اس سال پاکستان تین ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کرے گا۔ چند سال پہلے تک پاکستان گندم اور چینی برآمد کرنے والے ملکوں کی فہرست میں تھا۔ کھانے کا تیل اور دالیں درآمد کرنے پر خطیر زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے جو 25 ارب ڈالرز تک بڑھ چکا ہے۔ زراعت کا شعبہ ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف سارے جسم کو مفلوج کرسکتی ہے۔ زراعت پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ سب سے اہم کردار ان وفاقی اور صوبائی اداروں کا ہے جو ملک میں خوراک کی مجموعی پیداوار کے بارے اعدادوشمار جمع کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ادارے اپنا کام نہیں کررہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کی کل آبادی کی خوراک کی ضرور یات کتنی ہیں؟ گندم، چاول، چینی، گھی، دالیں، ڈیری کی مصنوعات، ادویات، پھل اور سبزیاں کتنی مقدار میں درکار ہیں؟ ان ضرور یات کے تناسب سے حکومتی ادارے اس بات کو یقینی بنائیں کے ان اشیاء ضروریات کی فراہمی اور ان کی قیمتوں میں استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ طلب و رسد میں توازن کے اصول پر عمل کرنے سے آجر اور اجیر دونوں کے مفادات کا تحفظ ممکن ہے۔ یاد رہے کہ فوڈ سیکورٹی اور مْلکی سلامتی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
پاکستان کے وہ ادارے جو برآمدات اور درآمدات سے متعلق ہیں، انہیں کرپشن سے پاک کرنا ہوگا۔ صرف وہ اشیاء برآمد کرنے کی اجازت ہو ہماری مقامی آبادی کی ضروریات سے زائد ہوں۔ اسی طرح درآمدات پر بھی ایک موثر کنٹرول کی ضرورت ہے تاکہ قیمتی زرمبادلہ بچایا جاسکے۔ چین ہمارا نہایت اہم دوست ملک ہے مگر چین سے ہمارا تجارتی خسارہ اربوں ڈالرز میں ہے۔ چین سے ہماری تجارت مقامی صنعت کی تباہی و بربادی کی بھاری قیمت ادا کرنے کی صورت میں نہیں ہونی چاہیے۔ عام صارفین کا مفاد ذہن میں رکھنا ہوگا، اس کے لیے انڈیا اور ایران کے ساتھ تجارتی حجم کو بڑھانا ہوگا۔ روس کے ساتھ بھی سستے تیل، گیس اور گندم کے تجارتی معاہدے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں مہنگائی ایک مستقل مسئلہ ہے جس کا ہر حکومت کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مستقل مسئلہ کا حل بھی مستقل ہونا چاہیے نہ کہ ایک عارضی مسئلہ کا خودکشی کرکے مستقل خل نکالا جائے۔ ماہرین کے مطابق خود کشی کی تعریف کسی عارضی مسئلہ کا مستقل حل ہے۔ ہمارے ہاں بھی حکومتیں سیاسی خودکشی قبول کرلیتی ہیں مگر مہنگائی کے مستقل حل کی طرف نہیں جاتیں۔ مہنگائی جیسے عفریت سے مقابلہ کے لیے ایک جامع اور مستقل حل موجود ہے مگر اس پر عمل کرنے کے لیے مصمم ارادہ اور لگن چاہیے۔
مہنگائی کا مستقل حل یہ ہے کہ پیٹرول، بجلی، گیس، پانی کی قیمت آمدنی سے منسلک کردی جائے۔ بیس ہزار آمدنی والے کے بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت اور بیس لاکھ آمدنی والے کی قیمت میں آمدنی کے تناسب سے فرق ہو، اور یہ اصول پیٹرول، بجلی، گیس کے علاوہ دیگر ضروری استعمال کی اشیاء پر بھی لاگو کیا جائے، خصوصاً اشیاء وخوردونوش۔ اسی طرح دیگر حکومتی سہولیات و خدمات سب کے لیے برابر ہوں مگر ان کی قیمت لوگوں کی آمدنی کے تناسب سے وصول کے جائے۔ عوام کی آمدنی کے تعین کے لیے ایف بی آر، احساس پروگرام، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور نادرہ کا ڈیٹا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت مند کروڑوں افراد کو چند ہزار نقد رقم کی بجائے فوڈ کوپنز جاری کیے جائیں جو حکومتی اور غیر حکومتی مراکز سے خوراک خرید سکیں۔ اس طرح افراط زر میں بھی کمی آئے گی۔ تنخواہ دار طبقہ کی آمدنی میں کمی بیشی افراط زر کی شرح میں تبدیلی سے منسلک کردی جائے، اس سے حکومت پر مسلسل دباؤ رہے گا کہ افراط زر کو قابو میں رکھنا ہے۔
یاد رکھیں ، کوئی بھی معاشی پالیسی صاف، شفاف، اور کرپشن سے پاک افراد کے بغیر ممکن نہیں، حکومت اور نوکر شاہی کی مالی بدعنوانیوں ، رشوت، اور کِک بیکس کا قلع قمع کیے بغیر بہترین سے بہترین معاشی پالیسی کے بھی مثبت نتائج حاصل نہیں کی? جاسکتے۔ نیب اصلاحات سے لگتا ہے کہ یہ ادارہ اپنی موت آپ مرجائے گا۔ نیب کو جنرل مشرف دور سے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ اپنی افادیت اور غیر جانبداری کھو چکا ہے۔ میری تجویز ہے کہ امریکی ادارے ایف بی آئی کی طرز پر پی بی آئی یعنی پاکستان بیورو آف انویسٹی گیشن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جائے جس میں سول، ملٹری، پولیس، اور عدلیہ سے محنتی، دیانتدار، اور قابل افراد کو شامل کیا جائے۔ یہ ایک خودمختار ادارہ ہو جو سیاسی علتوں سے پاک ہو، اور براہ راست قومی سلامتی کمیٹی کو جوابدہ ہو۔ کرپشن پر سزائیں سخت ہوں، عہدے سے سبکدوشی و معزولی، اور سیاسی عہدے کے لیے نااہلی سے لے کر لمبی عمر کی قید تک کی سزائیں شامل ہوں۔ ماضی میں جو سلطنتیں اور ریاستیں ناکام ہوئیں اور صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اْس کی بڑی وجہ نااہل حکمران طبقہ کی کرپشن تھی۔
دیرپا اور لمبے عرصہ کے لیے معاشی اقدامات پر بھی سوچ بچار شروع کر دینا چاہیے جن میں سستی توانائی کا حصول سر فہرست ہے، توانائی کے شعبہ میں خود کفالت کے بغیر صنعتی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ توانائی کی مد میں ادا کرنے والا گردشی قرضہ اڑھائی ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے، جسے کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہائیڈل پاور سیکٹر کو مضبوط کرنا ہوگا۔ سولر اور ہوا سے حاصل ہونے والی توانائی پر شفٹ کرنا ہوگا۔ زرعی شعبہ اور صنعتی صارفین کے لیے زیادہ بجلی کے استعمال پر بجلی کے کم سے کم ریٹ متعارف کروانے کی ضرورت ہے تاکہ زرعی و صنعتی ترقی کرے جس سے ہماری برآمدات بڑھیں گی۔ غربت کے خاتمہ کے لیے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک سے ذاتی کاروبار، اور چھوٹی گھریلو صنعت کاری کے منصوبے شروع کیے جاسکتے ہیں، نقد امداد کی بجائے آسان شرائط پر چھوٹے کاروبار کے لیے قرضہ کی سہولت کو فروغ دینا ہوگا۔ اس سلسلہ میں اخوت فاؤنڈیشن کے تجربات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔(ختم شد)