آرمی چیف کا دورۂ بیجنگ تزویراتی شراکت داری کے لیے اہم ہے

Jun 14, 2022

پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات خطے میں کئی خرابیوں پر قابو پانے کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ خاص طور پر بھارت کی طرف سے خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کے لیے مسلسل جو کوششیں کی جاتی ہیں ان کا  سدِباب پاکستان اور چین کے مضبوط تعلقات کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ ان دونوں ممالک کے مابین ویسے تو دوستی کا رشتہ بہت گہرا ہے تاہم ان کے درمیان دفاعی اور تزویراتی شراکت داری ایسا معاملہ ہے جو خطے کے امن و سلامتی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ کئی اہم مواقع پر یہ دونوں ملک ایک دوسرے کا ساتھ دے کر یہ ثابت کرچکے ہیں کہ ان کا ایک دوسرے سے تعلق کتنا مضبوط ہے اور وہ اسے کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا حالیہ دورۂ بیجنگ اس تعلق اور شراکت داری کو مزید مضبوط اور مستحکم بنانے کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔
9 سے12 جون تک پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کو ساتھ لے کر آرمی چیف نے بیجنگ کا دورہ کیا اس کے دوران وفد نے چینی فوج اور دیگر سرکاری محکموں کے اعلیٰ حکام سے وسیع پیمانے پر بات چیت کی۔ دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ مسلح افواج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے اس دورے کی جو تفصیلات جاری کی ہیں ان کے مطابق 12 جون کو اہم ترین اجلاس ہوا جس میں پاکستان کی جانب سے وفد کی سربراہی جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی جبکہ چین کی جانب سے وفد کی قیادت چین کے سینٹرل ملٹری کمیشن کے وائس چیئرمین جنرل ژانگ یوشیا نے کی۔ اجلاس کے دوران دونوں اطراف نے بین الاقوامی اور علاقائی سلامتی کی صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا ۔ پاکستان اور چین نے مشکل وقت میں اپنی تزویراتی شراکت داری کا اعادہ کیا اور باہمی دلچسپی کے امور پر نقطۂ نظر کا باقاعدہ تبادلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ فریقین نے مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لیے رابطوں میں تسلسل سمیت تربیت، ٹیکنالوجی، انسداد دہشت گردی اورفوجی تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج کے وفد کا یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی اور تزویراتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے ایک طرف دونوں ملکوں کے مابین تعلقات مضبوط ہوں گے تو دوسری جانب بھارت سمیت کئی ممالک کو واضح طور پر یہ پیغام ملے گا کہ خطے میں معاملات کو بگاڑ کی طرف لے کر جانا اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا وہ سمجھتے ہیں۔ پاکستان اور چین کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں جن حوالوں سے تعاون کو بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے ان سے دونوں ملکوں کی استعداد میں اضافہ ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ انھیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر یہ دیکھنے کا بھی موقع ملے گا کہ خطے میں طاقت کے توازن کو قائم رکھنے کے لیے کن پہلوؤں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور کون سے عناصر مسائل پیدا کررہے ہیں جن پر قابو پانا ضروری ہے۔ آنے والے دنوں میں دونوں ممالک اس تعاون سے مستفید ہوں گے۔
پاکستان اور چین کی دوستی کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ پہاڑوں سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے اور ان دونوں کے درمیان ملٹری ڈپلومیسی اور ملٹری ٹو ملٹری تعاون ہمیشہ بلندیوں کو چھوتا رہا ہے۔ اس بات کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جنرل قمر جاوید باوجوہ چینی صدر شی جن پنگ کی دعوت پر چین کا دورہ کرنے والے واحد فوجی سربراہ ہیں۔ علاوہ ازیں، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) بھی ایک ایسا منصوبہ ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی مضبوطی اور باہمی انحصار کی دلیل ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے جہاں ایک جانب دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعاون بڑھے گا وہیں دوسری طرف خطے میں خوشحالی کے امکانات بھی بڑھیں گے۔ یہ منصوبہ صرف پاکستان اور چین کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہونے کی اہلیت رکھتا ہے اسی لیے کئی ممالک کو یہ منصوبہ ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ اس کو ختم کرانے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں اور اس سلسلے میں غلط معلومات اور افواہ سازی کا کام بھی عروج پر ہے لیکن پاکستان اور چین دونوں اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے پُر عزم ہیں۔
خطے کے دونوں اہم ترین ممالک یعنی پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات صرف ان کی مضبوطی اور استحکام کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان تعلقات سے وہ تمام ممالک بھی مستفید ہوں گے جنھیں بھارت کی طرف سے مسلسل مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی اور عسکری قیادت ہر محاذ پر چین سے تعلقات کو مستحکم بنانے کے لیے کوشاں دکھائی دیتی ہے جس کا ایک ثبوت حالیہ ساتویں سی پیک میڈیا فورم کے موقع پر بھی دیا گیا جس کے دوران قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے سی پیک کو پاکستان کا بہترین منصوبہ قرار دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ان تمام مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں جن کی وجہ سے خطے میں امن و سلامتی کا قیام خطرے میں پڑا ہوا ہے اور ان مسائل میں بھارت کے غیر قانونی زیرِ قبضہ جموں و کشمیر کا مسئلہ سرفہرست ہے۔

مزیدخبریں