حرف ناتمام …زاہد نوید
zahidnaveed@hotmail.com
اس وقت جو صورتحال ہے اس میں ایسا کیا ہو کہ حال سے بے حال سماج پھر سے سکھ کا سانس لے سکے۔گزشتہ کئی برسوں سے سماجی ڈھانچہ جس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا اس کی مرمت ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وطن کا سب سے بڑا اور برا مسئلہ آبادی میں ہولناک اضافہ ہے۔ملک میں کروڑوں غریب روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں غریب پیدا کر رہے ہیں جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے ایک زرعی ملک کی نباتاتی معیشت اس کی برابری کر ہی نہیں سکتی.یہ ناممکن ہے ۔ اس وقت ہر زبان پر یہی ذکر خیر ہے کہ سیاست کی شطرنج پر کون کیسے کھیل رہا ہے؟ملکی سیاست عملا پلے گراؤنڈ بن چکی ہے سیاستدان خود کو کپتان کہلانے پر بضد ہیں۔اب تو مرشد وغیرہ بھی کہا جانے لگا ۔سوشل میڈیا نے ایسی زبان کھولی کہ لوگ زبان دراز ہو گئے۔اپنی پسند کے لیڈر کو جو چاہیں خطاب دیتے ہیں نا پسندیدہ کو بے نقط سناتے ہیں…ماہرین معیشت کو صرف ایک ہی بات سمجھ ا رہی ہے کہ کچھ باقی نہین پچا سب کچھ لٹ چکا ملک خاکم بدہن اخری سانس لے رہا ہے۔۔ ان سے مسائل کا حل پوچھیں تو بغلیں جھانکتے ہیں۔کبھی کہا کرتیتھے کہ غم نہ داری بز بخر۔یعنی اگر تجھے کوی غم نہیں تو بکری خرید لے۔ اب یوں ہے کہ اگر ?پ خوش وخرم بیٹھے ہوں مگر اپ چاہتے ہین کہ کوئی آپ کو رلائے دکھ دے آپ پھوٹ پھوٹ کر رویں۔کوئی آپ کو دلاسہ دینے والا نہ ہو اپ روئیں اپ کادل رو? اور کافی دیر تک آپ مضطرب ورنجیدہ رہین حتی'کہ رات کو نیند بھی نہ آئے تو اس کا اسان طریقہ یہ ہے کہ ٹی وی لگا لیں بس فورا ہی ایک چیختی چنگھاڑتی اواز ایسی منحوس خبر سناے گی کہ ٓاپ کو جذبات پر قابو نہیں رہے گا آپ بے اختیار زاری کرنے لگیں گے۔یہ ہے اج کا خبر نامہ اور اج کے تجزیے…!!
قارئین محترم. ابھی میں یہ کالم لکھ ہی رہا تھا کہ ایک خبر نے سوچ کی دھارا ہی بدل ڈالی ۔عمران خان کو ٓاخر کار گرفتار کرلیا۔ ایک دلدوز اواز گلا پھاڑ کر بار بار یہ سبق دہرا رہی تھی ۔ اس خبر نے مجھے ہی نہیں پورے ملک کی اب و ہوا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پی ٹی آئی کے لڑکوں بالوں نے سینئر آرمی آفیسر کی گھر کو اگ لگادی
دل کی پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
اس سے بھڑ کر دلخراش منظر وہ تھا جہاں ایک بانکا کور کمانڈر کی وردی پہنے پھر رھا تھا۔،مین سوچ رہا تھا۔ عدالت میں جج اور کلاس روم میں پروفیسر گاؤن پہن کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں اگر کوئی ناراض ملزم یا نالائق طالب علم یہی گاؤن چھین کرخود پہن لے تو گاؤن کی یہ توہین برداشت نہیں کی جاسکتی اسی طرح فوجی وردی کی توہین بھی ناقابل برداشت ہے۔ وردی کو تو ہاتھ لگانا بھی جرم ہے چہ جائیکہ یوں ہو۔عرصہ دراز سے سنتے چلے آئے ہیں کہ ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے ۔یہ جملہ سننے کی عادت ہوگئی تھی اس لیے سنی ان سنی کر دیتا تھا۔مگر اب احساس ہونے لگا ہے کہ ملک واقعی پریشان کن حالات سے رو چار ہے۔مگر ٹھریے یہ چار دن کا اندھیراہے کوء بات نہیں۔ایک دن آے گا جب نہ یہ دن ہونگے اور نہ ملکی سیاست مین ہلچل مچانے والے یہ کردار۔نئی دنیا ہوگی نئے لوگ ہونگے نئے مسائل ہونگے۔ البتہ شاید ابادی میں اضافہ ٓایندہ بھی سب سے بڑا مسئلہ ہو گا اس سے نبٹنے کے لیے ہمیں چاہیے کہ جلد عقل کے ناخن لیں۔ہوش و ہواس درست کریں۔اس وقت نء مردم شماری کے مطابق آبادی چوبیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اگر یہی ٹھری شرط وصل لیلی تو پھر کہاں کی معیشت ، کرھر کی جی ڈی پی اورکیسی ترقی۔؟ تو پھر کوئی ہے جو آبادی کے سیلاب کو روکے۔!!