وزیراعظم شہباز شریف کے ابتدائی ہفتوں کے کارنامے

Jun 14, 2022

پاکستان میں بلیم گیم اور طعنہ زنی کا بازار عروج پر رہتا ہے ۔ جیسے ہی میاں شہبازشریف وزیراعظم منتخب ہوئے ،تو انکے خلاف پروپیگنڈے کی بوچھاڑ کردی گئی۔کسی نے آوازہ کسا کہ میاں شہباز شریف مشکل فیصلے کرنے سے گھبرارہے ہیں۔ کسی نے اس مرد ِ آہن کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ اس میں قوت فیصلہ کی کمی ہے ۔ میاں شہبا زشریف یہ سب کچھ حوصلے و تحمل سے سنتے رہے۔ انہوں نے انتہائی بردباری سے کام لیااور اپنی ساری توجہ فکروتدبر پر مرکوز رکھی۔ وہ جانتے تھے کہ سابق حکومت جاتے جاتے ان کے راستے میں کئی بارودی سرنگیں نصب کرگئی ہے ۔ جس میں آئی ایم ایف کے معاہدے سے روگردانی سرفہرست تھی۔ 
میاں شہباز شریف کی گورننس کا جائزہ لیتے وقت یہ پیش نظر رکھنا ضروری ہوگا کہ ان کی پارٹی تن تنہا حکومت میں نہیں ہے ، بلکہ وہ ایک مخلوط حکومت کے سربراہ ہیں۔ انہیں ہر فیصلہ کرنے اور کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اپنے اتحادیوں سے مشورہ کرنا لازمی تھا۔یہ کام پل صراط کو عبور کرنے سے زیادہ کٹھن ہے۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اتحادیوں کے درمیان اعتماد کے رشتے مضبوط ہوچکے ہیں۔ لہٰذا انہیں فیصلہ سازی میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔ انہوں نے ہر لمحے پر اتحادیوں سے مشاورت جاری رکھی۔ اور یوں آگے بڑھنے کیلئے ان کیلئے راستے ہموار ہوتے گئے ۔
وزیراعظم نے سب سے پہلے غریب آدمی کے مسائل کے حل کو ترجیح دی اور کم سے کم تنخواہ 25ہزار روپے مقرر کردی۔ اس سے غریب طبقے کو آسودگی کااحساس ملا۔ سابق حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تو اضافہ کیا تھا، مگر پنشنرز کو انہوں نے فراموش کررکھا تھا۔ وزیراعظم نے پنشنرز کیلئے بھی 10فیصد اضافہ کردیا، اس طرح معاشرے کے اس پسے ہوئے طبقے کیلئے بھی زندگی گذارنا آسان ہوگیا۔ سابق حکومت آئی ایم ایف کے سلسلے میں نئی حکومت کو ایک امتحان میں ڈال گئی تھی اور جاتے جاتے پٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں سبسڈی دینے کا اعلان کردیا،جوکہ آئی ایم ایف کے معاہدے کی واضح خلاف ورزی تھی۔ اس سے آئی ایم ایف کا پاکستان پر سے اعتماداٹھ گیا کہ یہ پاکستانی مذاکرات کے دوران وعدے وعید کچھ اور کرتے ہیں ، اور ملک میں واپس جاکر اسکے برعکس عمل کرتے ہیں۔ 
وزیراعظم شہباز شریف کو اعتما دکے اس بحران پر بھی قابو پانا تھا، اور یہ ایک انتہائی مشکل مرحلہ تھا، مگر انہوں نے پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھا اور مشکل فیصلے کرڈالے۔ جس سے آئی ایم ایف کا پاکستان پر اعتماد بحال ہوگیا اور اب نہ صرف آئی ایم ایف کا معاہدہ برقرار رہے گا،بلکہ ورلڈ بینک ، ایشین بنک، اسلامی بنک اور دیگر راستے بھی کشادہ ہوجائیں گے ۔ 
سابق حکومت نے کوشش کرکے پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار بناڈالا تھا، امریکہ اور نیٹو ممالک سے بلاوجہ لڑائی مول لے تھی ۔حالانکہ پاکستان کی برآمدات کا بڑا حصہ یورپی یونین کو جاتا تھا، جہاں سے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دیا گیا تھا۔ سابق حکومت کی غیردانشمندانہ خارجہ پالیسی کی وجہ سے خدشہ تھا کہ تجارت کے سارے سرچشمے ہی بند نہ ہوجائیں۔
 وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے اس خطرے کو ٹالنے کی بھرپورکوشش کی ہے ۔ سابق حکومت نے اسلامی ممالک کو ناراض کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ سعودی عرب جیسے محسن ملک کو بھی چکمہ دیکر اسلامی ممالک کا نیا متوازی بلاک بنانے کی کوشش کی گئی۔ جس سے پاکستان اور سعودی عرب کے رشتوں میں دراڑیں پڑگئیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے حکومت سنبھالتے ہی پہلا دورہ سعودیہ کا رکھا، عمرہ کی سعادت بھی حاصل کی اور سعودی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کی ۔ 
پاکستان کے دوست ممالک میں ترکی اور متحدہ عرب امارات کو بے حد اہمیت حاصل ہے ۔ وزیراعظم نے ترکی کا تفصیلی دورہ کیا اور وہاں باہمی تجارت اور صنعتی تعلقات کے فروغ کیلئے کئی معاہدوں پر دستخط کئے گئے ۔ ترکی سے واپسی پر وزیراعظم نے متحدہ عرب امارات کا ہنگامی دورہ کیا ،جہاں وہ امارات کے خلیفہ النہیان کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے اور اہل پاکستان کی طرف سے امارات کی حکومت کو ہمدردی کے جذبات پہنچائے۔ انہوں نے اس موقع کو دوطرفہ تعلقات میں استحکام لانے کیلئے بھی استعمال کیا۔ 
وزیراعظم عوامی جمہوریہ چین کے بے حد مداح ہیں۔ وہ چین کو دوست ملک نہیں، بلکہ برادر ملک کا درجہ دیتے ہیں۔ انہیں پاک چین تعلقات کی نزاکتوں کا مکمل احساس ہے۔ چین نے ہر آڑے وقت میں آگے بڑھ کر پاکستان کا ساتھ نبھایااور پاکستان کی ترقی و استحکام میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا۔ سابق حکومت نے سی پیک کے منصوبوں کو معطل کررکھا تھا، وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ اس منصوبے کو اولین ترجیح دی جائے اور پاکستان میں چینی کارکنوں کی حفاظت اور سیکورٹی کیلئے ہرممکن اقدامات کئے جائیں ۔ وزیراعظم نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے دور میں سی پیک کے درجنوں منصوبے مکمل کئے تھے ، انہیں اس امر پر بجا طور پر فخر ہے کہ وہ لوڈشیڈنگ کے اندھیروں سے ملک و قوم کو نجات دلانے میں کامیاب ہوگئے تھے، تاہم سابق حکومت کی نااہلی کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کا عذاب پھر ملک پر مسلط ہوگیا ہے ، جسے دور کرنے کیلئے وزیراعظم ایک بار پھر سرگرم عمل ہیں۔ 
پاکستانی سیاست میں افہام و تفہیم پیدا کرنے کیلئے وزیراعظم نے تمام پارٹیوں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے ۔ گذشتہ دور میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر انہوں نے ’’چارٹر آف اکانومی ‘‘ کی بات کی تھی، اب وہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو ’’ چارٹر آف پاکستان ‘‘ پر متحد کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک کے سنگین مسائل کا حل مل جل کر نکالا جائے اور اس سلسلے میں انہوں نے ’’گرینڈ ڈائیلاگ ‘‘کی پیشکش کی ، اب سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ ان کی اس مثبت پیشکش پر مثبت ردعمل کا ثبوت اور جواب دیں۔ 
پاکستان کی معیشت اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے ۔ جس کی بڑی وجہ اشیائے تعیش کی درآمد ہے ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے فوری طور پر لگژری آئٹمز کی درآمد پر پابندی لگادی ہے ۔ حکومت نے اپنے ابتدائی سات ہفتے کی کارکردگی کا جائزہ اس لئے قوم کے سامنے پیش کیا کہ میڈیا اور اپوزیشن کی طرف سے بار بار یہ سوالات اٹھائے جارہے تھے کہ حکومت نے اب تک کیا کیا ہے ۔ اس پر حکومت نے منطقی طور پر جواب دیا کہ ہم اپنے سات ہفتوں کی کارکردگی کا جائزہ پیش کررہے ہیں ،سابق حکومت اپنے چار سالوں کا حساب دے۔ حکومت نے سات ہفتوں کے اختتام پر سب سے بڑا اور نمایاں کارنامہ یہ انجام دیا ہے کہ اس نے انتہائی متوازن اورمثالی بجٹ پیش کیا ہے، جسے ملک کے تمام طبقوں نے سراہا ہے ۔ اس طرح حکومت اپنے ابتدائی سات ہفتوںمیں عوام کی عدالت میں سرخرو ٹھہری ہے۔ سالوں کا سفر چند ہفتوں میں طے کرنے کا سفر کوئی وزیراعظم شہباز شریف سے سیکھے۔

مزیدخبریں