موسیقار استاد ارشاد علی مرحوم کی یاد میں تعزیتی ریفرنس

Jun 14, 2022

 اطہر جاوید صوفی

موسیقی کے حوالے سے پاکستان کی سر زمین ہمیشہ سے زرخیز رہی ہے اس دھرتی نے ایسے ایسے باکمال فنکاروں کو جنم دیا ہے جنھوں نے اپنے فن کے زریعے دنیا بھر میں دھوم مچائی بلکہ اپنے ملک کا نام بھی روشن کیا ایسے ہی ہنر مندوں میں ایک استاد ارشاد علی بھی تھے جو مشکل ترین ساز اکاڈین بجانے میں ثانی نہیں رکھتے تھے پاکستان فلم ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن اور نغمہ ساز گروپ کے اشتراک سے موسیقار استاد ارشاد علی مرحوم کی یاد میں کراچی پریس کلب میں تعزیتی ریفرنس منعقد کیا گیا اس موقع پر مقررین نے اظہارِ خیال کرتے ھوئے کہا کہ ارشاد علی کی موسیقی سے محبت سب پر عیاں ہے انہوں نے کبھی کسی فنکار کی تضیحک نہیں کی بلکہ ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔تنویر آفریدی نے کہا کہ ارشاد علی مرحوم عظیم  مخلص اور محبت کرنے والے انسان تھے موسیقی کی دنیا میں انھوں نے نمایاں کارنامے انجام دیئے  ان کا ثانی اب کوئی نہیں ہے ارشاد علی کے جانے سے موسیقی یتیم ہو گئی ہے۔ تعزیتی اجلاس کی صدارت  قائمقام جی ایم پی ٹی وی امجد حسین شاہ نے کی جبکہ شرکاء میں ارشاد علی کے بھائی خورشید علی، بیٹا غلام عباس ، محبوب اشرف گروپ کے اشرف بھائی، استاد بشیر خان ، کشور اللہ دتہ، گلوکار خادم حسین،گلوکار ہ ، عظمیٰ بیگ ، شازیہ کوثر ، شبانہ کوثر، صدف اقبال، عائشہ اقبال، روزمیری، عروسہ علی، مظہرامرا? بندو خان، منصور ایکو، عباس بھائی، سلمان علوی، غفران، یونس جانی، محمد اسد علی خان ولد فتح علی خان، استاد نفیس خان، محمد علی شہکی اور دنیائے موسیقی سے وابستہ معزز شخصیات نے شرکت کی۔اور مرحوم کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا نغمہ ساز گروپ کی جانب  سے گلوکاراور کمپوزر تنویر آفریدی نے اس تعزیتی ریفرنس کو سجانے میں بہت محنت کی تعزیتی ریفرنس میں موسیقار گھرانے کے متعدد افراد نے شرکت کر کے استاد ارشاد علی سے اپنی محبت کا ثبوت دیا۔ امجد حسین شاہ نے اپنی صدارتی تقریر میں فلم ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن اور نغمہ ساز گروپ کے تنویر آفریدی کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے تعزیتی اجلاس کو موسیقی کی دنیا کی بھرپور نمائندگی قرار دیتے ہوئے کہا آج محسوس ہوتا ہے ہم سب ایک فیملی ہیں اور فیملی کے ممبر کے جانے سے سب افسردہ ہیں۔فلموں  کے لئے استاد ارشاد علی نے بہت کامیاب نغمے دیئے ہیں انہیں کبھی کسی نے غصہ میں نہیں دیکھا۔ ہمیشہ خوش اخلاقی کو اپنایا تھا ، ارشاد علی بھارت میں بھی مقبول تھے مرحوم موسیقی کی دنیا کے لیجنڈ تھے۔ استاد بشیر خان نے کہا کہ ارشاد علی آنکھوں سے ضرور اوجھل ہوئے ہیں مگر دلوں میں موجود ہیں  میوزیشن بننے کے لئے ایک عمر درکار ہوتی ہے پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے مگر ملک اگرعزت افزائی ہو تواس کا مزہ ہی اور ہے محمدعلی شہکی نے کہا کہ مرحوم میرے بینڈ کا حصہ تھے ہم نے بہت کام کیا ہے مرحوم بنیادی طور پر موسیقی کے بہترین فنکار تھے ان کے ہاتھ میں سر تھا قابل افسوس بات یہ ہے کہ فنکار آخری ایام سرکاری میں اداروں کی طرف کیوں دیکھتے ہیں ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مرحوم کے بھائی خورشید علی نے کہا کہ مجھے ارشاد علی کا بھائی ہونے پر فخر ہے میری ساری زندگی مرحوم کے ساتھ گزری انھوں نے موسیقار دیبو بھٹاچاریہ کے ساتھ فلم کی موسیقی میں ساتھ کام کیا مرحوم کے بیٹے غلام عباس نے کہا آج دنیائے موسیقی کے عظیم فنکاروں نے میرے والد کے تعزیتی اجلاس میں شرکت کر کے ہمارا سر بلند کردیا۔ تنویر آفریدی نے حق دوستی ادا کردیا ہے۔ اسد علی نے کہا کہ ان کا ثانی نہیں ہے اخلاق بشیر نے کہا فنکار زندہ رہتا ہے اپنے فن کے حوالے سے کشور اللہ دتہ نے کہا کہ ہر انسان کے دو روپ ایک پروفیشنل دوسرا ذاتی ان کے دونوں روپ محبت سے بھرپور تھے۔ عباس بھائی نے کہا کہ 45سال کی رفاقت رہی ہے پی ٹی وی کے لئے ہم نے مل کر بہت کام کیا ہے۔ یونس جانی نے کہا کہ فنکار طبقہ اپنے آخری ایام میں کسمپرسی کا شکار ہوجانے اس کا تدارک ضروری ہے وزارت کلچر فنکاروں کی مالی امداد کرتی ہے وہ بہت کم ہے سالانہ 60ہزار ملتے ہیں (پانچ ہزار ماہانہ) رواں سال 15000دیئے ہیں ابھی 45000باقی ہیں مگر کب ملیں گے غیر یقینی صورتحال ہے۔ شازیہ کوثر اور شبانہ کوثر نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ دنیائے موسیقی یتیم ہو گئی ہے ہم ایک عظیم فنکار سے محروم ہو گئے ۔مظہرا مرا بندو خان نے کہا کہ ارشاد علی کو اپنے کام پر اتنااعتماد تھا کہ وہ بغیر ریہرسل کے پرفارم کرتے تھے فنکاروں میں باہمی حسد اور چپقلش سے نقصان ہوا ہے۔گلوکارہ روز میری  عروسہ علی اور عظمیٰ بیگ نے کہا کہ ہم نے ارشاد علی سے بہت سیکھا آج ہم یتیم ہو گئے وہ ہمارے روحانی باپ کا درجہ رکھتے تھے مرحوم خاندانی اور نفیس انسان تھے۔ اشرف بھائی نے کہا کہ ارشاد علی نے اپنے فن کی ابتداء محبوب اشرف گروپ کے ساتھ کی تھی بہت یادیں ہیں اپنے کام سے مخلص تھے۔ سلمان علوی نے کہا کہ 25سال کا ساتھ رہا۔ ڈیجیٹل کا دور ہے جبکہ ہماری روایتی انسٹرومیٹس بجانیوالوں کی کمی ہوتی جارہی ہے۔ استاد نفیس خان نے کہا کہ وہ کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے کسی فنکار سے غلطی ہوجائے تو اس کی رہنمائی کرتے تھے دیگر مقررین میں سلیم شریف، غفران، عمران جاوید، صدف اقبال، صائمہ اقبال، کرم عباس، منصور ایکو، سعید احمد نے بھی خراج عقیدت پیش کیا۔ عبدالوسیع قریشی نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ اطہر جاوید صوفی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور روایتی موسیقی کے انسٹومیینٹ پرفارم کرنے والوں کے نام سے ایوارڈ کا اجراء کیاجائے۔ تنویر آفریدی نے کہا کہ ارشاد علی کو تمام راگوں پر عبور حاصل تھا امجد شاہ نے شوریل پیش کی۔ قبل ازیں قاری حامد محمود نے تلاوت ونعت پیش کی۔اس موقع پر موسیقی کے شعبے سے وابستہ افراد بڑی تعداد میں موجود تھے۔

مزیدخبریں