وفاقی بجٹ2022-23ء پیش کیا جا چکا ہے ۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن سے ہے انہوں نے یہ دوسرا بجٹ پیش کیا یہ ایک طرح سے ریکارڈ بن گیا ہے کیونکہ مفتاح اسماعیل سینٹ یا قومی اسمبلی کے رکن نہیں ہیں اور آئین میں فراہم کردہ ایک سہولت کی وجہ سے وزیر خزانہ ہیں جس کے مطابق کسی کو بھی و فاقی کابینہ کا حصہ بنایا جا سکتا ہے تاہم اس کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی تقرری کے چھ ماہ کے اندر قومی اسمبلی یا سینٹ کی رکنیت حاصل کرئے ،اب یہ اور بات ہے کہ وہ چھ ماہ کے لئے وزیر خزانہ ہیں یا ان کی جماعت انھیں سینٹ یا قومی اسمبلی کا رکن بنوائے گی،اس کو اگر کھل کر بیان کیا جائے تو اس معاملہ میں’اگر‘‘ اور ’’مگر‘‘ آجاتی ہیں،ویسے یاد رہے کہ وہ اس سے پہلے کراچی کا ایک ضمنی الیکشن لڑئے تھے مگر اس وقت اپنی اتحادی جماعت پی پی پی کے امیدوار سے ہار گئے تھے ،یہ ہار جیت اس وقت موضوع نہیں ہے ،سیاست ہے تو الیکشن اور اس کے نتائج کسی کے لئے خوشی اور کسی کے لئے مایوسی کا باعث ضرور بنتے ہیں ،بجٹ جب بھی آئے عوام کی سب سے ذیادہ دلچسپی جس چیز میں ہوتی ہے وہ مہنگائی ہے ، اور کیا اس میں کمی ہو گی ؟ مہنگائی سے اب ملک کا ہر طبقہ اکتایا ہو اہے ،نئے مالی سال کے بجٹ پر اگر ایک لائن میں تبصرہ کیا جائے تویہ کہہ دینا کافی ہے کہ آئندہ مالی سال بہت مشکل ہے ،اور اس سے عوام کی قوت خرید میں مذید کمی واقع ہو گی ، زرا ماضی میں جھانک لیں،مہنگائی بڑھنے کی بہت سی وجوہات ہیں اس میں ناجائز منافع خوری کا بھیانک ایشو موجود ہے ،یہ ہمیشہ سے رہا ہے اور اس پر قابو پانے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی،ملک کے اندر ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جو بنیادی استعمال کی اجناس جیسے گندم ،گھی ،چینی سیمت کم از کم20بنیادی اشیاء کی پیداوار یا تیاری اور اس کی ترسیل اور صارف تک رسائی کی ساری چین پر نظر رکھے اور اس میں اختیار کی جانے والے تما م برے طریقوں کا سد باب کرے یہ ادارہ بااختیار ہونا چاہئے،اس سے کچھ حد تک مہنگائی اور خاص طور پر مصنوعی افراط زر پر قابو پایا جا سکتا ہے ،ماضی بتا رہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام لینے کے لئے سابق حکومت نے روپے کی قدر کو گرنے دیا ،ایک ایسا ملک جو 70ارب ڈالر کی درآمدات کرتا ہو وہ بیرون ملک سے آنے والی مہنگائی کو کیسے روک سکتا ہے ؟آج کی مہنگائی کی بڑی وجہ روپے کی قدر کا اس قدر پست ہو جانا ہے ،آئی ایم ایف کے پروگرام کو اس کاذمہ دار قرار دینا آسان لگتا ہے مگر جان لیں کہ روپیہ جتنا گرا تنی تو خود آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ نہیں تھی ،اس میں دوسرے عوامل بھی شامل تھے ،سیاسی عدم استحکام اور دوسرے واقعات الگ سے اپنا اثر پیدا کر رہے تھے ، ،آئندہ مالی سال کے لئے افراط زر کا ہدف گیارہ فی صد سے ذیادہ کا ہے ،تیل اور دوسری درآمدی اشیاء کی عالمی قیمتوں میں کمی کا کوئی فوری امکان نظر نہیں آرہا ،تیل کی پیداوار کی بڑی سٹیک ہولڈر تنظیم اوپیک پر دوسرے ممالک پیداوار بڑھانے پر زور دے رہے ہیں تاکہ رسدبڑھنے سے تیل کی قیمت میں کمی آئے ،اوپیک اگر اس مطالبہ کو مان لے تو یہ واحد طریقہ ہے جس سے تیل کی کثیر مقدار درآمد کرنے والے ممالک کو ریلیف مل سکتا ہے ،حکومت پاکستان کو چاہئے کہ تیل کی خریداری کے لئے حکومت سے حکومت کے درمیان معاہدات پر کام کرئے،اپنے پڑوس میں بھی جھانکے،اگر روس سے معاہدہ ہو سکتا ہے تو ضرور کیا جائے ،ان حقائق کو پیش نظر رکھا جائے کہ آئندہ مالی سال میں مہنگائی کی صورت حال میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی ،تیل پر ٹیکسیشن کا مسلہ الگ سے موجود ہے ،عالمی قیمت کم بھی ہو جائے تو بھی حکومت کے پاس اس کا ریلف عوام کو دینے کا آپشن نہیں ہے،کیونکہ جتنی قیمت کم ہو گی حکومت اس کو لیوی یا جی ایس ٹی کے نفاذ یا اضافہ کے ذریعے ایڈجسٹ کرئے گی ،یہی بہت ہو گا کہ تیل کی موجودہ خور دہ قیمت مذید نہ بڑھنے پائے ،ہمیں اسی کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا ہو گا ،یہ بہت ہی افسوناک بات ہے کہ اب تک پبلک ٹرانسپورٹ کا باعزت اور با سہولت نظام نہیں بن پایا،کیپٹل سٹی میں سوائے میٹرو کے روٹ کے کوئی نظام موجود نہیں،اور نہ کوئی ارادہ نظر آتا ہے ،کیوں روٹ نہیں دئے جا رہے ،بسوں کے روٹ دئے جائیں تاکہ لوگوں کو ویگن کی بے عزتی سے نجات مل سکے،لوگ ذاتی سواری رکھنے کی جھنجھٹ سے بچ سکیں ،اس سے مصارف ذندگی میں کمی آسکتی ہے ،بجٹ میںآئندہ مالی سال کا جی ڈی پی گروتھ کا ریٹ5 فیصد مقرر کیا گیا ہے ،جو قابل حصول ہے ،گروتھ ریٹ کو کم رکھنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت اس سال درآمدات کوکنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے تاکہ ادائیگی کا توازن بہت ذیادہ بگڑنے نہ پائے ،آئندہ مالی سال کے لئے ایف بی آر ریونیو کا ہدف7004ارب مقرر کیا گیا ہے،جو کہ بہت آسان ہدف ہے جس ملک کے اندر یہ تاثر ہو کہ معیشت کا 43فی صد حصہ براہ راست ٹیکسوں میں کوئی حصہ نہیں ڈالتا ہے اس میں تو چیلنج قبول کرنا چاہئے اور اس43 فی صد کو نیٹ میں لانے کے لئے کام کرنا چاہئے،اس بات کی ضرورت ہے کہ ایف بی آر کے ہدف میں مذید500ارب کا اضافہ کیا جائے اور ٹیکس میں کنٹری بیوٹ نہ کرنے والوں کو پکڑنے کی ذمہ داری کو پورا کرنا چاہئے،بجٹ کا ایک اہم اقدام12لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدنی والے ملازمین کو انکم ٹیکس سے چھوٹ دینا ہے ،اس سے غریب طبقہ کو کچھ ریلف ملے گا۔