تحریر: محمد اسد بن اعظم
m.asad.writer131@gmail.com
دنیا بھر میں ہر سال 14 جون کو خون عطیہ کرنے والوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ محفوظ، رضاکارانہ خون عطیہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کو فروغ دیا جا سکے اور ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے جو باقاعدگی سے خون عطیہ کرتے ہیں۔ یہ دن رضاکارانہ، بغیر معاوضہ کے خون کے عطیہ دہندگان سے خون کے عطیات کو مزید بڑھانے اور معیاری خون تک رسائی کے لئے مناسب وسائل فراہم کرنے کو یقینی بنانے پر ٹھوس اقدامات اٹھانے پر زور دیتا ہے۔
خون کے عطیہ کا عالمی دن منانے کا مقصد دنیا بھر میں خون عطیہ کرنے والے ہیروز کا شکریہ ادا کرنا بھی ہے جو معصوم زندگیاں بچانے کے عظیم مشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اس دن کو منانے کا مقصد خون کے عطیہ کرنے کے اس عظیم کام کے لیے وسیع تر عوامی شور بیدار کرنا اور اس سے آگاہی فراہم کرنا بھی ہے۔
خون کی سہولت جو مریضوں کو محفوظ خون اور خون کی مصنوعات تک مناسب مقدار میں رسائی فراہم کرے وہ ایک مو?ثر صحت کے نظام کا ایک اہم جزو ہے۔ تھیلیسیمیا، ہیموفیلیا، کینسر اور یہاں تک کہ کورونا سے متاثرہ افراد کی زندہ رہنے کے لئے محفوظ خون کی منتقلی سے ہی زندگی ممکن ہو پاتی ہے۔
خون سے ہی زندگی ہے۔ شاید اس کی قدر وہی لوگ بہتر سمجھ سکتے ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے خون کی ایک ایک بوند کے لیے ترسنا پڑتا ہے اور اگر بروقت خون نہ ملے تو بہت سے مریض زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اصل مسئلے کا سامنا تو اس وقت ہوتا ہے جب کوئی نایاب گروپ کا بلڈ نہیں مل پاتا جیسا کہ O نیگیٹو، Bنیگیو، A نیگیٹو، AB نیگیٹو وغیرہ کے بلڈ گروپ کے افراد بہت مشکل سے مل پاتے ہیں جبکہ خصوصا ان کے لیے زندگی کسی آزمائش سے کم نہیں کہ جنہیں ایک ماہ میں 3 یا اس سے بھی زائد بار بلڈ ٹرانسفیوڑن کی ضرورت پڑتی ہے اور نایاب خون کی وجہ سے خون کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بروقت خون نہ ملنے کی وجہ سے بہت سی قیمتی جانیں اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ انسانی زندگی میں خون کی کیا اہمیت ہے یہ کوئی تھیلیسیمیا، ہیموفیلیا اور بلڈ کینسر جیسے مرض سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مریض بچوں سے جاکر پوچھے جن کا اپنا خون نہیں بن پاتا اور جنہیں زندہ رہنے کے لیے مسلسل خون کے عطیات کی ضرورت پڑتی ہے۔ یقینا یہ بہت بہادر، دلیر اور باہمت لوگ ہیں جن کی کل زندگی خون سے ممکن ہیاور جن کی زندگی جینے کو خواہش امید کی ایک کرن ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی اتنی ترقی کے باوجود بھی انسانی خون کے متبادل کوئی چیز نہیں بنا سکی جو اس کمی کو دور کرسکے۔ یہ خون نہ فیکٹریوں کی مشینوں میں بنتا ہے، نہ بازاروں سے کوئی خرید سکتا ہے اور نہ ہی یہ درختوں پر اگتا ہے بلکہ انسان کو ہی انسان سے مل سکتا ہے اور یوں زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔ انسانی خون کا یہ رشتہ ہر رنگ و نسل، مذہب، فرقے، جنس اور ہر تعصب سے پاک ہے۔ یہ خدمت خلق کا عملی اظہار ہے۔
ا?ج کے جدید دور میں بھی ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو خون کا عطیہ دینے سے گھبراتا ہے۔اس سے بچنے کے بہانے اور طریقہ تلاش کرتا ہے لیکن یہ صرف خام خیالی ہی ہے۔طبی تحقیقات کے حوالے سے دیکھا جائے تو خون عطیہ کرنے کے بعد انسانی جسم خون بنانے کا عمل مزید تیز کردیتا ہے اور دیے گئے خون کی کمی کچھ ہی دنوں میں نہ صرف پوری ہوجاتی ہے بلکہ صحت بھی مزید اچھی ہونے لگتی ہے۔ ہر انسان کے بدن میں تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ ہوتا ہے، ہر تندرست فرد، ہر تیسرے مہینے خون کی ایک بوتل عطیہ میں دے سکتا ہے۔ جس سے اس کی صحت پر مزید بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کا کولیسٹرول بھی قابو میں رہتا ہے۔ تین ماہ کے اندر ہی نیا خون ذخیرے میں آ جاتا ہے، اس سلسلے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ نیا خون بننے کے ساتھ ساتھ بدن میں قوت مدافعت کے عمل کو بھی تحریک ملتی ہے۔ مشاہدہ ہے کہ جو صحت مند افراد ہر تیسرے ماہ خون کا عطیہ دیتے ہیں وہ نہ تو موٹاپے میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ ان کو جلد کوئی اور بیماری لاحق ہوتی ہے۔ 18 سال سے 65 سال تک کے افراد اپنے خون کا عطیہ دے سکتے ہیں۔
خون عطیہ کرنے کے فوائد پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔ کسی انسان کو خون عطیہ دینے سے جو قلبی سکون و راحت ملتی ہے اس کا کوئی موازنہ نہیں۔ خون کا عطیہ صدقہ جاریہ اور جسم کی زکوٰ? ہے۔ خون عطیہ کرنے سے انسانی صحت مزید اچھی، جسم تروتازہ، چہرے پر تازگی اور اطمینان کا سبب ہے۔ جسم میں آئرن کی مقدار خون عطیہ کرنے سے متوازن رہتی ہے۔ خون عطیہ کرنے سے امراض قلب اور دل کا دورہ پڑنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ خون عطیہ کرنے سے جسم چست اور توانا رہتا ہے۔ خون عطیہ کرنے کے بعد جسم میں بننے والا نیا خون چہرے کو شادابی عطا کرتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسے افراد جو باقاعدگی سے خون دیتے ہیں وہ کینسر جیسے خطرناک مرض سے بہت حد تک محفوظ رہتے ہیں۔ خون عطیہ کرنے سے جسم میں خون کے جمنے کا عمل رک جاتا ہے اور خون کی گردش متوازن رہتی ہے۔ خون دینے سے جلد میں تنائو پیدا ہوتا ہے اور وقت سے پہلے پڑنے والی جھریوں سے نجات حاصل ہوجاتی ہے۔خون عطیہ کرنے سے جسم میں کولیسٹرول کی مقدار کنٹرول میں رہتی ہے۔ خون عطیہ کرنے کے بعد نیا خون جسم کو مزید طاقت بخشتا ہے۔
محفوظ اور معیاری خون کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے رضاکارانہ خون کے عطیات کی مہم کو قومی سطح اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مناسب اسکریننگ خون اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ایچ ا?ئی وی، ہیپاٹائٹس بی سی، سفلس اور ملیریا وغیرہ جیسی مہلک بیماریاں خون کی منتقلی سے منتقل نہ ہوں۔ باقاعدگی سے خون عطیہ کرنے والوں کی اس طرح مفت بلڈ اسکریننگ بھی ممکن ہوپاتی ہے جس سے اس کو اپنے بلڈ اور صحت کے متعلق مسلسل رپورٹ ملتی رہتی ہے۔
خون عطیہ کرنا ایک ا?سان اور انتہائی محفوظ طریق کار ہے، اس کے باوجود ا?بادی کا صرف ایک چھوٹا ساحصہ باقاعدگی سے خون عطیہ کرتا ہے۔ خون کے عطیہ کے عمل میں 15 منٹ سے زیادہ وقت نہیں لگتا۔ جسم میں ا?ئرن کی کمی سے ہارٹ اٹیک کے امکانات 88 فیصد تک کم ہو جاتے ہیں۔ مستقل خون کے عطیہ سے کینسر کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ خون کا عطیہ دینے والے کو مفت صحت کا تجزیہ اور بلڈ گروپ وغیرہ کا معلوم ہو جاتا ہے۔ وزن کم کرنے کا یہ تیز ترین طریقہ ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خون کا عطیہ انسانوں کی زندگیاں بچانے میں ایک ناقابل وضاحت روحانی سکون دیتا ہے۔ جہاں تک عطیہ کردہ خون کی بازیابی کا تعلق ہے، پلازما 24 گھنٹوں کے اندر تشکیل پاتا ہے؛ صحت مند سرخ خلیات 3-4 ہفتوں کے اندر بنائے جاتے ہیں جبکہ ا?ئرن 4-6 ہفتوں کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ مرد اور عورت بالترتیب تین اور چار ماہ کے اندر دوبارہ عطیہ دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں خون کے عطیہ کرنے والوں کی مشکلات میں سے چنداہم مشکلات یعنی بغیر اسکرین شدہ خون، غیر تربیت یافتہ طبی عملہ، غیر معیاری خون کی منتقلی کے ا?لات، پیشہ ور عطیہ دہندگان سے خون جمع کرنے کے بارے میں عدم ا?گاہی، اور خون کے اجزائ کو استعمال کرنے کے بجائے پورے خون کا استعمال کرنا انتہائی سنجیدہ مسائل ہیں۔ جس طرح خون سے زندگی ملتی ہے اسی طرح غیر معیاری اور غلط بلڈ سے کسی کی جان بھی جا سکتی ہے جس کے لیے حکومتی سطح پر مناسب اقدامات اور قانون سازی کی ابھی ضرورت ہے۔ لوگ اکثر اس لیے بھی خون نہیں دیتے کہ انہیں اعتماد نہیں ان کا رضاکارانہ عطیہ خون کسی مستحق کے پاس پہنچ بھی پائے گا یا نہیں کہیں اسے خرید و فروخت یا اسکا غلط استعمال نہ کیا یا منافع کمایا جائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ ایسے اداروں کا انتخاب کریں جو اس عظیم مشن میں ان مریضوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کررہے ہیں اور خود جاکر شہر کے تھیلیسیمیا سینٹرز کا وزٹ کریں جہاں دور دراز سے مریض انتقال خون کے لیے آتے ہیں اور جنہیں مفت یا غیر منافع کے سروسز فراہم کی جاتی ہوں تو وہاں آپ اپنا خون عطیہ کرسکتے ہیں اور مزید ضرورت پڑنے پر اپنی رجسٹریشن بھی کروا سکتے ہیں تاکہ اگر پھر کبھی کسی مریض کو بلڈ کی ضرورت پڑے تو آپ سے رابطہ کیا جاسکے۔
رضاکارانہ عطیہ دہندگان کی تعداد بہت کم ہے جو کہ کچھ صرف بڑے شہروں میں ہیں۔ چھوٹے قصبے اور شہر جہاں ہماری ا?بادی کا بڑا حصہ رہتا ہے، ہمیشہ محفوظ خون سے محروم رہتے ہیں۔ خون کے عطیہ دہندگان انسانیت کی ایک اہم خدمت فراہم کرتے ہیں اور یہ حقیقی معنوں میں خدمت خلق کا عملی مظاہرہ ہے۔ یاد رہے خون کے ایک عطیہ سے 3 معصوم زندگیاں بچائی سکتی ہیں جبکہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت جو بچالیا۔‘‘ (القرا?ن 5:32)۔ خون کا عطیہ صدقہ جاریہ، جسم کی زکوٰ? اور عین عبادت ہے۔
پاکستان کو اوسطا ًہر سال 30 سے 35 لاکھ بلڈ یونٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔ خون کے عطیہ دہندگان انسانیت کی ایک اہم خدمت فراہم کرتے ہیں۔ اگر صرف 1-3 فیصد ا?بادی رضاکارانہ اور باقاعدگی سے سال میں ہر 3 ماہ بعد اپنا خون عطیہ کرنا شروع کر دے تو خون اور خون کی مصنوعات کی ضرورت ا?سانی سے پوری کی جا سکتی ہے۔
حکومت اگر چاہے تو معصوم زندگیاں بچانے کے اس عظیم کام کے لیے خون عطیہ کرنے کے ریکارڈ کو نادرا کے سسٹم کے ساتھ منسلک کردے تو اس سے ناصرف صحت مند خون کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے جبکہ ڈونرز کا مستند ڈیٹا بھی اکٹھا ہو جائے گا۔ اسی کے ساتھ ساتھ 18 سال عمر کے افراد کے لیے شناختی کے حصول کے لیے خون کا عطیہ دینے کی شرط بھی رکھ سکتی ہے جس سے بڑی تعداد میں لاکھوں مریض مستفید ہوسکتے ہیں۔
اس مشن میں اعلیٰ تعلیمی اداروں یونیورسٹیز و کالجز کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہتے جہاں ہزاروں نوجوان طلبائ وطالبات زیر تعلیم ہیں اور جن کے خون کے عطیات سے کافی بہتری آسکتی ہے اور خون کی شدید قلّت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس نیک کام میں معاشرے کے ہر فرد کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے اور یقینا یہ ہماری سماجی و اخلاق زمہ داری اور دینی فریضہ ہے کہ ہم دوسروں کے کام آئیں۔ ہمارے خون سے کسی کو زندگی مل جائے اس سے بڑھ کر اوڈٹ عظیم کام کیا ہوسکتا ہے۔ معاشرے میں بڑھتے عدم برداشت، نفرت اور معمولی رنجش پر قتل و غارت سے دن بدن امن و امان شدید متاثر ہے جس کے لیے مثبت اور فلاحی کاموں کی ترغیب اور آگاہی سے ہی سے ہم ایک پرامن،خوشحالی اور صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ تو آؤ پھر زندگیاں بچائیں، خون کا عطیہ دیں، اور معصوم زندگیاں بچانے والے ہیرو بن جائیں۔