ہمارا خیال تھا کہ ذوالفقارعلی بھٹوکی طرح وہ خود اخبار پڑھتے ہیں! اسی طرح جب ایک تسلسل کیساتھ انہوں نے کہنا شروع کیا۔ ’’میں علی بابا چالیس چوروں کو نہیں چھوڑونگا‘‘ تو عرض کیا ’’علی بابا تو ایک غریب لکڑ ہارا تھا۔ چالیس چور اسکی جان کے درپے تھے۔ ایک شعر جو وہ ہزار بار رگید چکے ہیں۔ اسے بھی بدلنے کا مشورہ دیا۔ انکے دربار میں شعرا کی فوج ظفر موج ہے۔ یہ فرض ملک الشعرا کا بنتا ہے کہ وہ موقع کی مناسبت سے شعر لکھ کر دیں۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں اچھا گلا دیا ہے۔ ہو سکے تو عطا اﷲ شاہ بخاری کی طرح شعر ترنم سے پڑھیں سامعین پر یقیناً خوشگوار اثر پڑیگا۔ خان صاحب کو بھی کئی مشورے دئیے جو ہو سکتا ہے انہوں نے پڑھے ہی نہ ہوں۔ بلاول کو غلط اردو بولنے پر اکثر تضحیک کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ہماری طرح خان کی بھی قومی زبان سے رسمی علیک سلیک ہے۔ انکی خدمت میں کئی بار عرض کیا کہ شریف برادران کو باہر جانے دیں۔ اپنے قول اور فعل میں اگر تضادات ختم نہیں کر سکتے توکم کر دیں۔ انہیں یہ بھی بتایا کہ الیکشن میں بھٹوکے بڑے حریف ممتاز دولتانہ اور نواب مظفر علی قزلباش تھے۔ بھٹو چاہتا تو انہیں ایک طویل عرصے تک پابند سلاسل رکھ سکتا تھا۔ اس نے انکی خواہش کے مطابق دولتانہ کو برطانیہ میں ہائی کمشنر بنا کر بھیج دیا۔ قزلباش فرانس کا سفیر مقرر ہوا۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ پرویز مشرف نے سادگی یا جذبہ ترحم میں انکی سزا ختم نہ کی تھی۔ اگر باہر نہ بھیجتا تو دس سال تک کبھی بھی حکومت نہ کر پاتا۔ آپ کا بھی قبل از وقت بولو رام نہ ہوتا۔ کہاوت ہے کہ ہونی ہو کر رہتی ہے۔ کل کی اپوزیشن اور آپ نے ایک دوسرے کو زچ کرنے کیلئے جو ’’سلوگن‘‘ چنے تھے دونوں غلط ہیں۔ نہ تو آپ سلیکٹڈ تھے نہ یہ امپورٹڈ ہیں۔ بالفرض ایک دوسرے کو ’’زِچ‘‘ کرنا ہی مقصد تھا تو اس کیلئے Puppet Prime ministerاور Imposed Governament کے نعرے وضع کئے جا سکتے تھے۔ امپورٹڈ ، کا مطلب یہ ہے کہ باہر سے لوگ بلا کر حکومت میں بٹھائے گئے ہیں۔ امپورٹڈ معین قریشی تھا، شوکت عزیز تھا، پہلا امریکی شہری تھا جو سنگاپور کے ہسپتال میں کینسر کا علاج کرا رہا تھا، دوسرا بھی امریکن نیشنل تھا خود ساختہ (Don Juan) جس نے ڈورے بھی ڈالے تو اپنی ہموطن کونڈا لیزا رائس پر! یہ تو وطن کے سپوت ہیں۔ درآمد نہیں کئے گئے۔
آخری مشورہ! اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں بہت ناجوازیاں کیں لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ خان کا خیال تھا کہ مقدمات کا فیصلہ حسبِ منشا آیا تو اس کیلئے میدان خالی ہو جائے گا ’’گلیاں ہوون سُنجیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘۔ اس کے لیے جو وقت درکار تھا ’’وہ زمانے نے نہیں دیا۔‘‘ اپوزیشن کے ارکان کوئی قطب ابدال یا نیلسن منڈیلا تو نہیں ہیں کہ معاف کر دیں۔ معروضی حالات میں ایسا ممکن نہیں ہو گا۔ نئے الیکشن در پر دستک دے رہے ہیں۔ عمران نے غلط یا سچ طور پر جو بیانیہ بنایا ہے وہ حیران کن حد تک شرف قبولیت پا چکا ہے لہٰذا انتظار وقت کی ضرورت بھی ہے اور مصلحت وقت بھی ! خان صاحب کے غیر ملکی مشیران تو اڑان بھر چکے ہیں۔ فواد چوہدری کو بھی کنٹرول کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ قبلہ گاہی کے شبد اب لطیفوں کا روپ دھارنے لگے ہیں۔ (ختم شد)
سلیکٹڈ بمقابلہ امپورٹڈ
Jun 14, 2022