کشمیر کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد حریت کانفرنس کی نوے کی دہائی سے سیاسی محاذ پر سرگرم اور تحریک آزادی کے حوالے سے لازوال کردار ادا کر رہا ہے۔ مسرت عالم بٹ نے کانفرنس میں متحرک کرادر ادا کرتے رہے ہیں۔ سید علی گیلانیؒ اپنی زندگی میں ہی کئی سال قبل انہیں اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا جب کہ مسرت عالم بھی انتہائی اخلاص کے ساتھ سائے کی طرح بزرگ لیڈر کے ہمراہ رہتے اور ہندوستانی فورسز کے گھیرے تو ڑ کر انھیں جہاں پہنچاناہوا وہاں ساتھ لے جاتے۔یکم ستمبر 2021ء کو جب بزرگ قائد اس دار فانی سے رخصت ہوئے تو انہیں اتفاق رائے سے آل پارٹی حیریت کانفرنس کا چیئر مین منتخب کر لیا گیا۔ وہ تحریک آزادی جموں و کشمیر کے بے لوث سپاہی ہیں ۔انہیں شروع سے ہی سیاسی اورمذہبی تناظر میں حقائق پرمبنی دو ٹوک اور جرأت مندانہ رویا اختیار کرنے والالیڈر تصور کیا جاتاہے۔اپنے اسی سخت گیر موقف اور غاصب بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے سبب گزشتہ رابع صدی سے جیلوں میں قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ پبلک فیفٹی ایکٹ کے تحت ایشیاء میں سب سے زیادہ عرصے تک قید رہنے والے سیاسی رہنما ہیں۔1990 کے بعد سے اب تک صرف 54 ماہ جیل سے باہر رہے ہیں۔ نو منتخب حریت کانفرنس چیئرمین کو قید میں رکھنے کے لیے بار بار کالے قانون پی ایس اے(psa) کا عائد کیا جاتا ہے۔ جسکی ضمانت بھی نہیں ہو سکتی۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل سمیت دیگر عالمی اداروں نے پبلک سیفٹی ایکٹ کالا قانونیت کی بدترین مثال قرار دیا ہے۔ لیکن ریاستی دہشت گردی میں ملوث بھارت سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور ابھی تک اس قانون کو کشمیری قیادت اور عوام کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔بھارت مخالف مظاہروں کی پاداش میں جب ہزاروں افراد جیلوں میں ڈالا گیا اور پی اے ایس قانون کا بے دریغ استعمال کیاگیا تو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ ہر دلعزیز حریت کانفرنس لیڈر کو عوام سے دور رکھنے کے لیے اکتوبر 2010ء سے 2015ء کے دوران قید رکھا گیا ہے۔ 2015ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے ان کی رہائی کا حکم دیا تو وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندوستانی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر مسرت عالم کی ممکنہ رہائی کو قومی غصے سے تعبیر کیا اور پھر رہائی کے فوری بعد انہیں پاکستان حق میں نعرے لگانے کے جرم میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ جس کے بعد سے اب تک وہ زیر حراست اور تہاڑ جیل نیو دہلی میں قید ہیں۔مسرت عالم نے سید علی گیلانیؒ کی طرح بھارت سے دوطرفہ مذا کرات کی پیش کش کو مسترد کیا۔ وہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے زبردست حامی ہیں۔ انہیں بھارت ریاست کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھا جاتاہے۔ ذہنی جسمانی تشدد، قید و بند کی صعوبتیں اور نظر بندیاں مسرت عالم کے اعصاب نہیںتوڑ سکیں۔ جس انداز میں انہوں نے تحریک آزادی کو پروان چڑھایا ، اس سے وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ افسانوی کردار بنتے چلے گئے۔ ان کا جزبہ اور عزم اس قدر غیر متزلزل اور نا قابل تسخیر ہے کی بھارت سرکار انہیں سری نگر کی گلیوںمیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ خود مسرت عالم بٹ نے گئی مرتبہ میڈیا کو کہا ہے کہ جیل چھوٹی ہے جبکہ کشمیر بڑی جیل ہے۔ مجھے فرق نہیں پڑتا چھوٹی جیل میں ہوں کہ بڑی جیل میں ہوں۔مجھے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے ہر جگہ ہر وقت جد وجہد کرنی ہے۔ شاید بھارتی افواج اور حکومت سمجھتی ہو کہ مذ موم ہتھکنڈے اختیار کرکے وہ کشمیری عوام اور ان کے رہمنائوں کے دلوں سے آزادی کے خواب ختم کر دے۔ ان کی ہمت ٹوٹ جائے گی تو یہ ان کی بھول ہے۔ مسرت عالم جیسے رہمنائوں نے آزادی کی جد وجہد کے سفر میں کبھی بھی تھکاوٹ محسوس نہیں کی۔ بھارت کی مودی سرکار نے جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت والی دفعات ختم کرنے کے بعد کشمیریوں کی جد وجہد آزادی ختم کرنے کے لیے سب حربے استعمال کر لیے۔ لیکن مسرت عالم جسے رہنما جنہوں نے شروع سے غیر معذرت خوانہ سیاست سے شہریت اور مقبولیت حاصل کی۔ان کی سرپرستی میں تحریک آزادی پوری قوت سے جاری ہے۔ اوروہ وقت قریب ہے کہ جب مظلوم کشمیری قوم آزاد فضا میں سانس لے سکے گی۔ غاصب بھارت کو جنت ارضی کشمیر سے نکلنا پڑے گا ۔