امریکی سردمہری میں بلاول کی انتھونی بلنکن سے ملاقات 


پیر کی صبح اُٹھ کر اس روز چھپے کالم کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کررہا تھا تو عیسیٰ نقوی کا پیغام آگیا۔بعدازاں اس سے فون پر بات بھی ہوگئی۔ عیسیٰ نے طالب علمی کے دوران ہی صحافت کا آغاز کردیا تھا۔ابتداء انگریزی کے روزنامہ "The Post"سے کی جس کا میں اسلام آباد میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھا۔مسلسل محنت ولگن کے بعد ان دنوں وہ امور خارجہ کے بارے میں ایک متحرک رپورٹر شمار ہوتا ہے۔
پیر کی صبح چھپے کالم کا حوالہ دیتے ہوئے عیسیٰ نقوی نے مجھے یاد دلایا کہ صدر بائیڈن نے واشنگٹن میں اسد مجید صاحب کے بعد تعینات ہوئے پاکستانی سفیر جناب مسعود خان سے بھی ’’کاغذات نامزدگی‘‘ اس انداز میں اب تک وصول نہیں کئے ہیں جس کا میں نے پیر کی صبح چھپے کالم میں ذکر کیا ہے۔اسے گماں تھا کہ امریکہ کی جانب سے اسلام آباد بھیجے سفیر ڈونلڈ بلوم کو ہمارے ایوان صدر میں کاغذات نامزدگی پیش کرنے کی تقریب میں تاخیر غالباََ اسی باعث ہورہی ہے۔
عیسیٰ نقوی نے یہ الفاظ ہرگز استعمال نہیں کئے ۔ہماری وزارت خارجہ کے امور پر نگاہ رکھنے والے رپورٹر کی گفتگو سن کر البتہ مجھ ریٹائر رپورٹر کو ’’جیسے کو تیسا‘‘ والا پیغام ملا۔سفارت کاری میں اگرچہ بازاری زبان استعمال نہیں ہوتی۔ منافقت مہذب دِکھتی اصطلاحات کے استعمال کے ذریعے برتی جاتی ہے۔ایران کے کسی زمانے میں آج کی سپرطاقتوں جیسی شہنشاہیت تھی۔روم اس کا ہم عصر ۔اسی باعث اسلامی تاریخ میں ’’قیصر وکسریٰ‘‘ کا ذکر ہوتا ہے۔درباری رسومات ان دونوں ہی نے متعارف کروائی تھیں۔درباری آداب کو انگریزی میں Protocolکہا جاتا ہے۔ فارسی میں لیکن کئی صدیاں قبل اس کے لئے ’’تشریفات‘‘ والی اصطلاح ایجاد ہوگئی تھی۔کسی مہمان کو اسی باعث آج بھی ہم ’’تشریف لائیے‘‘ کہتے ہوئے اپنے گھر یا دفتر تک لاتے ہیں۔
سفارتی آداب میں ’’باہمی‘‘کا ذکر بھی ہوتا ہے۔انگریزی میں اسے Bilateralکہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ’’برابری‘‘ کا تقاضہ ہوتا ہے۔مثال کے طورپر اگر امریکی صدر جوبائیڈن نے واشنگٹن میں تعینات ہمارے سفیر جناب مسعود خان صاحب کو وائٹ ہائوس میں ابھی تک کاغذات نامزدگی پیش کرنے کے لئے مدعو نہیں کیا تو ہماری وزارت خارجہ کی فطری خواہش ہوگی کہ ہمارے صدر عارف علوی بھی ڈونلڈ بلوم کے ساتھ ویسا ہی سرد مہر رویہ اختیار کریں۔علوی صاحب کو یہ سوچ ویسے بھی بھائی ہوگی۔ ان کے قائد عمران خان صاحب کا دعویٰ ہے کہ انہیں ’’امریکی سازش‘‘ کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ کروایا گیا ہے۔اس ضمن میں تواتر کے ساتھ وہ اس ’’تڑی‘‘ کا ذکر بھی کررہے ہیں جو مبینہ طورپر امریکی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار ڈونلڈ لو نے مارچ 2022ء تک واشنگٹن میں پاکستانی سفیر رہے اسد مجید خان صاحب کو عمران حکومت سے شکایت کرتے ہوئے لگائی تھی۔
سفیر صاحب نے مذکورہ ’’تڑی‘‘ خفیہ مراسلے کے ذریعے اسلام آباد تک پہنچا دی تھی۔ اقتدار سے فراغت کے بعد اسی باعث عمران خان صاحب ان دنوں پاکستان کو ’’حقیقی آزادی‘‘ دلوانے کی تحریک برپا کئے ہوئے ہیں۔ان کی جگہ قائم ہوئی ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ سے فی الفور نجات حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔
’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کے مگر ایک وزیر خارجہ بھی ہیں۔نام ہے ان کا بلاول بھٹو زرداری۔ عمرا ن خان صاحب کو طویل عرصے بعد یاد آیا ہے کہ موصوف کے نانا یعنی ذوالفقار علی بھٹو بھی تحریک انصاف کے بانی رہ نما کی طرح ’’قومی وقار‘‘ کو ہر صورت اجاگر کرنا چاہ رہے تھے۔امریکہ ان کے چلائے ایٹمی پروگرام سے بھی نالاں تھا۔ یہ بیان کرتے ہوئے بھی عمران خان صاحب ذوالفقار علی بھٹوکانام ایران کے ڈاکٹر مصدق کے ساتھ نہیں لیتے جن کی حکومت الٹانے کے لئے سی آئی اے نے 1950ء کی دہائی میں سازش رچائی تھی۔بھٹو کے خلاف چلائی ’’نوستاروں والی‘‘ تحریک کا ذکر بھی عمران خان صاحب نہیں کرتے۔یاد رہے کہ اس تحریک کے دوران ’’پہیہ جام‘‘ کا ہتھیار بھی استعمال ہوا تھا۔ یہ ’’نسخہ ‘‘ ا س سے قبل چلی کے صدر آلندے کی حکومت کا تختہ الٹانے کے  لئے استعمال کیا گیا تھا۔
تاریخ کی تفصیلات میں الجھنے کے بجائے ’’حال‘‘ پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔اس پر غور کرتے ہوئے یاد آیا کہ ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ میں وزارت ِخارجہ کا منصب سنبھالتے ہی ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے نیویارک چلے گئے تھے۔ وہاں اقوام متحدہ نے ماحولیات کی بابت ایک عالمی کانفرنس کا اہتمام کررکھا تھا۔بلاول بھٹو زرداری کی مذکورہ تقریب میں شرکت کے لئے روانگی سے قبل البتہ وزارت خارجہ میں بیٹھے کئی ’’محبان وطن‘‘ افسروں نے اپنے جیسے ’’وطن پرست‘‘ صحافیوں کو سرگرشیوں میں یہ ’’اطلاع‘‘ دی کہ اقوام متحدہ کے بینر تلے منعقد ہوئی عالمی کانفرنس میں شرکت فقط ایک بہانہ ہے۔ بلاول بھٹو زرداری درحقیقت امریکی وزیر خارجہ سے ملنا چاہ رہے ہیں جو اس تقریب میں بھی موجود ہوں گے۔ چند ’’محبان وطن‘‘ یہ اطلاع بھی دیتے پائے گئے کہ امریکی وزیر خارجہ ’’امپورٹڈ حکومت‘‘کے وزیر خارجہ سے ون آن ون ملاقات کے لئے آمادہ نہیں ہورہے۔ امریکی وزیر خارجہ سے ملاقاتیں ویسے بھی ’’اچانک‘‘ نہیں ہوا کرتیں۔ اس سے ملاقات کے لئے مہینوں پہلے وقت کی درخواست کرنا ہوتی ہے۔
’’محبان وطن‘‘ کے بیان کردہ خدشات کے باوجود بلاول بھٹو زرداری کی انتھونی بلنکن سے ایک گھنٹے تک پھیلی ملاقات ہوگئی۔ اس ملاقات میں دونوں کے مابین جو گفتگو ہوئی اس کی بابت میں قطعاََ بے خبر ہوں۔ہمارے مگر ایک جید سفارت کار رہے ہیں۔ غالباََ باسط صاحب کہلاتے ہیں۔مجھ جیسے جاہلوں کو عالمی امور کی نزاکتیں سمجھانے کے لئے ایک وی-لاگ بھی چلاتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جو وی لاگ کیا اس میں نہایت دھڑلے سے یہ ’’انکشاف‘‘ کیا کہ بلاول بھٹو زرداری سے ہوئی ملاقات کے دوران ٹونی بلنکن نے ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کے وزیر خارجہ سے مطالبہ کیا کہ پاکستان بھارت کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ویٹو کی قوت والے ’’مستقل رکن‘‘ بن جانے کی خواہش کی مخالفت نہ کرے۔ مجھے شبہ ہے کہ امریکی اور پاکستانی وزرائے خارجہ کے مابین نیویارک میں ایک گھنٹے تک پھیلی جو ملاقات ہوئی اس میں ہوئی گفتگو کے ’’منٹس‘‘ یا ’’نوٹس‘‘ باسط صاحب کے ہماری وزارت خارجہ میں ان دنوں براجمان کسی ’’جونیئر‘‘ نے ان تک واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے پہنچادئیے ہوں گے۔ اسی کی بنیاد پر باسط صاحب اپنے وی-لاگ میں ایسی تہلکہ خیز خبر دے پائے۔
ان کی دی ’’خبر‘‘کو تاہم ابھی تک بلاول بھٹو زرداری نے جھٹلانے کا تردد نہیں کیا۔ باسط صاحب کی سنائی داستان لہٰذا ’’مستند‘‘ تصور ہورہی ہے۔ یاد رہے کہ نواز شریف کو ’’مودی کا یار‘‘ ثابت کرنا ہو تو باسط صاحب اس تناظر میں ’’سلطانی گواہ‘‘ قرار پاتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ نواز شریف جب نریندر مودی کی 2014ء میں منعقد ہوئی تقریب حلف برادری میں شرکت کے لئے بھارت گئے تھے تو باسط صاحب وہاں ہمارے ہائی کمشنر ہوا کرتے تھے۔ ان کے طفیل ہمیں یہ علم بھی ہوگیا کہ نواز شریف کا مذکورہ دورہ پاکستان کے ’’قومی مفادات‘‘ کی خاطر نہیں ہوا تھا۔ اس کے ذریعے درحقیقت شریف خاندان کے ’’کاروباری شریک‘‘ ڈھونڈنے کی کوشش ہوئی تھی۔باسط صاحب کی ’’گواہی‘‘ نے نواز شریف کو سنگین نتائج سے دو چار کررکھا ہے۔ دیکھئے ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کے وزیر خارجہ کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ کی ملاقات کی بابت جو کہانی باسط صاحب نے بیان کی ہے وہ بلاول بھٹو زرداری کو کس نوعیت کے ’’انجام‘‘ تک پہنچاتی ہے۔
فی الوقت یہ کہتے ہوئے کالم سمیٹ رہا ہوں کہ ڈونلڈ بلوم اگر ہمارے ایوان صدر میں کاغذات نامزدگی پیش کرنے کے لئے واقعتا جلد از جلد مدعو ہونا چاہتے ہیں تو اپنے صدر کو سمجھائیں کہ واشنگٹن میں تعینات ہمارے سفیر جناب مسعود خان صاحب کو جلد از جلد وائٹ ہائوس مدعو کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اب تک برتی سردمہری کی بابت شرمندگی کا اظہار کریں۔

ای پیپر دی نیشن