرونا نے ساری دنیا میںتہلکہ مچادیا اور پاکستا ن کی معیشت کو بھی نقصان دیا، ہم کوئی بہانہ نہیں کر رہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے، غربت میں اضافہ ہوا، ہم اس لئے قرض نہیں لے رہے کہ ہمیں عیاشی کا شوق ہے، ہم اس طرح نہیں چلنا چاہتے کہ ہمارے خاندان اور ان کے کارخانے اور صنعتیں چلیں بلکہ ہم پاکستانی عوام کو معاشی سرگرمیوں کا محور سمجھتے ہیں اور ہماری کوشش یہ ہے کہ ہم جو کچھ کریں ان کے فائدے کو سامنے رکھ کر کریں۔ حکومت نے ابتدائی 9 ماہ کے دوران بہت اہم کامیابیاں حاصل کیں، جب ہماری حکومت آئی تو قرضوںکا حجم 30 کھرب روپے سے زائد تھا، ریونیو کو سمارٹ طریقے سے بڑھائیں گے، بجٹ پورے سال کے لئے ہے، کرونا کی وجہ سے صورتحال شدید ہوتی ہے تو ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے، شناختی کارڈ کی شرط برقرار ہے صرف لوگوں کی تکلیف دیکھ کر 50 ہزار روپے کی حد کو ایک لاکھ روپے کیا گیا، حکومت کو اس وقت ان لوگوں کی فکر زیادہ ہے جو آمدن کے بغیر ہیں، آئی ایم ایف پاکستان کو حکم نہیں دے سکتا اور نہ پاکستان اتنا تابعدار ہے کہ ہرصورت عمل کرئے، پیٹرولیم ترقیاتی لیوی کا ریٹ30روپے فی لیٹر ہے، نجکاری کی فہرست میں مزید15کمپنیا ں ڈالی ہیں، ماضی کے قرضوںکی واپسی ملک کے گلے میں پڑا تحفہ ہے، اس سال پھر2900ارب روپے واپس کرنا ہیں، قرض لینے کا شوق نہیں، ٹیکس محاصل میں اضافہ نہیں کریں گے توقرضوں کا بوجھ بڑھے گا۔ نوکریاں پیدا کرنے کے لئے 40 سے 50 ارب کی ڈیوٹیز ختم کی ہیں، لوگوں کے لیے ٹیکس ادائیگی کوآسان بنایا جارہا ہے اور ٹیکس لگانے کے بجائے مراعات دینے کوترجیح دی ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی مڈل کلاس کی بہتری کیلئے کی۔ پوائنٹ میں آف سیل پر ٹیکس کی شرح کوکم کیا ہے، تعمیرات کے شعبے میں ٹیکسزکو نصف کردیا ہے اور سیمنٹ پرایکسائز ڈیوٹی میں 25 روپے کمی کی ہے جب کہ امپورٹ پر ود ہولڈنگ ٹیکس کو بھی کم کیا جارہا ہے، مشیر خزانہ نے ان خیالات کا اظہار پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر وفاقی وزیر صنعت حماد اظہر، مشیر تجارت عبد الرزاق دائود، وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز، چیئر پرسن ایف بی آر اور دوسرے اعلیٰ حکام موجود تھے، مشیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کو ابتدائی 2 سال کے عرصے میں 50 کھرب روپے قرضوں کی مد میں ادا کرنے پڑے۔ اختتام پذیر ہونے والے موجودہ مالی سال میں حکومت نے27 سو ارب روپے قرض کی ادائیگی کی گئی اس لیے جو بھی حکومت کی کارکردگی کو جانچنا چاہے اس بات کو مدِ نظر رکھے کہ جب وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کو حصہ دینے کے بعد مجموعی وسائل 20 کھرب روپے بنتے ہیں اور اس کے باوجود ماضی کے قرضوں کی مد میں 27 کھرب روپے ادا کیے گئے۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور حکومت نے فیصلہ کیا کہ اخراجات کو سختی سے کم کیا جائے گا اور پورے سال کے دوران ایسی چیزیں ہوئیں جس کی ماضی میں کبھی مثال نہیں ملتی، سٹیٹ بنک سے ٹکا بھی نہیں لیا گیا اور کوئی کسی بھی ادارے کو ضمنی گرانٹ نہیں دی گئی اس لیے پہلی مرتبہ حکومتی اخراجات آمدنی سے کم رکھے گئے اور پرائمری سر پلس حاصل کیا گیا۔ ہم نے جان بوجھ کر درآمدات کو کم کیا اور درآمد سے جو ٹیکس حاصل ہوسکتے تھے وہ کم ہوئے ورنہ ہماری مقامی معیشت میں ٹیکسز کے بڑھنے کی تعداد 27 فیصد تھی اس کی وجہ سے ہم نے پرائمری سر پلس حاصل کیا۔ جب یہ حکومت آئی اس وقت سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ ملک کے پاس ڈالرز تقریباً ختم ہوچکے تھے اور ہم جو ڈالرز درآمد پر خرچ کررہے تھے وہ برآمد کے مقابلے دگنے تھے اس وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے بلند سطح یعنی 20 ارب ڈالر پر تھا۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 11 سو ارب روپے تھا لیکن 16 سو ارب روپے حاصل کیے گئے جو بہت بڑی کامیابی تھی اور عالمی اداروں نے پاکستان کی کاردکردگی کو سراہا۔ کرونا وائرس سے معیشت کو 3 کھرب روپے کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے، اگر اس بحران آنے سے پہلے والی صورتحال برقرار رہتی تو ہم ریونیو کو 4 ہزار ارب تک پہنچا سکتے تھے۔ کرونا وائرس کوئی بہانہ نہیں ہے یہ ایک حقیقت ہے اور اس سے دنیا بھر کی آمدنی کو 4 فیصد نقصان ہونے کا امکان ہے۔ مشیر خزانہ نے بتایا کہ ایک کروڑ 60 افراد کو نقد رقم فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس میں سے ایک کروڑ سے زائد گھرانوں کو یہ رقم فراہم کی جاچکی ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ میں دگنا اضافہ ہوا لیکن کرونا وائرس آیا اور اس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچا۔ہم ساڑھے 4 ہزار ارب سے لے کر 4 ہزار 700 ارب روپے تک ریونیو کا ہدف حاصل کرسکتے تھے لیکن کرونا بحران کی وجہ سے بمشکل 3 ہزار 900 ارب روپے تک پہنچ سکے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں 7 سو ارب روپے کا نقصان سہنا پڑا۔ کاروبار زندگی معطل ہونے کی وجہ سے نوکریاں کم ہوئیں اور غربت میں اضافہ ہوا اس لیے حکومت نے فیصلہ کیا اس مسئلے سے احسن طریقے سے نمٹا جائے اور محدود ذرائع کے باوجود ہر ممکن گنجائش سے لوگوں کی مدد کی جائے۔ 12 کھرب روپے کا پیکج دیا گیا اور حکومت نے ایک کروڑ 60 لوگوں کو نقد رقم پہنچانے کا فیصلہ کیا جس میں سے ایک کروڑ سے زائد افراد کو پہنچائی جاچکی ہے اور ہر خاندان کے 6 سے 7 افراد کو شمار کیا جائے تو اس طرح آپ 10 کروڑ پاکستانیوں تک پہنچے۔ حکومت نے 2 کھرب 80 ارب روپے کی گندم خریدی تا کہ کسانوں کے پاس پیسہ جائے تو وہ ڈیمانڈ بڑھائیں، یعنی ٹریکٹرز، موٹر سائیکل خریدیں، گھروں کی مرمت کریں تا کہ معیشت میں طلب بڑھے۔ حکومت نے بجلی کے بلز کی ادائیگی کا وعدہ کیا، ساتھ ہی 50 ارب روپے زراعت میں دیئے گئے تا کہ کھاد کی قیمتیں کم ہوں، کارخانوں کو سبسڈی دی گئی اور ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے پے رول اخراجات کا نظام لایا گیا جس سے 6 لاکھ کارخانوں نے فائدہ اٹھایا۔اسی طرح کسی کمپنی کا بنک سے لیے گئے پرنسپل قرض کو ایک سال تک کے لیے مؤخر کیا گیا اور یوٹیلیٹی بلز کے صارفین کے لیے ادائیگی کو 6 ماہ تک کے لیے مؤخر کیا گیا۔ انہوں نے کہا یہ سب فیصلے اس وقت کیے گئے جب حکومت کے پاس پیسے نہیں تھے اور جب تیل کی قیمت کم ہوئی تو حکومت نے یہ نہیں کیا کہ ٹیکسز بڑھا کا جتنا چاہے فائدہ حاصل کرے بلکہ کوشش کی گئی کہ جس قدر ممکن ہو عوام کو مستفید کیا جائے، اس لیے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم کی گئی بلکہ مٹی کے تیل کی قیمت ایک چوتھائی تک کم کی گئیں، انہوں نے کہا کہ یہ جو مالی سال اختتام پذیر ہورہا ہے اس میں بہت اچھی پالیسز کے ذریعے ثمرات عوام تک پہنچائے گئے لیکن اب ہمیں آگے کی جانب دیکھنا ہے۔ سب سے اہم چیز ملکی قرضوں کی واپسی ہے، جس سے ہم چھٹکارا نہیں پاسکتے گزشتہ 2 سالوں کے دوران 50 کھرب روپے واپس کیے گئے اور اس برس ہمیں 29 کھرب روپے کی ادائیگی کرنی ہے اس میں کمی کرنا ہمارے بس میں نہیں نہ اس میں ہمارا قصور ہے۔ مشیر خزانہ نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ یہ 29 کھرب قرضوں کی ادائیگی کے بجائے پاکستانی عوام پر خرچ کیے جائیں ہم چاہیں گے کہ احساس پروگرام کو کئی گنا بڑھادیں لیکن ہمیں قرض کی ادائیگی کرنی ہے اسلیے کوشش کی گئی کہ حکومت کے اخراجات کم کریں جس کے لیے بہت مشکل فیصلے کیے گئے۔ حکومت چاہتی ہے جتنا عوام کو دے سکتی ہے وہ دے اور جتنا کم ٹیکس لے سکتی ہے وہ لے لیکن اگر ہمیں 30 کھرب روپے قرض دینا ہے تو کہیں کٹوتی کرنی پڑے گی۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بھی قرض لے رہے ہیں لیکن ہم قرض اس لیے نہیں لے رہے کہ ہمیں عیاشی کا شوق ہے یا وزیراعظم ہاؤس، ایوانِ صدر کا بجٹ بڑھایا جارہا ہے یا سول حکومت کے بجٹ میں اضافہ کیا جارہا ہے بلکہ ہمارے قرض لینا کا بنیادی مقصد ماضی کے قرضوں کی ادائیگی ہے۔ مشیر خزانہ نے کہ آئندہ بجٹ کی اہم چیزیں یہ ہیں کہ میں ہم نے کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ عوام کرونا بحران کی وجہ سے مشکل میں ہیں اور ہم حکومتی اخراجات کو کم کریں گے اس کے باجود ترقیاتی پروگرام کو بڑھائیں گے جس میں گزشتہ برس ایک کھرب روپے کا اضافہ کیا جس سے یہ ساڑھے 6 سو ارب روپے پر رکھا۔ انہوں نے کہا احساس پروگرام کو بھی مزید بجٹ دیا جائے گا اور 12 کھرب روپے کی پیکج میں سے اگر کچھ رقم بچی تو اسے محفوظ کیا جائے گا تا کہ آئندہ برس استعمال کی جائے۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ اسے ریلیف بجٹ اس لیے کہا جارہا ہے کیوں کہ اس میں سے کئی ٹیکسز کم کیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ 16 سو 23 ٹیرف لائنز یعنی ہزاروں قسم کے درآمدی خام مال پر ڈیوٹی کو ختم کیا جارہا ہے تا کہ کاروبار کی لاگت کم ہو اور لوگ اپنے کاروبار وسیع کرسکیں اور نوکریاں دے سکیں۔ 200 ٹیرف لائنز جس میں خام اور نیم تیار شدہ چند ہزار اشیا موجود ہیں اور اس سے پیکجنگ، ربر، جوتے اور ہوم اپلائنسز کی صنعتوں کو فائدہ ہوگا اس میں ڈیوٹی کو ختم نہیں البتہ کم کیا جارہا ہے۔ انجینئرنگ سیکٹر، کپڑوں، ایل ای ڈی ٹی وی کمبلوں وغیرہ کے لیے 166 ٹیرف لائنز پر ریگولیٹری ڈیوٹیز کو کم کیا جارہا ہے اس سب کا مقصد کاروباری لاگت کم کرنا ہے۔ جس چیز میں کمی کی جارہی ہے وہ ودِ ہولڈنگ ٹیکس ہے اور 10 اقسام کے وِد ہولڈنگ ٹیکس ختم کیے جارہے ہیں اور درآمدات پر عائد وِڈ ہولڈنگ ٹیکس کو ساڑھے 5 فیصد سے کم کرکے ایک اور 2 فیصد تک لایا جارہا ہے۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ کئی ایسے سیکٹرز ہیں جن میں بہت مراعات دی جارہی ہیں اس سلسلے میں تعمیراتی شعبے کو تاریخی پیکیج دیا گیا اور اب کپیٹل گین ٹیکس کو نصف کیا جارہا ہے تاکہ اس شعبے میں نمو اور نوکریاں پیدا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی میں 25 پیسے فی کلو کم کی جارہی ہے اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ بڑے دکاندار مشینی اعتبار سے ایف بی آر سے منسلک ہوں اور جو اس پروگرام میں شامل ہوگا اس کے سیلز ٹیکس کو 14 فیصد سے کم کر کے 12 فیصد کیا جارہا ہے تا کہ پکڑ دھکڑ کرنے کے بجائے لوگوں کو آٹومیشن کے ذریعے ٹیکس ادائیگی کی سہولت دی جائے۔ چونکہ یہ تنقید رہتی ہے کہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر بوجھ نہ آئے اس لیے ہم ٹیکس نیٹ کو اس انداز میں توسیع دینا چاہتے ہیں اور ہاسپٹالٹی سیکٹر میں کم از کم ٹیکس کو ڈیڑھ فیصد سے کم کر کے نصف فیصد کیا جارہا ہے۔اسی طرح کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے کٹس کی درآمدات پر ٹیکس اور ڈیوٹیز کو ختم کیا جارہا ہے جبکہ ٹیکسٹائل اور چمڑے کے دکانداروں کو ان کو پی او ایس میں لانے کے لیے ٹیکس کو 14 سے 12 فیصد کیا جارہا ہے۔ حکومت کا اس بڑے پیمانے پر ریلیف دینے کا مقصد ہے کہ نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں اور حکومت اپنے پاس بھرتیاں کر کے نوکریاں نہیں دے سکتی لیکن نجی شعبے کو مراعات دے کر کرسکتی ہے۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا ہے دوسرا یہ کہ اتنی زبردست مراعات دی جارہی اس کے ساتھ ساتھ تیسری چیز یہ ہے کہ ٹیکس اور ڈیوٹیز سے ہٹ کر کئی ایسے قوانین ہیں جس میں تبدیلی کی جارہی ہیں تا کہ لوگوں کو کاروبار کرنے کے لیے آسانیاں دی جاسکیں۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت پورے سال نگرانی کرے گی جہاں کوئی کمی بیشی نظر آئی وہاں پالیسی ردعمل دیا جائے گاکہ بڑے عالمی مالیاتی ادارے مثلاً آئی ایم ایف، عالمی بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک، اسلامی ترقیاتی بنک ہمارے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نظم و ضبط سے چلنا چاہتے ہیں ہم لوگوں کی جیبوں میں ہاتھ نہیں ڈالتا چاہتے، ہم اس طرح نہیں چلنا چاہتے کہ ہمارے خاندان اور ان کے کارخانے اور صنعتیں چلیں بلکہ ہم پاکستانی عوام کو معاشی سرگرمیوں کا محور سمجھتے ہیں اور ہماری کوشش یہ ہے ہم جو کچھ کریں ان کے فائدے کو سامنے رکھ کر کریں۔انہوں نے اعلان کیا کہ احساس سلسلے کے تحت مزید پروگرام شروع کیے جائیں اور پی ایس ڈی پی میں مزید سکیمیں متعارف کروائی جائیں گی۔ ایف بی آر کے ریونیو ٹارگٹ اس لیے بڑھایا گیا کہ کم از کم ہم کوشش تو کریں آمدن کی اس لیے ہم اضافی ٹیکس نہیں لگارہے اور ٹیکس نیٹ بڑھانا چاہتے ہیں لیکن کوئی چیز یقینی نہیں کیوں کہ معلوم نہیں کرونا وائرس کب تک رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے اندر بچت کی شرح کم ہے، ہم جی ڈی پی کے دس یا بارہ فیصد کے مساوی کولیکٹ کرتے ہیں، اس کا بڑھنا ایک چیلنج ہے، اس سال کرونا کی وجہ سے آگے نہیں جا سکے، تاہم کوشش کریں گے اس کے سوا چارہ نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ فی کس آمدن کیلئے جدو جہد کریں گے مگر اس کے دو طریقے ہیں کہ جی ڈی پی کو بڑھائیں یا آبادی کی افزائش کی رفتار کو کم کریں، ہم ریونیو کو بڑھانا چاہتے ہیں مگر یہ نہیں چاہتے کہ ٹیکس دھند گان پر بوجھ میں اضافہ ہو، اس لئے ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہے، وہ یہ بات اعتماد سے نہیں کہہ سکتے کہ کرونا کا مسلہ کب حل ہو گا اور پاکستان سے چیزیں منگونے والے ممالک میں کب طلب پیدا ہو گی، صوبوں کو اختیار ہے کہ وہ بجٹ جس انداز بنانا چاہیں بنائیں اگر وہ سمجھتے ہے کہ ایف بی آر کا ہدف نہیں ہو سکا تو اس کمی کو سامنے رکھ کر بجٹ بنا لیں، مگر ہماری توقع ہے کہ4900ارب روپے کرلیں گے، انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے ڈائیلاگ چل رہا ہے،اب بجٹ سے فارغ ہوئے ہیں ،اب پروگرام پر توجہ دیںگے ،آئی ایم ایف کی دنیا میں مرکزی حثیت ہے، وفاقی وزیر صنعت حماد اظہر نے کہا کہ موبائل فون پر آرڈی ختم کرنے کیلئے نوٹفیکیشن جاری کر دیا جائے گا،نجی شعبہ نے نوکریاں دینا ہیں ،اس لئے معیشت کو بحال کر رہے ہیں ملک کی ڈوئنگ بزنس ریکنگ مزید بہتر ہو گی، فور ویل وہیکلز کی پالیسی بن رہی ہے۔