ابراہام لنکن کا والد تھامس لنکن بیک وقت موچی جولاہا اور کسان تھا۔ قابل کاریگر تھا، وہ ملک کے رئیس اور امرا کے گھر جاتا اور ان کے جوتے سیتا تھا، ملک کے امرا اس کے فن کے معترف تھے، 1861ء میں ابراہام لنکن امریکہ کا صدر بن گیا، اس وقت امریک سینٹ میں جاگیرداروں، امرائوں ، تاجروں اور صنعت کاروں کا راج تھا، ان لوگوں کی توجہ عوام کی طرف کم اور اپنے مفادات کی طرف اور اپنی کمیونٹی کی حفاظت کی طرف زیادہ تھی، ابراہام کا تعلق ورکنگ اور لوئر مڈل کلاس سے تھا لہٰذا جب یہ صدر بنا تو اس نے عوام کے لیے عموماً اور لوئر کلاس کے لیے خصوصاً بڑے پیمانے پر اصلاحات کیں، جن میں ایک خاص ایگزیکٹو آرڈر کے تحت غلامی کا خاتمہ اور باغی غلاموں کو آزاد کرنے کے بعد فوج میں شامل کر لیا گیا۔
امریکی ریاست کی اشرافیہ لنکن کے فیصلوں اور پالیسی میکنگ سے براہ راست متاثر ہو رہی تھی لہٰذا یہ ابراہم کے دشمن بن گئے۔ یہ اس سے جلنے لگے، یہ نہ صرف اس کا مذاق اڑایا کرتے بلکہ اس کی کردار کشی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے اور اس کے بدلے میں ابراہم کا جواب اکثر خاموشی ہوتا۔ جب اس کے حامی اسے کسی مخالف کے طعنے پر جوابی کارروائی پر اکساتے تو اس کا جواب صرف ایک ہوتا میرے جیسے شخص کا امریکہ کا صدر بن جانا مخالفوں کے ہر تیر اور طنز کا جواب ہے، وہ کبھی کسی طعنے یا کسی مذاق پر مشتعل ہوا نہ بددل۔ وہ اس قدر مضبوط اعصاب کا مالک تھا اس کا اندازہ آپ اس واقعے سے لگا لیجئے کہ عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد لنکن اپنے پہلے صدارتی خطاب کے لیے عوام میں داخل ہوا یہ اپنی مخصوص نشست کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک ایک شخص اپنی کرسی سے اٹھا اور طنز سے بجھی ہوئی آواز میں بولا لنکن صدر بننے کے بعد یہ مت بھولنا کہ تمہارا باپ میرے خاندان کے جوتے سیتا تھا یہ فقرہ سن کر پورے سینٹ نے قہقہہ لگایا یہ وہ جملہ تھا جو آپ ہم میں سے کسی کو بولا جائے تو ہماری جڑیں ہل جائیں پل بھر میں ہماری ذہنی حالت بگڑ جائے اور ہم طیش میں آ کر آئو نہ تائو دیکھتے ہوئے مخالف کا گریبان نوچ لیں اور حساب برابر کر ڈالیں لیکن لنکن مسکرایا اور مخصوص نشست کی طرف بڑھ گیا، خطاب شروع کرنے سے پہلے وہ اس شخص سے براہ راست مخاطب ہوا اور بولا سر میں جانتا ہوں میرے والد آپ کے اور ہال میں موجود کئی لوگوں کے بزرگوں کے جوتے سیا کرتے تھے وہ بیشک اپنے فن کے ماہر تھے بے مثال کاریگر تھے مگر کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ایک شہر میں ہزاروں موچیوں کے ہوتے ہوئے آپ کے بزرگ میرے والد کو ہی جوتا بنوانے کے لیے کیوں طلب کرتے تھے؟ کیونکہ میرا والد اپنے فن میں طاق تھا اپنے کام کے ساتھ مخلص اور ایماندار تھا شہر میں کوئی موچی ان کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا ان کے بنائے ہوئے جوتے محض جوتے نہیں ہوتے تھے وہ ان میں روح ڈال دیتا تھا اس کی بنائی شے کی کبھی کسی نے شکایت نہیں کی اور اگر کبھی آپ کو میرے والد کا بنایا جوتا تنگ کرے تو میں فری میں سروس دینے کے لیے تیار ہوں۔
لنکن مائنڈ سیٹ کا دوسرا پہلو اپنے ماضی اور اپنے خاندانی بیک گرائونڈ کا سامنا کرنا ہے جبکہ ہم لوگ ترقی کی طرف قدم بڑھاتے ہی اور اندر ڈیولپ سے ڈیولپ ہوتے ہی اپنے ماضی پر اور خاندانی بیک گرائونڈ پر اور ان تمام چھوٹی بڑی حماقتوں پر جو ہمارے سفر میں ہماری استاد ہوتی ہیں پر موٹا پردہ ڈالنے لگتے ہیں یوں ایک عام آدمی کی زندگی احساس کمتری سے نکل کر احساس برتری میں مبتلا ہونے کی داستان بن جاتی ہے اور یہ داستان ہم دانستہ اپنے رویوں سے تخلیق کرتے ہیں۔ آپ مشاہدہ کر کے دیکھ لیں ایسا نہیں کیا ؟ کیا ہم اور ہمارے رویے ایسے نہیں ہیں؟
لنکن مائنڈ سیٹ
Jun 14, 2022