لاہور (تجزیہ۔ ندیم بسرا) جمہوریت کے اندر جمہوری روایات نہ ہونے سے سیاسی ماحول میں تنائوبڑھ گیا ہے اور پاکستان میں پہلی بار پنجاب کا بجٹ مقررہ دن پیش نہ ہونے سے جمہوری جماعتوں نے ایک نئی مثال قائم کی، بلکہ جمہوریت کے دعویداروں کی قلعی بھی کھل گئی۔ بجٹ سیشن کے روز حکومت بجٹ پیش کرنے پر اصرار کرتی رہی جبکہ اپوزیشن نے بجٹ پیش نہ ہونے دیا جس سے سیاسی ماحول مزید گرم ہوگیا ہے۔ اب پھر سوال یہی ہے کہ کیا آج اسمبلی سیشن کے دوسرے روز بجٹ پیش ہو سکے گا یا نہیں؟۔ تو حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک بار آج کے روز نئے امتحان کیلئے کیا تیاری کرتے ہیں، کیا حکومت اور اپوزشین کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار رہے گا یا برف پگھل جائے گی؟۔ اگر منگل کو بھی بجٹ پیش نہ ہوا تو پھر ذمہ دار کون ہوگا حکومت یا اپوزیشن؟۔ کیا آج بھی اپوزیشن اپنے مطالبے پر قائم رہتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرے گی کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو اسمبلی میں لایا جائے۔ اگر اپوزیشن کی یہ بات مان لی جائے تو اپوزیشن کے ان حلقوں کا یہ دعوی کہ کہ وہ چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کی اسمبلی میں موجودگی پر خوب بھڑاس نکال کر انہیں خوار کریں گے۔ اس قسم کے کئی مشکل صورت حال کا سامنا حکومت کو کرنا پڑسکتا ہے، کچھ حکومتی حلقوں کی سوچ ہے کہ اپوزیشن سے مشروط طریقے سے صلح کی جائے اور بجٹ کو پیش کیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت سپیکر چودھری پرویز الہی ہیں اور ان کی رولنگ ہی حتمی تصور کی جائے گی۔ اور دوسری جانب حکومت کے پاس واضح اکثریت بھی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے حکومت کسی بھی ٹکرائو سے اجتناب کرنا چاہتی ہے، لیکن گزشتہ روز کی صورت حال میں حکومت اور اپوزیشن دونوں نے انا پرستی کی بھینٹ پنجاب کی بارہ کروڑ عوام کو چڑھا دیا، جس سے نقصان یقیناً پنجاب کے عوام کا ہوا۔