کینڈا میں دہشت گرد نے پورے مسلم خاندان کو موت کی نیند سلا دیا

عیشتہ الرّاضیہ پیرزادہ
eishapirzadah1@hotmail.com
 مغربی ممالک میں اسلام کو ایک فوبیا کی شکل میں غیر مسلموں کے سامنے متعارف کروانے کا چلن تیزی سے عام ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر میں اقلیت میں موجود مسلمانوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔ گذشتہ دنوں کینیڈا کے شہر لندن میں ایک مسلمان فیملی منافرت و تعصب کی بھینٹ چڑھ گئی ، 20سالہ حملہ آور نے اپنے گھر کے باہر چہل قدمی کرنے والے پاکستانی نژاد خاندان پر گاڑی چڑھا دی اور چار افراد کو اس کے نیچے بری طرح روند کر مار ڈالا۔یہ کوئی ایک واقعہ نہیں، یہ ایک پورا نیٹ ورک ہے جو دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے تحت نفرت پھیلانے میں سرگرم ہے۔ہم نے اس کی بد ترین مثال نیوزی لینڈ کی مسجد میں ایک غیر مسلم کی نمازیوں پر اندھا دھند فائرنگ کی شکل میں بھی دیکھی۔ اس واقعہ نے انسانیت کو لرزا دیا۔ 
کیا شدت پسند کا لفظ صرف مسلمان کے لیے ہے؟ دہشت گرد کا لیبل ہم فوری طور پر مسلمانوں پر ہی کیوں لگاتے ہیں؟ اپنے آپ کو آزاد خیال مسلمان کہنے والے جو دنیا بھر میں کہیں بھی موجود غیر مسلموں کے لیے آواز بلند کرتے ہیں ان کی آزاد خیالی  اور انسانیت کے لیے آواز بلند کرنے والی سوچ مسلمان اقلیتوں پرظلم و جبر پر کہاں جاتی؟ کیا ایسے لبرلز’’ انتہا پسند لبرلز ‘‘ نہیں کہلائیں گے؟
دنیا یہ کیوں نہیں سوچتی کہ دہشت گرد کسی دوسرے مذہب سے بھی ہو سکتا ہے۔
ابھی چند دنوں قبل ایک پاکستانی فیملی کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے شہر لندن میں گھر کے باہر چہل کر رہی تھی کہ ایک بیس سالہ مقامی شخص نے مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد پر انھیں ٹرک تلے روند ڈالا۔ واقعہ میں چار افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ ایک نو سالہ بچہ شدید زخمی ہوا۔
46 سالہ فزیوتھراپسٹ سلمان افضل، ان کی اہلیہ اور پی ایچ ڈی کی طالبہ 44 سالہ مدیحہ سلمان، نویں جماعت کی طالبہ 15 سالہ یمنیٰ سلمان اور اْن کی 74 سالہ ضعیف دادی شامل ہیں۔
واقعے کے فوری بعد کینیڈا کے وزیراعظم نے رد عمل دیتے ہوئے کہاکہ ’ہم لندن کی مسلم کمیونٹی اور پورے ملک میں موجود مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسلاموفوبیا کی یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ خاموشی سے پنپنے والی یہ نفرت نقصان دہ اور انتہائی شرمناک ہے۔ اسے ختم ہونا ہو گا۔یہ ایک خوش آئند بات کہ کینیڈا کے وزیراعظم نے مسلمانوں کے حق میں درمندانہ بیان دیا۔ 
 واقعے سے اگلے روزکینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ایک اور بیان میں کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ کینیڈا کے بیشتر شہری اس خوف سے واقف نہیں ہیں جو نسل پرستی کے خدشات کا شکار کینیڈین مسلمان محسوس کرتے ہیں۔
جسٹن ٹروڈو نے ہاؤس آف کامنز میں اپنی تقریر میں کہا کہ ’اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ نسل پرستی اور نفرت اس ملک (کینیڈا) میں نہیں ہے تو میں ان کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ہسپتال میں ایک بچے کو ایسے پرتشدد واقعے کی وضاحت کیسے پیش کریں گے؟ آپ کیسے ان خاندانوں سے نظریں ملا کر کہہ سکتے ہیں کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقت نہیں ہے ہاؤس آف کامنز میں اپنی تقریر میں وزیر اعظم ٹروڈو کا کہنا تھا کہ ’جب آپ ایک ایسی مسلمان خاتون سے بات کرتے ہیں جو کہ ایک بس سٹاپ پر کھڑی اس فکر میں ہوتی ہے کہ کوئی اس کے سر سے حجاب کھینچے گا یا اس کو نقصان پہنچائے گا تو وہ آپ کو یہی بتائے گی کہ اسلاموفوبیا حقیقت ہے۔‘اگر آپ ان والدین سے بات کریں گے جو اپنے بچوں کو صرف اس خوف سے روایتی لباس نہیں پہننے دیتے کہ انھیں ہراساں کیا جائے گا، وہ آپ کو بتائیں گے کہ نسل پرستی ایک حقیقت ہے۔
اس واقعہ نے کینیڈا میں بسنے والے مسلمان فیملیز کو اس خوف میں مبتلا کردیا ہے کہ اسلاموفوبیا کا شکار ہونے والی فیملی کی طرح کوئی بھی کہیں بھی ان ہر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ کینیڈا ایک ملٹی کلچرل ملک ہے جہاں تمام مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کی روایات و مذہب کا احترام کرتے ہوئے رہائش پذیر ہے ایسے میں ایسا تعصب  و نفرت کی بنیاد پر واقعہ کینیڈین گورنمنٹ کے لیے فکر کی بات ہے۔
 کینیڈا میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر رضا بشیر تارڑ نے ہم سے حادثے سے متعلق خصوصی گفتگوہے جس پر انھوں نے ہمیں چند اہم حقائق کیساتھ ساتھ پاکستانی ہائی کمیشن کا اپنے شہریوں کی حفاظت پر مبنی اقدامات سے آگاہ کیا ۔
نوائے وقت کو بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ
ہماری حکومت پاکستانی اوورسیز کے لیے واضح پالیسیز رکھتی ہے اور بیرون ملک پاکستانیوں اور پاکستانی نژاد مسلمانوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہم اوورسیز پاکستانیوں کی خوشی اور غمی میں شریک رہیں۔جب ہمیں واقعہ کی خبر ملی تب ہم نے سب سے پہلے اس بات کی تصدیق کی کہ واقعہ کے شہداء واقعی میں پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں؟ تصدیق کے بعد واقعہ کی شکار فیملی کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے کونسل جنرل ٹورنٹو کو جائے وقوعہ پر بھیجا گیا ۔ انھیں  حکومت پاکستان کی  طرف سے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی گئی۔پاکستانی فیملی پر دہشتگردی کا واقعہ فوری طور پر کینیڈین حکومت کے نوٹس میں لایا گیا اور درخواست کی ہے کہ اسے دہشت گردی کے واقعہ کے طور پر لیا جائے۔ جس کے بعد کینیڈا کے وزیراعظم سے لیکر اپوزیشن جماعت تک سب نے حقائق پر سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے اسے دہشتگردی کا واقعہ قرار دیا۔آپ نے سنا ہوگا کہ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی اظہار کیا ہے کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے۔ اس کے علاوہ کینیڈین حکام کی طرف سے حوصلہ افزاء بیانات آئیں ہیں کہ مسلم کمیونٹی کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔وزیر اعظم عمران خان نے اس واقعہ کو بڑے سے بڑے فارم پر اٹھایا ہے کہ اسلاموفوبیا ، مذہبی منافرت کا سدباب ہونا چاہیے۔
 کینیڈا میں مسلمانوں کیخلاف ایک بھی مضبوط آواز بلند ہوتے ہوئے نہیں دیکھی گئی، کینیڈین حکومت اپنے ملک کی مسلم کمیونٹی اور خاص طور پر پاکستانی کینیڈین شہریوں کے تحفظ کیلئے پاکستانی ہائی کمیشن کیساتھ بھرپور تعاون کررہی ہے۔ اس سلسلے میں مسلم کمیونٹی کے حق میں حوصلہ افزا بیانات دیے جارہے ہیں اور اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ ہائی کمشنر رضا بشیر تارڑ نے مزید بتایا کہ وزیراعظم عمران خان اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے بھی کینیڈین حکومت کیساتھ مسلسل رابطے جاری ہیں، کینیڈا کے وزیراعظم نے کلیئر طور پر اس واقعہ کو دہشتگردی کا واقعہ ڈکلیئر کیا ہے۔ اپوزیشن جماعت کنزرویٹو پارٹی کے لیڈر ڈکفورڈ سمیت دیگر کینیڈین رہنماؤں نے بھی حملے کی مذمت کی ہے۔ہائی کمشنر نے پاکستانیوں کے تحفظ کیلئے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا پاکستانی ہائی کمیشن کینیڈا پاکستانیوں کے تحفظ کیلئے ہمیشہ کی طرح بھرپور اقدامات اٹھا رہی ہے، 9 جون کو پاکستانی وزیر خارجہ اور کینیڈین وزیرخارجہ کے درمیان فون پر بات ہوئی، اس سلسلے میں مزید پیش رفت ہورہی ہے۔
 خبر رساں ادارے فیملی کا تعلق لاہور سے بتا رہے تھے جس کی تردید کرتے ہوئے پاکستانی ہائی کمشنر نے نوائے وقت کو اصل حقائق سے آگاہ کیا کہ فیملی کا تعلق بنیادی طور پر لاہور کے بجائے کراچی سے ہے۔جبکہ فیملی کے سربراہ ڈاکٹر سلمان افضل کام کے سلسلے میں لاہور بھی رہائش پذیر رہے۔

ای پیپر دی نیشن